وحدت نیوز (جعفر آباد) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے صوبائی سیکریٹری جنرل ممتاز شیعہ عالم علامہ برکت علی بلوچ نے جاری کر دہ ایک بیان میں پارا چنار شہر میں امام بارگاہ کے قریب کار بم دھماکے کی پر زور الفاظ میں شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گرد تخریب کار اپنے مذموم مقاصد اور مکروہ عزائم میں انشاء اللہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفصاد میں پاکستان کی بہادر فوج سیکیورٹی اداروں اور فورسسز نے ان تکفیری دہشت گردوں کا تعقب جاری رکھا ہواہے، دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اس کو دین اسلام کے ساتھ جوڑنا سرا سر نا انصافی اور غلط ہے اسلام ایک آفاقی دین اور امن کا داعی ہے دین اسلام میں ایک فرد کا قاتل پوری انسانیت کا قتل ہے اس لیے تمام مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ متحد ہو کر دہشت گر دی کے نا سور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں اپنا کر دار ادا کر یں ،انہوں نے سانحہ پارا چنار میں قیمتی جا نوں کے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی اس موقع پر وحدت نیوز جعفر آباد کے ڈسٹرکٹ رپورٹر نذیر احمد ڈومکی ، شوکت علی حیدری اور دولت علی حیدری بھی موجود تھے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) آپ کا نام محمد بن علی بن موسی اور امام جواد کے لقب سے معروف ہیں۔آپ10 رجب سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور والدہ سبیکہ،خیزران یا ریحانہ خاتون ہیں۔

ولادت امام
شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔

امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرائمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں ۔

مبارک ترین مولود
امام محمد تقی علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام کی عمر کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کی ولادت سے قبل امام کی کوئی اولاد نہ تھی لہذا مخالفین کہتے تھے کہ "امام رضاعلیہ السلام سے کوئی نسل موجود نہیں ہے لہذا امامت کا سلسلہ منقطع ہوگا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو پیدائش کے بعد امام رضا علیہ السلام کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: هہذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم برکۃ علی شيعتنا منہ"۔یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔ ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابو یحیی صنعانی کہتے ہیں:{ إنا لعند الرضا عليہ السلام بمنی إذ جبئ بأبي جعفر عليہ السلام قلنا: هذا المولود المبارک ؟ قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم برکۃ منہ} ہم امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ عظیم برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا۔

آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمہ، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ

کرامات  امام
آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں ہم یہاں کچھ نمونے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

۱۔استجابت دعا
داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادعلیہ السلام کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آپ نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی"۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی۔  

۲۔درخت کا بارور ہونا
بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادعلیہ السلام کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امام نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔  مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امام نے پانی منگوایا اور درخت کے ساتھ بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالایا اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔  

مناظرات امام
امام محمد تقی   ؑ کے درباری علما اور فقہا سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ  رہا۔ہم یہاں بعض مناظرات کو بیان کریں گے:
مامون کے دور میں بغداد میں امام جوادعلیہ السلام کا ایک اہم مناظرہ یحیی بن اکثم کے ساتھ ہوا۔ مامون نے امام محمد تقی کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان [امام جواد] کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جوادعلیہ السلام کے درمیان مناظرے  کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔ مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم نے کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ آپ نے جواب میں فرمایا : اے یحیی ! تمہارا سوال بالکل مبہم ہے ،یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟، اس نے عمدا اس جانور کا شکار کیا تھا یا دھوکے سے قتل ہوگیا تھا؟ ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ؟، شکارپرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟چھوٹا تھا یا بڑا؟وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ ، رات کو چھپ کراس نے اس کا شکار کیا یا اعلانیہ طور پر؟، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔یحیی  کے چہرہ پر شکستگی کے آثار پیدا ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔مامون نے امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو ۔

امام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد "حل" میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا  اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ، یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منی میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمدا شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ، ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے ، آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا ۔ اس کے بعد امام جواد نے یحیی سے سوال کیا:اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتاو ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔

امام کی  زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاۃ یحیی بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا ، اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسول آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں ۔امام نے فرمایا : وہ عورت کسی کی کنیز تھی ،اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی ، حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی۔اہلیان دربار اور عباسی علما نے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔   

اسی طرح ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امام نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بےشک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الانسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ}  اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔ یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ {أنّ مثل أبي بکر وعمر في الاَرض كمثل جبرئيل وميکائيل في السماء} بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔  امام نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرئیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔

اصحاب و شاگردان امام
آپ کے زیادہ تر اصحاب آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور آپ کے فرزند فرزند امام ہادی علیہ السلام کے بھی شاگرد تھے جو مختلف فقہی اور اعتقادی کتابوں کے مصنفین و مؤلفین تھے ۔امام جوادعلیہ السلام کے اصحاب اور رواۃ کی تعداد تقریبا 120 ہے جنہوں نے تقریبا 250 حدیثیں آنجناب سے نقل کی ہیں۔ ان روایات کا تعلق فقہی، تفسیری اور اعتقادی موضوعات سے ہے۔ آپ کے اصحاب اور راویوں میں علی بن مہزیار، احمد بن ابی نصر بزنطی، زکریا بن آدم، محمد ین اسمعیل بن بزیع، حسن بن سعید اہوازی، عبدالعظیم حسنی، ابراہیم بن ہاشم قمی، زکریا بن آدم اور احمد بن محمد برقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امام جوادعلیہ السلام کے راوی صرف شیعہ ہی نہ تھے اہل سنت سمیت دوسرے فرقوں کے افراد نے بھی آپ سے روایات  نقل کی ہے۔

اہل سنت مشاہیر کے اقوال
مامون اور معتصم کے زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے مکالمات و مناظرات علما کو درپیش پیچیدہ فقہی مسائل کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوتے تھے اور شیعہ اور سنی علما کے اعجاب اور تحسین کا سبب بنتے تھے۔ چنانچہ اگر وہ ایک طرف سے شیعیان اہل بیت کے امام تھے تو دوسری طرف سے اہل سنت کے علماء نے بھی ان کی علمی عظمت کی تصدیق کی ہے اور آپکی علمی شخصیت کو ممتاز گردانا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر چند مشاہیر اہل سنت کے اقوال ذکر کرتے ہیں ۔

۱۔سبط ابن جوزی:امام جواد علم، تقوی، زہد و بخشش اور جود و سخا میں اپنے والد کی راہ پر گامزن تھے۔
۲۔ابن حجر ہیتمی:مامون نے انہیں اپنے داماد کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ کم سنی کے باوجود علم وآگہی اور حلم و بردباری کے لحاظ سے اپنے زمانے کے تمام علماء اور دانشوروں پر برتری اور فوقیت رکھتے تھے۔
۳۔فتال نیشابوری:مامون ان کا شیدائی ہوا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا کہ وہ کمسنی کے باوجود علم و حکمت، ادب اور عقلی کمال کے لحاظ سے اس قدر بلند مقام پر پہنچے ہیں کہ زمانے کا کوئی بھی عالم اور دانشور اس رتبے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
۴۔جاحظ عثمان معتزلی: وہ سب عالم و زاہد، عابد و شجاع اور کریم و سخی اور پاک و پاکیزہ ہیں۔

حوالہ جات
    کلینی، اصول کافی،ج1، ص492۔
    مفید،ارشاد ص ۴۷۳
   المناقب، ج4، ص394
   کلینی، اصول کافی، ج1 ص321۔
  مجلسی، بحارالانوار، ج50، صص20و23و35۔   شیخ مفید، الارشاد ص 279۔
    اعلام الوری ص ۲۰۰
   ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضۃ الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ۔
   شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص586۔
  ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص390۔ شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص278۔فتال نیشابوری، ص241و242۔
  طبرسی، احتجاج، ص443و444۔
      ق،۱۶۔
   طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
  سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304
  طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
   سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص359۔
   ہیتمی، ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص206۔
   فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص237۔
  عاملی، مرتضی، زندگانی سیاسی امام جواد، ص106 ۔


تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(آرٹیکل) ناکامی ہی کامیابی کا زینہ ہے۔ انسان ناکامیوں سے سیکھتا ہے۔ سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ناکامی کے اسباب کو سمجھا جائے۔ پارہ  چنار میں حالیہ بم دھماکہ پہلا یا آخری نہیں ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ  پارہ چنار میں ہونے والا نواں  دھماکہ ہے اور جغرافیائی لحاظ سے  پارہ  چناراسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

 اس کی ریاستی اہمیت یہ ہے کہ یہ کرم ایجنسی کا دارالحکومت ہے اور پاکستان کی تمام ایجنسیو ں میں دلکشی کے اعتبار سے منفرد اور رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا شہر ہے۔

دفاعی طور پر  پارہ  چنار انتہائی حساس علاقہ ہے ، چونکہ اس کے  ساتھ تین طرف سے افغانستان کا بارڈر لگتا ہے جبکہ صرف ایک طرف سے یعنی فقط  مشرق  کی طرف سے یہ علاقہ پاکستان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

یہ اس علاقے کے لوگوں کی پاکستان سے محبت اور نظریاتی وابستگی ہی ہے جس نے اس علاقے کو پاکستان کے ساتھ ملا کر رکھا ہوا ہے۔

دشمن طاقتوں نے ہر دور میں اس علاقے کو پاکستان سے جدا کرنے کی  اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی ہے ۔ سال ۲۰۰۵ میں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس علاقے کو  زمینی طور پر  بنگلہ دیش کی طرح پاکستان سے کاٹ کر الگ کردیاگیا۔اس دوران  یہاں کے لوگ  ایک لمبا چکر کاٹ کر افغانستان سے ہو کر  پارہ چنار پہنچتے رہے۔ بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ  ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ملک دشمن عناصر ، یہاں کے لوگوں کو اغوا کر کے ان کے جسموں کے ٹکڑے کرتے رہے اور انہیں لاپتہ کرتے رہے۔ چنانچہ آج بھی یہاں کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد لاپتہ ہے۔  اس کے علاوہ  حسبِ ضرورت ، افغانستان سے اس علاقے پر میزائل بھی داغے جاتے ہیں، یہاں پر میزائل داغنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ ملکی دفاع کی کے لئے ایک کیمپ کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان ساری مشکلات کے دوران یہاں کے باسیوں نے  آج تک وطن کی سلامتی پر کسی طرح کی آنچ نہیں آنے دی۔  چاہیے تو یہ تھا کہ پورا پاکستان مل کر یہاں کے عوام کی ہر ممکنہ مدد کرتا اور انہیں یہ احساس دلاتا کہ مشکل کی ہر گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

حق بات تو یہ ہے کہ آج تک  پارہ چنار کے لوگ ، افغانستان اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا مقابلہ تن تنہا کر رہے ہیں۔یہ ایک المیہ ہے کہ  جب یہاں کوئی  ناگوارواقعہ پیش آجاتا ہے تو پورے ملک کی سیاسی ، سماجی ،دینی اور سرکاری شخصیات چند مذمتی بیانات دینے کے بعد اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں اور یوں یہ علاقہ دوبارہ فراموشی کی نظر ہوجاتاہے۔

اتنے اہم علاقے میں بار بار بمب دھماکوں کا ہونا ، صرف سیکورٹی اداروں اور ملکی سلامتی کے ذمہ داروں کی  ہی ناکامی نہیں بلکہ  مجموعی اور قومی سطح پر ہم سب کی ناکامی ہے۔

ہمارا تعلق خواہ کسی اجتماعی، رفاہی، سیاسی یا مذہبی تنظیم سے ہو  یا پھر حکومتی سیٹ اپ  یا میڈیا سے ہو ، ہم سب مشترکہ طور پر   پارہ  چنار کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں۔

سیکورٹی کے حوالے سے ،  پارہ چنار کے عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں، ان کا جاننا، اور ان کے  حل کے لئے حکومت کو تذکر دینا ، اور ان مشکلات کو حل کروانا یہ ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔

ظاہر ہے جب ہم اپنی قومی ذمہ داری کو ادا نہیں کریں گے تو قومی سطح پر ناکام ہی ہوں گے۔ ایک دانشمند کے بقول کسی بھی حکومت یا تنطیم یا ادارے کی ناکامی کی چار وجوہات ہیں:۔

۱۔ تنظیمی یا سرکاری عہدوں کا بغیر اہلیت کے مل جانا۔

جب کسی ادارے میں صلاحیت اور اہلیت کے بجائے، رشوت ، دھونس ، چاپلوسی یا دوستی اور رشتے داری کی بنا پر مسئولیتیں تقسیم ہونے لگیں تو پھر مسئولین اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بظاہر مسئول تو بن جاتے ہیں لیکن عملا  صلاحیت کے فقدان کے باعث وہ کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کرپاتے اور اسی طرح منصوبہ بندی سے ان کی دلچسبی بھی نہیں ہوتی لہذا ایسے لوگ  فقط بیانات تک محدود رہتے ہیں۔  کوئی واقعہ پیش آجائے تو بیان دے دیتے ہیں اور اسی کو اپنی کارکردگی بناکر پیش کرتے ہیں۔جس ملک کی  کلیدی پوسٹوں پر بیٹھنے والے فقط بیانات تک محدود ہو جاتے ہیں تو پھر اس ملک کو ناکام ریاست بننا ہی پڑتا ہے۔

آپ نیشنل ایکشن پلان سے لے کر آپریشن رد الفساد کو ہی لے لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ فقط بیانات کی حد تک تبدیلی آئی ہے۔ عملا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگر سرکاری سطح پر عملا کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تو پھر  اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے ہماری مذہبی  اور سیاسی تنظیموں نے ابھی تک کسی مشترکہ  پلاننگ کا اعلان کیوں نہیں کی!؟

یعنی ہمارے ہاں ہر طرف خواہ کوئی  سرکاری سیٹ اپ ہو یا غیر سرکاری ، یہاں ہر طرف مسئولین  موجود ہیں، لیکن اپنی مسئولیت سے عہدہ برا ہونے کا  مطلوبہ احساس  اور منصوبہ بندی نہیں ہے۔

اس بات کو ہم  پارہ  چنار کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ہم لوگوں نے کس قدر اپنی مسئولیت کو ادا کیا ہے!؟

۲۔ ناکامی کا دوسرا سبب کاموں میں شفافیت کا نہ ہونا ہے۔

ہمارے ہاں فعالیت تو بہت انجام دی جاتی ہے لیکن کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ آپ یہ جو فعالیت انجام دے رہے ہیں ، کیا اس وقت یہی فعالیت ہونی چاہیے!؟

مجازی فعالیت کر کے اصلی فعالیت پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔  مثلا اگر کسی ادارے کی طرف سے کہیں پر   تعلیم و تربیت کا کام کرنے کا عزم کیا جائے تو  اکثر اوقات چند   افراد آپس میں  مل کر اپنے ہی عزیزوں اور رشتے داروں  اور اپنی پارٹی یا تنظیم کے حوالے سے  افراد کی تعداد کو دیکھ کر ہی کوئی تعلیمی ادارہ کھولیں گے یا پھر سکالر شپ دیں گے۔بظاہر تعلیم و تربیت کے نام پر ہی فعالیت ہورہی ہوتی ہے لیکن در حقیقت  صرف اپنوں کو نوازا جاتا ہے۔

 اسی طرح اگر کہیں پر لوگوں میں غربت و افلاس اور پسماندگی  کا مسئلہ ہو تو لوگوں کی اقتصادی و اجتماعی مشکلات کو حل کرنے ، نیز بیواوں اور یتیموں کی سرپرستی کے بجائے وہاں پر ایک مسجد یا مدرسے کی عمارت کھڑی کر دی جاتی ہے اور  تمام ممکنہ ذرائع سے روپیہ پیسہ جمع کر کے اس عمارت پر صرف کردیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں بڑی بڑی شاندار بلڈنگیں تو بن جاتی ہیں لیکن انہیں آباد کرنے کے لئے دوردراز سے بچوں کو لاکر بھرتی کیا جاتا ہے۔ یوں مقامی لوگوں کی حالت جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ بظاہر اس علاقے میں فعالیت تو ہو رہی ہوتی ہے لیکن مطلوبہ فعالیت پر گردو غبار ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم لوگ اداروں کی رپورٹس دیکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ  یہ فعالیت اس علاقے کی ضرورت کو کس حد تک  پورا کرتی ہے!؟

فقط فعال ہونا کافی نہیں ہے بلکہ درست سمت میں فعالیت ضروری ہے۔ ہمیں  پارہ  چنار  کے حوالے سے بھی اپنی فعالیتوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے وہاں پر شہدا اور لاپتہ ہونے والے افراد کے یتیموں اور بیواوں کی سرپرستی کے لئے اب تک کیا عملی کام کیا ہے!؟

۳۔ ناکامی کا تیسرا سبب ایمانداری کا فقدان ہے۔

اگر قومی و ملی اداروں میں ایمانداری کے بجائے خانہ پری سے کام لیا جائے گا تو بلاشبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہمارے ہاں جس طرح سرکاری اداروں میں رشوت اور کرپشن کا دروازہ کھلا رہتا ہے اسی طرح غیر سرکاری اداروں میں بھی امور کی نظارت اور دیکھ بھال فقط برائےنام ہوتی ہے۔

جو لوگ نظارت اور دیکھ بھال پر مامور ہوتے ہیں ، ان کا منہ مختلف طریقوں سے بند کردیا جاتا ہے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں۔

ایسے ناظر اور مامور افراد، معاملات کا ایمانداری سے نوٹس لینے کے بجائے  فقط دستخط اور امضا کرنے والی  اور بیانات داغنے والی مشینیں بن جاتے ہیں۔چنانچہ  پریس ریلیز اورلیٹر پیڈز پر فقط ان کے نام چھاپے جاتے ہیں اور خطوط پر صرف ان کی مہریں ثبت کی جاتی ہیں۔  پارہ  چنار کے حوالے سے بھی یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم نے اس حوالے سے آج تک کسی کو  پارہ  چنار کی صورتحال پرناظر مقرر کیا تھا اور اس نے اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے انجام دیا ہے!؟

۴۔ناکامی کا چوتھا سبب ، احترام باہمی کا فقدان

ہمارے  اردگرد بہت سارے مخلص  اور انتھک محنت کرنے والے موجود ہوتے ہیں، لیکن ان  میں “دوسروں کے  احترام  کے“نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ وہ کام  تو بڑی محنت اور جانفشانی سے کرتے ہیں لیکن دوسروں کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ خود دوسروں سے کٹ جاتے ہیں بلکہ وہ جس ادارے سے وابستہ ہوتے ہیں، اسے بھی دوسروں کی نظر میں منفور بنا دیتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ  کسی بھی ادارے کی جتنی خدمت کرتے ہیں اس سے زیادہ اس کے بارے میں نفرت پھیلا تےہیں۔

دوسری تنظیموں اور اداروں سے ہٹ کر خود ان کا اپنے ہی ادارے کے لوگوں  اور دوستوں کے ساتھ برتاو فرعونوں کی طرح کا ہوتا ہے۔  جب تک  ہمارے اداروں سے  من مانی، فرعونیت  اور انانیت کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔

 پارہ چنار میں قومی سلامتی کے حوالے سے ہماری ناکامی  کی ایک اہم وجہ  وہاں کی سرکاری انتظامیہ میں پائی جانے والی فرعونیت ہے۔  وہاں پر عوامی مطالبات کو اصلا اہمیت نہیں دی جاتی اور دھماکوں کے بعد ہونے والے مظاہروں پر بھی گولی چلا دی جاتی ہے۔

اب تک کتنے ہی لوگوں کو مظاہروں کے درمیان گولیاں مار کر شہید کیا گیا ہے لیکن اس فرعونیت کے خلاف ہماری سیاسی اور قومی تنطیمیں بالکل خاموش ہیں۔

جب تک ہم  پارہ  چنار میں فرعونیت کا راستہ نہیں روکیں گے تب تک وہاں امن و سلامتی کے حوالے سے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔

اگر ہم نے ناکامی سے کامیابی کی طرف سفر کرنا ہے تو پھر پارہ چنار کے حوالے سے فقط حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے ، ہمیں اپنی اجتماعی مسئولیت، شفافیت، ایمانداری اور باہمی ادب و احترام پر بھی  توجہ دینی پڑے گی۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اگر پاراچنار کی سلامتی کے حوالے سے ہماری قومی تنظیموں اور اداروں کے پاس کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہوتو اسے حکومت کے سامنے رکھا جاسکتا ہے لیکن اگر ہماری کوئی پلاننگ ہی نہ ہوتو پھر ہمیں ابھی سے یہ جان لینا چاہیے کہ فقط بیانات سے ہم صورتحال پر قابو نہیں پا سکتے۔ بیانات دینا بھی ایک فعالیت ہے لیکن  یہ پاراچنار کے حوالے سے مطلوبہ فعالیت  نہیں ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(ہری پور) مجلس وحد ت مسلمین خیبر ختونخواکے صوبائی جنرل سیکرٹری علامہ محمد اقبال بہشتی نے پارا چنار دھماکہ کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے اگر دہشت گردی کے خلاف گذشتہ ا ٓپریشن کامیاب ہوتے تو آج نام بدل بدل کر نئے آپریشن شروع کرنے کی نوبت نہ آتی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے شیعہ رہنما نیئرعباس جعفری کی رہائش گاہ پر ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیااس موقع پر صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری علامہ وحید عباس کاظمی نصرت شاہ اور دیگر بھی موجود تھے۔

 انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے تعاون سے پالے ہوئے دہشت گردوں نے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا کر رجب کے مقدس ماہ کی حرمت کو پامال کیا ہے اس ماہ میں تو کفار اور مشرکین بھی خون بہانا جائز نہیں سمجھتے تھے افغانستان سے ملحقہ سرحد کے علاقہ میں پے درپے وارداتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں داعش موجود ہے حکومت کے اس حوالے سے بیانات میں تضادات ہیں کبھی انکار کرتی ہے تو کبھی اعتراف کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کی کمزور گرفت کی وجہ سے دہشت گرد بے گناہ لوگو ں کے خون سے کھیل رہے ہیں پارا چنار وہ علاقہ ہے جہاں جب چھ ایجنسی میں پاکستانی پرچم سرنگوں تھے اور طالبان کا ہولڈ تھا تو پارا چنار کے محب وطن عوام نے اس وقت بھی پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیا آج ان کو ان کی حب  الوطنی کی سزا دی جارہی ہے اور شہید ہونے والوں کے لواحقین کو احتجاج تک کا حق حاصل نہیں اور احتجاج کرنے والوں کو شہید اور زخمی کیا جارہاہے تازہ واقعہ میں بھی شہید ہونے والوں کے چھ لواحقین کو گولیاں مار کر زخمی کیا گیا ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف احتجاج کیا ردالفساد آپریشن کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اگر پہلے آپریشن کامیاب ہوتے تو آج نام بدل کرنئے آپریشن کی ضرورت نہ پڑتی نئے نئے ناموں پر نئے ڈرامے کیے جارہے ہیں انھوں نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ سابقہ راحیل شریف داعش بنانے والے امریکہ اسرائیل اتحاد کے سربراہ بن گئے ہیں ۔

وحدت نیوز(پراچنار) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے رہنماوں نے پاراچنار کا دورہ کیا، وفد میں صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ محمد اقبال بہشتی، ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید عبدالحسین، علامہ سیدین، سید قاسم رضا، شبیر ساجدی، مسرت حسین اور شفیق حسین شامل تھے۔ اس موقع پر انہوں نے شھداء کے درجات کی بلندی کیلئے فاتحہ خوانی کی اور مرکزی جامع مسجد کے پیش نماز علامہ فدا حسین مظاہری سمیت دیگر علمائے کرام سے ملاقات کی۔ ملاقات میں وفد نے تعزیت پیش کی اور پاراچنار کی موجودہ صورتحال سمیت آئندہ کے معاملات پر تفصیلی مشاورت ہوئیں۔ بعدازاں وفد نے مجلس علماء اہلبیت (ع) کے اور تحریک حسینی کے دفاتر میں علامہ عابد حسین الحسینی ودیگر علماء و تنظیمی رہنماوں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔

وحدت نیوز(کراچی) کے الیکٹرک کی نجکاری سے ملک و قوم کم و پیش اتنا ہی نقصان پہنچاہے جتنی تکفیری دہشتگردی سے ملک و قوم کو پہنچا ہے کے الیکڑک حکومت کی چھتری تلے کراچی کے عوام دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے ،لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رنگ رہی اب بھی وقت ہے کہ ملک اور وقوم کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے کے الیکڑک کا سخت سے سخت احتساب کیا جائے نواز حکومت کے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوئے دھرے کے دھرے رہے گئے ،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکرٹری اطلاعات آصف صفوی نے وحدت میڈیا سیل کے نمائندگان کی تربیتی نشت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ،انہوں نے کہا کہ صارفین سے زائد بلنگ کے زریعے بھاری رقوم بٹورنا کارخانوں کی بجلی منقطع کر کے عوام کو بے روزگار کرنے کا کے الیکٹرک کا وتیرہ ہے جبکہ کراچی جیسے حساس شہر میں کے الیکڑک نے طبقاتی کنکشن میں نہایت خاموشی سے خطرناک ھد تک اضافہ کردیا ہے جس کت تحت پوش علاقوں میں بجلی چوری کی وارداتوں کے باوجود لوڑشیڈنگ نہیں کی جاتی جبکہ وقت پر بجلی کا بل ادا کرنے والے مڈل کلاس صارفین کو کئی گھنٹے لوڈشیدنگ کے آذاب سے گزرنا پڑتا ہے ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree