وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام تین روزہ مرکزی کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس کی آخری نشست میں ملک بھر سے آئے ہوئے سینکڑوں جید  علمائے  کرام،مدارس وجامعات  دینیہ کے مہتم حضرات اورآئمہ جمعہ والجماعت کا  علمائے شیعہ کانفرنس کے عنوان سے ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا ، جس کے اختتام پرمجلس وعلمائے شیعہ پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔

مجلس علمائے شیعہ پاکستان کے اس اجتماع میں درج ذیل قرار دادیں اکثریت رائے سے پاس کی گئیں۔

1-مجلس علما شیعہ پاکستان ملک کی موجودہ صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے ۔ آئیڈیالوجی اور مسلک کے نام پر تکفریت کے پرچار کو پاکستان کی سلامتی اور فیڈریشن کے لئے زہر قاتل سمجھتی ہے ۔ اور مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت ایسے تمام افراد ، اداریاور مدارس جو تکفیری سوچ کو پروان چڑھانے میں ملوث ہوں ان کے خلاف آپریشن ردالفساد کے تحت بھر پور کاروائی کرے اور اس سلسلے میں رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پورے ملک میں مکمل اختیارات کے ساتھ کاروائی کا حکم دیا جائے۔

2-مجلس علما شیعہ پاکستان ملک میں جاری ردالفساد آپریشن کی حمایت کرتی ہے ،لیکن دہشت گردوں کی علمی ،نظریاتی اور صحافتی سہولت کاروں کو بھی ردا لفساد کے تحت قانون کے شکنجے میں لانے کا بھر پور تقاضا کرتا ہے ۔

3-مجلس علماِ شیعہ پاکستان وطن عزیز میں وحدت بین المسلمین کی مکمل حمایت کرتی ہے اور اس ہدف کے حصول کے لئے ہر طرح سے کوششیں جاری رکھے گی ۔

4-مجلس علماِ شیعہ پاکستان وحدت بین المومنین کو ایک بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے داخلی وحدت کی کوشش جاری رکھےگی ۔

5-مجلس علماِ شیعہ پاکستان عسکری اتحاد کے نام پر پاکستان کو عالمی سازش کا شکار کرنے کی پرزور مذمت کرتی ہے اورمسلم ممالک کی تنازعات میں غیر جانب دار رہ کر کر ثالثی کے کردار کی حمایت کرتی ہے۔

6-مجلس علما شیعہ پاکستان وطن عزیز کی نظریاتی ،فکری اور ثقافتی سرحدوں کے دفاع کے لئے ہر سطح پر اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔

7- مجلس علماِ شیعہ پاکستان تمام بے گناہ اسیروں جن میں علما کرام (مولانا عقیل خان، مولانا ظہیر الدین بابر، مولاناارشدجعفری )اوردیگر شخصیات ہیں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتی ہے ۔اور ماورائے عدالت اغواکی پرزور مذمت کرتی ہے اور حکومت وقت سے مطالبہ کرتی ہے کہ سعودی ایما پر مکتب اہل بیت  کے پیروکاروں پر ناروا سلوک بند کرے۔

 8-مجلس علماِ شیعہ پاکستان میں استحکام کیلئے وزارت مذہبی امور سے مطالبہ کرتی ہے کہ بین المذہبی و بین المسلک ہم آہنگی کیلئے قومی کانفرنس بلائی جائے اور سرکاری سطح پر داعش کی فکرسے ا ظہار بیزاری کیا جائیاور داعش سے کسی بھی طرح کی قربت رکھنے والوں کے خلاف سخت کروائی کرے۔

9-آج کی کانفرنس پاکستان میں سیاسی عمل کے استحکام اور جمہوریت کے فروغ کیلئے مطالبہ کرتی ہے کہ ملکی سلامتی کے تمام فیصلوں کی توثیق پارلیمنٹ سے لی جائے تاکہ ملک دشمن عناصر کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ ملکی دفاع میں سیاسی و عسکری قیادت مکمل طور پر ہم آہنگ و متفق ہے۔
 
10-آج کی کانفرنس اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان کی بقا ، سلامتی اور اس کی ترقی و خوشحالی اس بات مضمر ہے کہ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نظریات پر عمل پیراہوں اور اس پاکستان کو صحیح معنوں میں قائد کا پاکستان بنائیں۔ جسمیں تمام مسالک کو آزادی حاصل ہو اور ہر پاکستانی کو بنیادی حقوق حاصل ہوں۔

11-آج کی کانفرنس اس بات پر متفق ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور رآپریشن ردالفساد کے تحت کالعدم جماعتوں کو مختلف ناموں سے کام کرنے سے روکا جائے علاوہ از یں سابقہ آپریشنز کی کامیابیوں اور ناکامیوں اور اس کی وجوہات کو بیان کیا جائے۔ مختلف عدالتی کمیشنز کی رپورٹ کو عوامی مفاد کیلئے جاری کیا جائے۔

12-مجلس علما شیعہ پاکستان یمن میں سعودی جارحیت اور اس کے نتیجے میں یمن میں حالیہ انسانی بحران کی بھر پور مذمت کرتی ہے اور امت مسلمہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مسلم ممالک پر حملے کی مذمت کریں۔

13-مجلس علماِ شیعہ پاکستان شام میں کفریہ ،فوریاکے عوام پر دہشت گردانہ حملوں اور شامی ایئر بیس پر امریکی حملے کی بھر پور مذمت کرتی ہے۔

14-مجلس علما  شیعہ پاکستان رسول اکرمۖکی حرمت کو ہر چیز سے افضل گردانتی ہے۔ لیکن کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئےکہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کربیگناہ لوگوں کا قتل عام کرے۔ قانون توہین رسالت کا غلط استعمال بند ہونا چاہئے۔

15-مجلس علما شیعہ پاکستان ولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کے بے رحمانہ قتل کی مذمت کرتی ہے۔ کسی کو توہین رسالت کے نام پر حضرت رسول اکرم ۖکے ماننے والوں کے قتل کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے ذیلی ادارے مجلس علمائے شیعہ پاکستان کے نامزد مرکزی صدرعلامہ مرزا یوسف حسین نے علمائے شیعہ کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی شوریٰ عالی اور علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے جو بھاری ذمہ داری میرے کاندہوں پر ڈالی ہے میں اس کے قابل تو نہیں تھا البتہ علمائے کرام اور ملت تشیع کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا،یہاں موجود اور ملک بھر کے علمائے کرام اوراکابرین ملت سے تعاون اور رہنمائی کا طلبگار ہوں، تاکہ مشاورت کے ساتھ ملت کودرپیش مسائل کے حل کیلئے علمائے کرام اپنا مجموعی کردار ادا کرسکیں ،انشاءاللہ جلد ملک بھر میں مجلس علمائے شیعہ کے تنظیمی ڈھانچے کو عملی شکل دی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہاکہ ہمیں  دین کی حفاطت کے لیے ہر طرح کی مشکلات کے لیے خود کو تیار رکھنا ہو گا۔اس وقت اسلام دوحصوں میں بٹ چکا ہے۔ایک اسلام محمدی ہے اور دوسرا اسلام امریکیائی ہے۔ امریکہ کو حقیقی اسلام سے خطرہ ہے۔ اس حقیقی اسلام کی نمائندگی ملت تشیع کر رہا ہے۔ایسا اسلامی اتحاد جس کی حمایت امریکہ و اسرائیل کریں وہ عالم اسلام کے لیے کیسے نفع بخش ثابت  ہو سکتا ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) مقدمہ:شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت  کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن  ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چا ہیے اور ایسے فرد کو امام  منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو نیز معاشرے میں اسلامی احکام کو نافذ کر سکتا ہو  جیسا کہ ابن خلدون اس بارے میں لکھتے ہیں:{وقصاری امرالامامۃ انہا قضیۃ مصلحیۃ اجماعیۃ ولا تلحق با لعقائد}۱مسئلہ امامت کے بارے میں بطور خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ {اسلامی معاشرے کی }ضروریات کے مطابق اور اجماع مسلمین یا اجماع {ارباب حل و عقد }کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ عقائد کے ساتھ مربوط نہیں۔اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ الہیٰ قرار دیتا ہے ۔ امام پیغمبر اور نبی کی طرح خداوند متعال کی طرف سے معین ہوتا ہے۔ اسی لئے امام اور پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے سوائے اس کے کہ پیغمبر پر وحی ناز ل ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو وحی  الہیٰ ٰ پہنچاتا ہے لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہوتی کیونکہ  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و وحی کا سلسلہ ختم ہوا ہے ۔یہاں ہم قرآن کریم ،احادیث معصومین علیہم السلا م اور عقلی دلائل سے استفادہ کرتے ہوئے امامت کی مختلف ذمہ داریوں کو بیان کریں گے۔

1۔امام فضائل اخلاقی کا عملی نمونہ
امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں نفس کی تربیت کرنے اورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں  ۔امام رضا علیہ السلامنےامام کی جوصفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے بعض عبارت یہ ہیں ۔{الامام النار علی الیفاع،الحار لمن اصلی بہ ،والدلیل فی المہالک،من فارقہ فہالک}2۔ امام اس آگ کے مانند ہے جو کسی بلندی پر لوگوں کو راستہ دکھانے کے لئے روشن کی جائے۔امام ہلاکت خیز میدانوں میں صحیح راستہ بتانے والا ہے۔ جو اس سے الگ رہا  ہلاک ہوا ۔

حضرت علی علیہ السلا م بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کے نام خط میں لکھتے ہیں :{ الا و ان لکل ماموم اماما یہتدی بہ و یستضیئ بنور علمہ،الا و ان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ و من طعمہ بقرصیہ ، الا و انکم لا تقدرون علی ذلک و لکن اعینونی بورع و اجتہاد و عفہ و سداد}3۔یاد رکھو کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ اقتداء کرتا ہے اور اسی کے نور علم سے کسب ضیا ء کرتا ہے ۔ تمہارے  امام نے تو اس دنیا میں صرف دو بوسیدہ کپڑوں اور  دو روٹیوں پر گزارہ کیا ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ ایسا نہیں کر سکتے  لیکن کم از کم احتیاط ، کوشش ، عفت اور سلامت روی سے میری مددتو کرو۔

امام کے اس کلام میں سب سےزیادہ امامت کے اخلاقی و تربیتی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ آپ ؑسعی وکوشش، عفت ،تقوی ،پرہیز گاری، قناعت و سادگی وغیرہ پر زیادہ زور دیتے ہیں کیونکہ عثمان بن حنیف کسی ایسی محفل میں شریک ہوا تھا جہاں ثروتمند لوگ جمع تھے اور اس محفل میں کوئی غریب شامل نہیں تھا ۔

2۔ معارف دینی کی تعلیم
 نبوت کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف کتاب و حکمت کی تعلیم ہے ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ يُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الحکْمَۃ}{نبی انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے } قرآن و حکمت کی تعلیم کا مرحلہ تلاوت قرآن اور وحی کے ابلاغ کے بعد کا ہے  ۔{ يَتْلُواْ عَلَيہْم}{ ان کےسامنے آیات کی تلاوت کرتا ہے} شریعت و وحی کا ابلاغ نبوت کےساتھ مختص ہے لیکن ختم نبوت کےساتھ معارف و احکام دین کی تعلیم ختم نہیں ہوتی ۔خاص طور پر مختلف سیاسی اور اجتماعی موانع کی وجہ سے مسلمان عصر رسالت میں  تمام معارف و احکام اسلامی سےآشنا  نہ ہو سکے ۔ علاوہ ازیں وحی پر مبنی ان آسمانی معارف و احکام کو لوگوں تک نہ پہنچانے کی صورت میں غرض نبوت وہدف وحی حاصل نہیں ہوگا  لہذا عقل و حکمت کا تقاضا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعدان علوم و حقائق کو کسی ایسے فرد کے حوالے کرے جو آپ ؐکےبعد مناسب مواقع پر لوگوں کو معارف و احکام اسلامی بیان کرے ۔اسی بنا  پر ائمہ اطہار علیہم السلام کی حدیثوں میں  ان کے راسخون فی العلم ہونےنیز قرآن کے تمام حقائق و معارف سے آشنا ہونے  پرزور دیا گیا ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو علم کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ جیساکہ آپ ؐفرماتے ہیں :{انامدینۃ العلم و علی بابہا فمن اراد العلم فلیات الباب}4۔ میں علم کا شہر ہوں  اور علی اس کا دروازہ ہے  ۔پس جو شخص علم کا طالب ہو اسے دروازے سے داخل ہونا چاہیے۔
 
3۔ اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری
انسانی معاشرے میں ایک سیاسی نظام کی ضرورت  بدیہی امور میں سے ایک ہے ۔اسی لئے تاریخ بشریت  کی ابتداءسے لے کر اب تک ایسا کوئی انسانی معاشرہ پیدا نہیں ہو سکا جہاں ایک سیاسی نظام حاکم نہ ہو ۔البتہ تاریخ بشریت میں وجود میں آنے والے سیاسی نظاموں میں بہت سارے اختلافا ت موجود تھے ۔انسانی معاشرے میں سیاسی نظام قائم کرنے والے اکثر حاکموں نے ظلم و استبداد کی روش اختیار کی جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ حکومت کی ضرورتکے منکر ہوگئے  جنہیں{ Anarchist}}{حکومت مخالف عناصر} اور ان کے نظریہ کو { Anarchism}کہاجاتا ہے  ۔اسی طرح  تاریخ اسلام میں بھی بہت سے لوگوں نے حکومت  کی ضرورت کی مخالفت کی جیساکہ حکمیت کے مسئلے میں بہت سے لوگ فکری طورپر خطا کر گئے وہ حکم یعنی قانون ا ور حکم یعنی فرمانروا میں  اشتباہ  کرکئےاور اس آیت {لاحکم الا لله} سے استدلال کرتے ہوئےاصل حکمیت کے  ہی منکر ہوگئے اور اسے ناجائز قراردے کر  حضرت علی علیہ السلام اور باقی افراد کوکافر قراردینےلگے۔ اگرچہ ان حالات میں حکمیت کا مسئلہ عاقلانہ و مصلحت آمیز نہیں تھا۔اسی لئے حضرت علی علیہ السلام  اس کے سخت مخالف تھے لیکن  آپ ؑنے خوارج کے اصرار پر  مجبور ہوکر حکمیت کو قبول فرمایا البتہ اصل حکمیت عقل و وحی کے خلاف تو نہیں تھا ۔ آپ ؑنے مختلف مقامات پر خوارج کی غلطیوں کے بارے ارشاد فرمایا :جیساکہ{نعم لاحکم الا لله ، لکن ہولاء یقولون لا امرہ الا الله و لا بد للناس من امیر بر او فاجر} بے شک حکم صرف اللہ کا ہے لیکن ان لوگوں کا کہنا ہےکہ حکومت اور امارت بھی اللہ کے لئے ہے حالانکہ واضح سی بات ہے کہ نظام بشریت کے لئے ایک حاکم کا ہونا بہت ضروری ہے  چاہےنیک ہو یا فاسق ہو۔”یعنی اگرکوئی نیک و صالح امیر موجود نہ ہو اور معاشرے  میں ہرج و مرج کا خطرہ ہوتو لوگوں کو ناصالح امیر کی حکومت کو بھی قبول کرنا چاہیے۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خوارج جو حکومت مخالف تھے جب حروراء نامی جگے پر پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلا جو کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے حکومتی عہدوں کو  تقسیم کیا اور ہر  عہدے کے لئے الگ الگ مسئول مقرر کیا ۔

امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی  معاشرے کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے ۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود  الہیٰ  کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت  کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔5متکلمین کی طرف سےامامت کی جو مشہور تعریف بیان ہوئی ہے اس  میں بھی سیاسی  امامت مراد ہے ۔ مثلا یہ تعریف کہ  امامت سے مراد اسلامی معاشرے کےدینی اور دنیوی امور میں  لوگوں کی رہبر ی کرنا ہے {الامامۃ رئاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا}۔امام رضا علیہ السلام امامت کے بارےمیں فرماتے ہیں :{ان الامامۃ زمام الدین ، و نظام المسلمین، و صلاح الدنیا و عز المومنین ، ان الامامۃأس الاسلام النامی و فرعۃ السامی ، بالامام تمام الصلاۃ و الزکاۃ و الصیام و الحج و الجہاد و توفیر الفئ و الصدقات و امضاء الحدود و الاحکام و منع الثغور و الاطراف .الامام یحل حلال الله و یحرم حرام الله و یقیم حدود الله و یذب عن دین الله و یدعو الی سبیل ربہ بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ و الحجۃ البالغۃ}6۔امامت زمام دین اور نظام مسلمین ہے اور اس میں امور دنیا کی درستی اور مومنین کی عزت ہے ۔امامت اسلام کی مضبوط بنیاد  اوراس کی بلند شاخ ہے۔امام ہی سےنماز،زکوۃ،روزہ،حج وجہاد کا مل ہوتےہیں ۔ وہی مال غنیمت کا مالک ،صدقات کا وارث ،حدود و احکام کا جاری کرنے والااور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا ہے ۔امام حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام قرار دیتاہے ۔وہ حدود  الہیٰ  کو قائم کرتا ہے اور دشمنوں کو دین خدا سے دور کرتا ہےنیز لوگوں کو دین خدا کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کےذریعے بلاتا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے کامل حجت ہے ۔

مذکورہ مباحث سےواضح ہو تا ہے کہ امام کی ذمہ داری صرف  اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں  بلکہ  اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی  کی ذمہ داری میں شامل ہے۔مذکورہ بالا نکات پر شیعہ و سنی دونوں متفق ہیں ۔بعبارت دیگر کسی مذہب کے نزدیک بھی دین سیاست سے جدا نہیں ہے ۔شیعوں کے نزدیک سیاسی رہبری کا بہترین نمونہ اس وقت کامل ہو تا ہے جب امامت کے دوسرےپہلو بھی موجود ہوں۔ بنابریں  امام  وہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ،ہادی او ر ان کا رہنما ہو جو مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالےنیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی وجہ سے معاشرے میں واقع ہونے والے شگاف کو بھی پر کرے۔پس ان عالی ترین مقاصد تک رسائی حضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیات کےبغیر  حاصل نہیں ہو سکتی جنہیں  خداوند متعال نے جان ونفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قراردیا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معروف حدیث {من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ}7 {اگر کوئی وقت کےامام کی معرفت کےبغیرمر جائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے ۔} سےواضح ہوتا ہےکہ امامت صرف سیاسی جہت نہیں رکھتی کیونکہ معاشرےکے سیاسی رہبر کی عدم شناخت اور جاہلیت کی موت کے درمیان کوئی تلازم نہیں پایا جاتا ۔ اگر کوئی شخص کسی دور درازمقام پر زندگی گزار  رہا ہو  اور اسے اسلامی معاشرے کے سیاسی رہبر کے بارےمیں کوئی علم نہ ہو لیکن احکام دینی کو جانتا ہو اور وہ اس پر عمل کرتا ہو تواس شخص کے بارے میں ہر گز یہ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ شخص جاہلیت کی موت مرے گا ۔ بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ایک ایسے مقام و منزلت پر فائز ہے جوہدایت و گمراہی اور ایمان و کفر کا معیار ہے ۔

4۔ باطنی ہدایت
امامت کے مختلف  مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مقام نبوت و رسالت  کے بعد ہی مقام امامت پرفائز ہوئے جیسا کہ ارشاد ہوتاہے :{ وَ إِذِ ابْتَلیَ إِبْرَاہیمَ رَبُّہُ بِکلَمَاتٍ فَأَتَمَّہُنّ ۔۔۔۔}8اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور اس نے انہیں پورا کر دیا تو خدا نے کہا: ہم تجھے لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ البتہ مقام امامت کا مقام نبوت اورسالت سےبالاتر ہونےکا لازمہ یہ نہیں کہ امام کا مقام پیغمبر کےمقام سے بھی بالاتر ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص پیغمبر بھی  ہو اور امام بھی  ،جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی بھی تھے اور امام بھی ۔اما م رضاعلیہ السلام ایک مفصل حدیث میں امامت کی حقیقت اور اس کے اہداف نیز امام کی خصوصیات اور مقام و منزلت بیان فرماتے ہیں : کیا لوگ امامت اورمقام امامت کی قدر کو پہچانتے ہیں ؟کیا ان کو اس کے متعلق اختیار دیا گیا ہے ؟امامت منزلت کے لحاظ سے بہت ہی بلند و برتر ہےاور شان کے اعتبار سے بھی بہت عظیم نیز ان کا  محل و مقام بھی بہت بلند ہے اور اپنی طرف غیر کے آنے سےبھی مانع ہے اور اس کا مفہوم بہت ہی گہرا ہے ۔لوگوں کی عقلیں اس تک پہنچ نہیں سکتیں اور ان کی راہیں اس کو پا نہیں سکتیں۔ وہ اپنے اختیار سے اپنے امام کو نہیں بنا سکتے ۔خداوند متعال نے ابراہیم خلیلؑ کو امامت سے سرفراز کیا۔نبوت اور خُلّت کے بعد امامت کا مرتبہ ہے ۔خدا نے ابراہیم کو اس کا شرف بخشا اور اس کا یوں ذکر کیا :{ إِنی ّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا}میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خوش ہوکر کہا:اورکیاتو میری اولاد کو بھی امام بنائےگا؟اللہ نے فرمایا:{ لَا يَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِين}ظالم لوگ میرے عہدکو نہ پا سکیں گے۔اس آیت نے قیامت تک ہر ظالم کی امامت کو باطل کر دیا  ۔امام  محمدباقر علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتےہیں :{لنور الامام فی قلوب المومنین انورمن الشمس المضیئۃ بالنہار}9مومنین کےدلوںمیں امام کا جو نورہے وہ نصف النہار کے سورج سےزیادہ روشن ہوتا ہے۔

نتیجہ بحث:
شیعہ اور اہل سنت کے درمیان امامت کی ضرورت اور اس کے وجوب کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ شیعہ امامت  کے وجوب کو دلیل عقلی سے جبکہ اہل سنت اسےدلیل نقلی سے ثابت کرتے ہیں ۔ اہل سنت کے نزدیک اگرچہ منصب امامت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلافت و جانشینی ہے لیکن ان کے عقیدہ کے مطابق مسلمانوں کو آپس میں مل بیٹھ کر مشاورت کے ذریعے اس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے اور ایسے فرد کو امام  منتخب کرنا چاہیے جو اسلامی معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہو اس کے برعکس شیعہ امامت کو کار نبوت و رسالت کا استمرار و تسلسل سمجھتا ہے اور اسے مسئلہ  الہیٰ  قرار دیتا ہے۔

امام فضائل اخلاقی اور کمالات نفسانی کےلحاظ سے بلندمقام پرفائزہوتا ہے ۔وہ چمکتےہوئے سورج کے مانند ہے جس پر ہر کسی کی نظرہوتی ہے اور انسان انہیں کی وساطت سے انسانیت اور فلاح کےراستےکو پہچان سکتا ہے۔ لوگ انہیں  نفس کی تربیت کرنےاورفضائل اخلاقی کسب کرنے نیزرذائل اخلاقی کودور کرنے کے لئے نمونہ قراد دے سکتے ہیں  ۔ آیت اکمال، حدیث مدینۃ العلم اور وہ روایات جو حضرت علی علیہ السلام کےوسیع علم  پر  دلالت کرتی ہیں  اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ امامت کے پہلووٴں میں سے ایک مسلمانوں کو معارف و احکام  الہیٰ  کی تعلیم دینا ہے جبکہ حضرت علی علیہ السلام نے بعض معارف و احکام  الہیٰ  کو بیان فرمایا ہے اور بعض معارف و احکام  الہیٰ  کو دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام کے سپرد کیا  ہے ۔ امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اسلامی  معاشرے  کی سیاسی رہبری ہے جس پر تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے۔اسی طرح اسلامی معاشرے میں نظم و ضبط اور امن و امان کا قیام،فتنوں اور شورشوں کی سرکوبی،دشمنوں سے جنگ ، حدود  الہیٰ  کانفاذ کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا وغیرہ امامت  کےمختلف سیاسی پہلو ہیں ۔ بنابرین امام کی ذمہ داری صرف  اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری اورمسلمانوں کے امور کو نمٹانانہیں  بلکہ  اسلامی معاشرے کےمعنوی اور دینی مصالح کی بجا آوری بھی اما م ہی  کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ امامت کے مختلف   مراتب میں سے ایک اس کا عرفانی اور معنوی پہلو بھی ہے ۔ امامت کا یہ مرتبہ نبوت و رسالت سے بھی بالاتر ہے۔ بنابریں امام کی باطنی ہدایت  ایصال الی الطریق نہیں ہوتی بلکہ ایصال الی المطلوب ہوتی ہے، یعنی  امام صرف راستہ نہیں دکھاتابلکہ  منزل تک پہنچاتا ہے ۔

حوالہ جات:
۱۔ اصول کافی ،ج1 ،ص 155۔ باب نادر فی جامع فضل الامام و صفاتہ۔
۲۔نہج البلاغہ، نامہ 45۔
3 ۔المستدرک،ج3،ص 127۔ البدایۃ و النہایۃ ،ج7،ص359۔
۴۔ شرح المواقف، ج8،ص346۔شرح المقاصد،ج5،ص233۔
۵۔ اصول کافی،ج1، کتاب الحجہ ،باب جامع فی فضل الامام۔
۶۔ شرح المقاصد ،ج5،ص 239۔شرح العقائد النسفیہ،ص110۔
۷۔ بقرۃ،144۔
۸۔ اصول کافی،ج1 ،کتاب الحجۃ،باب فی فضل الامام ،ص 154۔
۹۔اصول کافی ،ج ،کتاب الحجۃ ،ص 150،باب ان الائمۃ نور اللہ عزوجل ۔

تحریر۔۔۔۔ محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سالانہ مرکزی کنونشن کے دوسرے روز میڈیا کے نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بجائے لاٹھی گولی کا نظام چل رہا ہے۔ قومی اداروں کو ملک دشمنوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے پُرامن افراد کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔آئے روز ظلم و بربریت کے المناک واقعات کا رونما ہونامقتدر اداروں کا اپنی ذمہ داریوں سے لاتعلقی کی دلیل ہے۔پانامہ لیکس نے حکمرانوں کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ساری قوم لوٹے ہوئے قومی خزانے کی واپسی چاہتی ہے۔انہوں نے کہا پانامہ کیس کے فیصلے کا ہر پاکستانی کو بے صبری سے انتظا رہے۔عدالت عالیہ عوام کو اس اضطراب سے نکالنے کے لیے پانامہ کیس کا فیصلہ سنائے تاکہ ساری دنیا کو حقیقت سے آگاہی ہو۔انہوں نے کہا کہ غیر مسلم ممالک میں معمولی سی بدعنوانی کی مرتکب حکومتی شخصیات پوری قوم سے معافی مانگنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتیں لیکن ہمارے ہاں ناقابل معافی جرائم پر بھی ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو شرمناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کسی پراکسی وار کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ہم ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا ہو گا۔ افغانستان اور روس کے درمیان لڑی جانے والی لڑائی کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ ضیا الحق کے غیر مدبرانہ فیصلوں کے باعث ہماری ارض پاک پر منتقل ہو گئی جس کاخمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔انہوں نے کہا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم امت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔بھارتی بربریت پر اقوام عالم کی مسلسل خاموشی مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاری کے روایتی تعصب کی علامت ہے۔ پاکستان کو مسئلہ کشمیر موثر انداز میں عالمی فورمزپر اٹھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ولی خان یونیورسٹی میں نوجوان طالب علم مشعال خان کے بیہمانہ قتل کو المناک سانحہ قرار دیتا ہوئے کہاہے کہ اس درندگی کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ کسی بھی ملک میں سزا دینے کامرحلہ جرم ثابت ہونے کے بعد آتا جس کا اختیار مخصوص حکومتی اداروں کو حاصل ہے۔کسی شخص کو کسی دوسرے کی زندگی چھین لینے کا قطعاََ حق حاصل نہیں۔قتل کے اس واقعہ میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر پُرامن لوگوں کو ہراساں کرنا بند کیا جائے۔حکومت کے غیرآئینی اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو سی ٹی ڈی کے ذریعے دبایا جا رہا ہے ۔حکومت قومی اداروں کو انتقامی کاروائیوں کے لیے استعمال کرنے سے باز رہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کیا جائے۔مذہبی منافرت پھیلانے والی جماعتوں سے حکومت کا مفاہمانہ طرز عمل نیشنل ایکشن پلان کی نفی ہے۔حکومت کی یہ پالیسی دہشت گردوں کے حوصلوں کی تقویت کا باعث اور آپریشن رد الفساد کے راہ کی رکاوٹ ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) اس دور میں دین  اسلام تو بے چارہ ہوگیا ہے، بعض لوگ تو دین کو ایک پرمٹ کے طور پر استعمال کرنے لگےہیں،  اب آپ دینی لبادے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں، آپ اللہ اکبر کے نعرے لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹیں تو یہ بھی جہاد ہے، آپ اسلام کا نام لے کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مدد کریں تو یہ بھی نیکی ہے ، آپ کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور آپ مبلغ اسلام کہلوائیں تو یہ بھی رواہے،  آپ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمانوں پر خود کش حملے کریں تو یہ بھی جہاد ہے۔۔۔

گزشتہ دنوں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال یا مشعل نامی طالب علم کو جس بے دردری اور لاقانونیت کے ساتھ قتل کیا گیا، اس لاقانونیت کے لئے بھی دین کا سہارا ڈھونڈا جا رہاہے۔ میڈیا رپورٹس اور  پولیس حکام کے مطابق مقامی پولیس جب یونیورسٹی پہنچی تو مشتعل مظاہرین مقتول کی لاش جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔[1] یعنی اگر مقامی پولیس لاش کو اپنی تحویل میں نہ لیتی تو اس لاش کو جلا کر مزید ثواب  حاصل کرنے کا پروگرام بھی تھا۔

اس کے ساتھ ہی  اگر مقتول پر حملے کی ویڈیو دیکھی جائے تو اللہ اکبر کے نعرے بھی صاف سنائی دیتے ہیں۔ یعنی جو طریقہ داعش اور طالبان کا تھا وہی یہاں پر بھی نظر آرہاہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ داعش اور  طالبان کے تانے بانے مدرسوں سے ملائے جاتے تھے اور یہ سب کچھ ایک یونیورسٹی میں ہوا ہے۔

بس اب آپ یوں سمجھ لیجئے کہ  وہی دماغ جو طالبان اور داعش کے پیچھے فعالیت کررہاتھا اب یونیورسٹیوں میں بھی فعال ہو گیاہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مقتول توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو پھر بھی اسے سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے یا عام لوگوں کی!؟

ایک عرصے سے ہم سنتے چلے آ رہے تھے کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بھی قبضہ گروپس ہیں، ہاسٹلز میں کمروں پر قبضے کئے جاتے ہیں، خوف و ہراس پھیلایا جاتاہے، ہاسٹلوں میں دہشت گرد پناہ لیتے ہیں اور بڑی بڑی نامی گرامی دہشت گرد تنظیمیں یونیورسٹیوں میں طلبا کی برین واشنگ کررہی ہیں۔ وہ دعوے کتنے سچے تھے اس کا تو ہمیں کچھ علم نہیں لیکن اس حادثے کی ویڈوز دیکھنے کے بعد یہ حقیقت بالکل سمجھ میں آ رہی ہے کہ عدم برداشت اور خون خرابے کا جو طوفان  ہمارے بعض مخصوص مدارس سے اٹھا تھا اب اس نے ہماری یونیورسٹیوں کے اندر بھی اپنے وجود کا برملا اظہار کردیاہے۔

ہمارا قومی تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ عدم برداشت اور دینی لیبل کو استعمال کرنے کا یہ سلسلہ کبھی بھی دلیلوں اور مناظروں سے نہیں رک سکتا۔  ہمیں قومی و اجتماعی طور پر اس واقعے کو ایک یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے طور پر دیکھنے کے بجائے ، اپنی ملکی تاریخ میں متشدد تحریکوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔  ایسی تحریکیں جب شروع ہوتی ہیں تو ایک آدھ فرد سے ہی شروع ہوتی ہیں اور جب آگے بڑھتی ہیں تو ایک ناسور کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

پاکستان میں جب فرقہ واریت کی تحریک شروع ہوئی تھی تو ایک مخصوص فرقے کے  دینی مدارس کے طالب علموں نے شروع کی تھی،  ان دنوں میں  صرف ایک ہی فرقے کے خلاف تقریریں کی جاتی تھیں اور اسی فرقے کے افراد کو چن چن کر مارا جاتا تھا۔ دیگر فرقوں کے لوگ اس مسئلے سےلاتعلق اور خاموش رہتے تھے، پھر یہ مسئلہ اتنا آگے بڑھا کہ پاک فوج کے جوانوں سے لے کر مارکیٹوں اور بازاروں سمیت سب کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور اب دہشت گردی کسی ایک فرقے کے بجائے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔

یہ واقع بھی بظاہر ایک یونیورسٹی کے  طالب علم کے قتل سے شروع ہوا ہے ، اس پر یونیورسٹیز اور کالجز کے سنجیدہ حلقوں کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اس کی جڑیں  کہاں ملتی ہیں!؟

کوئی چاہے یونیورسٹی سے تعلق رکھتا ہو یا دینی مدرسے سے، ہم سب کے سامنے حضرت محمد رسول اللہ  ﷺ کی ذات گرامی بطور نمونہ عمل موجود ہے۔ آپ زندگی کے تمام پہلووں میں ہمارے لئے نمونہ عمل ہیں اور خداوند عالم نے بھی آپ کو عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

ختمِ نبوت ﷺ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان آپ ؐ کی سیرت طیبہ کو نمونہ عمل سمجھ کر اس پر عمل کریں۔

حضورﷺ نے اپنی حیات طیّبہ میں حسنِ اخلاق، عفو و درگزر، حلم اور معافی کی لافانی مثالیں قائم کی ہیں ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ کے سامنے ان گستاخوں کو بھی لایا گیا کہ جن میں سے کسی نے آپؐ کے چچا  حضرت حمزہؓ کے سینے میں نیزہ مارا تھا اور کسی نے ان کی لاش کا مثلہ کیا تھا اور کسی نے ان کا جگر چبایاتھا۔ سرور دوعالم ﷺ نے ان سارے گستاخوں کو معاف کر کے پورے عالم بشریت میں احسان و نیکی کی ایک لازوال مثال قائم کی۔

حضورﷺ نے  میدان جنگ میں لڑنے والوں اور جنگی قیدیوں کے لئے بھی آداب و اخلاق مقرر کئے اور آپ نے جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی شرائط مقرر کیں۔

لیکن آج لوگوں کے سامنے عفو و درگزر اور بخشش و احسان کو  فلٹر کر ایک مخصوص اسلام کو  پیش کیا جارہاہے۔  یونیورسٹیوں میں مذہبی قتل و غارت یقینا ایک افسوسناک المیہ ہے۔ اس طرح کے واقعات کو روکنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ  یونیورسٹیوں میں بھی ختم النبیین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیّبہ کو بطور نمونہ عمل پیش کیا جائے۔تمام سیاسی،رفاہی اوردینی جماعتوں  و  شخصیات کو لاتعلق رہنے کے بجائے اس مسئلے پر اپنا موقف پیش کرنا چاہیے اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرکے یونیورسٹیز کے طالب علموں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

حکومت کو چاہیے کہ  تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر یونیورسٹیوں سے قبضہ گروپس اور متشدد سوچ کا خاتمہ کرے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیاجائے ، چونکہ   یہ ایک منطقی بات ہے کہ کسی بھی ملک میں اس وقت لاقانونیت کو فروغ ملتا ہے جب لوگوں کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اٹھ جاتاہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ لاقانونیت کو جڑوں سے اکھاڑیں، اسی میں پاکستان اور اسلام کی بھلائی ہے۔

 

 

نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(لیہ) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری تنظیم سازی سید عدیل عباس زیدی نے کہا ہے کہ 16 اپریل کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی علماء شیعہ کانفرنس میں جنوبی پنجاب سے علمائے کرام کی بھرپور شرکت ہوگی۔ ملک بھر سے علمائے کرام کا یہ اجتماع ملت کو ٹھوس لائحہ عمل دے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک وفد کے ہمراہ ضلع لیہ میں مختلف علمائے کرام کیساتھ ملاقاتوں اور 16 اپریل کو منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کیا۔ وفد میں ایم ڈبلیو ایم شعبہ قم المقدس کے مسئول مولانا رضوان جعفری، ضلعی رہنماء سید غلام سرور شاہ اور محمد حمزہ شامل تھے۔ وفد نے بزرگ عالم دین اور جامعتہ القائم کے پرنسپل مولانا سید ابوذر نقوی اور مولانا سید عباس نقوی، جامعہ دارالقرآن کے پرنسپل مولانا ضیغم عباس میرانی، جامعتہ الرضا کے پرنسپل مولانا سید حسین، مولانا فاطر حسین، مولانا نیاز حسین گھگری، جامع مسجد مومن آباد کے خطیب مولانا سید قطب شاہ، المرکز تبلیغات اسلامی کے پرنسپل مولانا ذوالفقار حیدری، جامع مسجد ڈبی کربلا کے خطیب مولانا عبدالغفار، جامع مسجد حسینیہ کے خطیب مولانا سید سجاد شاہ سمیت دیگر سے ملاقاتیں کیں اور انہیں علماء شیعہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ اس موقع پر تمام علمائے کرام نے علامہ راجہ ناصر عباس کی ملت تشیع کیلئے جاری کاوشوں کو سراہتے ہوئے اس کانفرنس کو احسن اقدام قرار دیا اور کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی کرائی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree