وحدت نیوز (کراچی) سانحہ شکارپور سمیت دہشتگردی کے خلاف وارثان شہداء کمیٹی کے لبیک یاحسین لانگ مارچ کے شرکاء کا احتجاجی دھرنا نمائش چورنگی کراچی پر 2 روز سے جاری ہے، جبکہ سندھ حکومت کی درخواست پر وارثان شہداء کمیٹی کے چیئرمین علامہ مقصود علی ڈومکی کی سربراہی میں نمائندہ وفد اور حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات وزیراعلٰی ہاؤس میں ایک بار پھر جاری ہیں۔ واضح رہے کہ گذشتہ شب وارثان شہداء کمیٹی نے مذاکرات ختم کرکے مطالبات کی منظوری کیلئے سندھ حکومت کو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا، جس کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان آج کیا جانا ہے۔ قبل ازیں گذشتہ شب احتجاجی دھرنے سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی رہنما علامہ شہنشاہ حسین نقوی، علامہ صادق رضا تقوی، وارثہ شہید سہیل احمد شیخ نے خطاب کیا، جبکہ معروف نوحہ خوان شادمان رضوی نے شہداء کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

وحدت نیو(شکارپور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی وارثان شہدائے شکارپور کی قیادت میں کراچی کی جانب نکلنے والے لانگ مارچ میں شرکت کیلئے الصبح کراچی سے براستہ سڑک شکار پور پہنچ چکے ہیں ، علامہ امین شہیدی لانگ میں شریک خانوادگان شہداء، اہلیان سندھ اور دیگر علمائے کرام کے ہمران بروز منگل کراچی پہنچیں گے،جبکہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری بھی کل صبح لانگ میں شرکت کیلئے لاہور سے کراچی پہنچ جائیں گے۔

 

وحدت نیوز (پشاور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری کی حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں سانحہ حیات آباد کے زخمی نمازیوں کی عیادت کے دوران گورنرخیبر پختونخواسردار مہتاب اور وفاقی وزیر برائے آئی ڈی پیز جنرل (ر)عبدالقادر بلوچ سے ملاقات ہوئی، اس موقع پر علامہ ناصرعباس جعفری نے دونوں رہنماوں سے سانحہ جامع مسجد امامیہ میں بے گناہ نمازیوں کے قتل عام پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا ، ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وصوبائی حکومتیں شیعہ کمیونٹی کی منظم نسل کشی پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں ، پاکستان میں اہل تشیع کا مسجدوں میں نماز ادا کرنا جرم بن بیٹھا ہے، پندرہ روز میں نمازیوں پر دہشت گردوں کا یہ دوسرا بڑا حملہ ہے جبکہ اعلیٰ حکومتی اور فوجی سربراہان دہشت گردوں کے خلاف ملک گیر فوجی آپریشن کے مطالبے پرغیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کی بربریت کے خلاف ہم نے بغیر کسی تعصب کے اپنا قومی موقف پیش کیااور عوامی امنگوں کی ترجمانی کی لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اہل تشیع پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد حکومتی اور فوجی قیادت وہ موقف اختیار نہیں کرتی جو کسی فوجی اور حکومتی اہلکار کی شہادت پر کرتی ہے ، جس سے اہل تشیع میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے،   گورنر کے پی کےسردار مہتاب  اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے علامہ ناصر عباس جعفری کے اعتراضات کو بغور سنا اوران کے تدارک کی تقین دہانی بھی کروائی، بعد ازاں موقع پر موجود تمام رہنماوں اور زخمیوں کے اہل خانہ نے شہدائے امامیہ مسجد کےایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی۔

وحدت نیوز (گلگت) برمس کے عمائدین نے وحدت ہاوس گلگت میں مجلس وحدت مسلمین کے ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ شیخ عاشق حسین ناصری اورصوبائی ترجمان الیاس صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ وفاقی حکمران جماعت کی نظر میں گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے حالانکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کرکے اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے اور 28 ہزار مربع میل پر مشتمل خطہٌ گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کردیا۔یہ اس علاقے کے عوام کی بدقسمتی سمجھئے یا ملک عزیز پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر براجمان حکمرانوں کی نااہلیت، کہ 68 سال گزرنے کے باوجود اس علاقے کے عوام کو قومی و صوبائی اسمبلی کی نمائندگی حاصل نہ ہوسکی۔ ماضی میں آئینی حقوق کے حصول کیلئے کئی آوازیں بلند ہوئیں لیکن حکمرانوں نے اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے ان آوازوں کو خاموش کرادیا اور یوں آج تک علاقے کے عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حقوق کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔

 

خطہ گلگت بلتستان جو بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے تاکہ آنیوالی نسلیں ان وسائل سے استفادہ کرتےہوئے علاقے کا مستقبل روشن اور تابناک بنائیں گے۔بصورت دیگر اگر یہ وسائل کسی اور کے ہاتھ چلے گئے تو ان دوسری غلام اقوام کی طرح اس علاقے کے عوام بھی اپنی ہی سرزمین میں بھیک مانگتے پھریں گے اور کوئی بھیک دینے والا بھی انہیں میسر نہ آسکے گا۔ ڈوگرہ راج کے دوران 1927 میں ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی خاطر سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ عمل میں آیا جس کے تحت کسی دوسرے علاقے کے شہری کو خطہ گلگت بلتستان میں زمین خریدنے پر پابندی عائد تھی اور یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادے کا اختیار صرف اور صرف یہاں کے عوام کو حاصل تھا لیکن 1952 میں عوام کے اس حق کو نہ جانے کس مقصد کے تحت چھین لیا گیا اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل کرکے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کو نافذ کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی علاقے کے شہری کو گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی اور یوں آج گلگت بلتستان میں غیر مقامی افراد کی ایک کثیر تعداد علاقے میں مقیم ہے اور مقامی آبادی اقلیت میں بدل رہی ہے۔حکومت نے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے من پسند افراد میں کونو داس اور جوٹیال میں ہزاروں ایکڑ اراضی بانٹ دیا ہے جس سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

 

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ روایات یہ بتاتی ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعلقہ آبادیوں کے عوام اپنے علاقے سے متصل بنجر اراضیوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے اپنے زیر استعمال لاتے رہے ہیں اور ماضی کی حکومتوں نے ایسی روایات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بنجر زمینوں کی آباد کاری کیلئے دست تعاون بھی بڑھادیا اور حکومت کی نگرانی میں واٹر چینلز بنوائے گئے اور نرسریز سے مفت میں درخت مہیا کئے گئے۔پچھلے کئی سالوں سے گلگت اور آس پاس کی بنجر اراضیوں کو آباد کرنے کے عوامی حق کو چھینتے ہوئے آباد کاری کے عمل میں حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جس سے تنگ آکر علاقے کے عوام عدالتوں میں انصاف کے منتظر ہیں۔

 

رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کا زیادہ استعمال صرف اور صر ف گلگت شہر سے متصل آبادیوں میں ہورہاہے اور گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں اب بھی سابقہ روایات کے مطابق عوام بنجر زمینوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے تصرف کررہے ہیں جو کہ ان علاقوں میں بسنے والے عوام کا بنیادی حق ہے۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے عوام کوان کے علاقے سے متصل تمام بنجر زمینوں کے حقیقی وارث سمجھتی ہے اور یکطرفہ طور پر نافذالعمل ناتوڑ رول کو قاتل رول تصور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کرتی ہے۔چلاس داریل سے لیکر بلتستان خپلو اور غذر سے لیکر خنجراب تک کی بنجر زمینوں کے وارث ان علاقوں میں بسنے والے عوام ہیں جن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کسی طور کامیاب نہیں ہونے دینگے۔موجودہ نگران حکومت جو چور دروازے سے اقتدار تک پہنچی ہے ،کو وحدت مسلمین نے شروع دن سے مسترد کیا ہے کیونکہ نگران حکومت کے وزراء کی فوج گلگت بلتستان کے وسائل پر ایک بوجھ ہیں اور نگران حکومت کی مشکوک سرگرمیوں سے اندازہ ہورہا کہ بروقت الیکشن کروانے میں ان کی نیت صاف نہیں ہے اور ان کے اقدامات سے کسی سازش کی بو محسوس ہورہی ہے۔

 

رہنماؤں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کانا ڈویژن کے ساتھ مل کر مخصوص علاقوں کی بنجر اراضی کو خالصہ سرکار قرار دیکر ان اراضیوں کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور مختلف سرکاری اداروں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ برمس داس کی اراضی کو مقامی لوگوں نے خانگی تقسیم کرکے آباد کاری شروع کی جہاں فی گھرانہ مشکل سے 10 مرلہ زمین نصیب ہوئی ہے میں حکومت کی طرف سے مداخلت کسی شرارت سے کم نہیں۔مزید یہ کہ مذکورہ جگہ میں 220 کنال اراضی قبرستان کیلئے مختص ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے علاقے میں نقص امن کا خدشہ لازمی امر ہے او ر اس کو بنیاد بناکر الیکشن ملتوی کرواکے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔

 

رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناتوڑ رول کا اجراء صرف اور صرف شیعہ آبادیوں پر کیا جارہا ہے تاکہ یہاں فرقہ واریت کے پرانے حربے کو استعمال کیا جاسکے اور غیر شیعہ آبادیوں کو بنجر زمینوں کی خانگی تقسیم کے ذریعے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور حکومت کا یہ اقدام صرف اور صرف اہل تشیع میں احساس محرومی پیدا کرکے ایجی ٹیشن کو ہوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ناتوڑ رول کا استعمال صر ف اور صرف شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر کیوں؟ کسی غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر زمینوں پر کیو ں اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ہم یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ اس قاتل قانوں کا اطلاق غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر ہو۔ ہم تو سرے سے اس قانون کی نفی کرتے ہیں جو پورے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس آواز پر گلگت بلتستان کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوں ۔ آج ہماری آواز کو دبایا گیا تو آنیوالے کل میں دوسری آبادیاں بھی اس قانون کی زد میں آئینگی۔آج ہم چیخ رہے ہیں تو کل کوئی اور چیخے گا۔

 

رہنماؤں نے کہا کہ سونی یار جو موجودہ نگران وزیر اعلیٰ کا علاقہ ہے جس کے کچھ حصے پرپاک فوج کا قبضہ تھا اور عوام نے فوج سے معاوضہ طلب کرتے ہوئے باقیماندہ علاقے کو خانگی تقسیم کرکے اپنی تحویل میں لے لیا اور موجودہ نگران وزیر اعلیٰ نے خود ہی پاک فوج سے اپنی اراضی کا معاوضہ بھی لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کا یہ اقدام صحیح اور درست تھا۔نگران وزیر اعلیٰ بتائیں جب وہاں ناتوڑ رول نافذ نہ ہوسکا اور اس نے خود پاک فوج سے اپنی زمین کے عوض معاوضہ وصول کیا تو گلگت میں اس قاتل قانون کو نافذ کرکے عوام کی ملکیتی اراضی کو خالصہ سرکارکیسے قرر دیا جارہا ہے؟ اور یہ نہیں ماضی میں بھی اس مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو کوئی اہم ذمہ داری ملی تو اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ سال 2003 میں اس وقت کے ہوم سیکرٹری نے گلگت کے کشیدہ حالات میں کرفیو کا نفاذ کرکے نومل کے عوام کے چھلمس داس میں تعمیرشدہ مکانات کو بلڈوز کیا اور آج تک عوام کو انصاف نہیں ملا ہے۔

 

رہنماؤں نے صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ حضرات تو خود لینڈ مافیا کا تذکرہ کرتے کرتے تھک ہار چکے ہیں اور اسی قاتل قانون نے محکمہ مال کے پٹواریوں اور آفیسروں کو ککھ پتی سے کروڑپتی اور ارب پتی بنادیا ہے۔محکمہ مال نہ صرف اپنے لئے مال بناتی ہے بلکہ دوسرے بھی اسی مال سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ ناجائز مال حکومت کے ایوانوں تک بھی پہنچ جاتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آرہا ہے۔اسی محکمہ مال کے مک مکا کا نتیجہ ہے کہ پہاڑوں پر لوگ چڑھ گئے اور اور پہاڑوں کو بھی بھاری رشوت کے عوض لوگوں کے نام الاٹ کیا جاچکا ہے۔

 

آخر میں رہنماؤں کاکہنا تھا کہ حکومت عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی بجائے آباد کاری کے مسائل پر توجہ دیکر بنجر اراضیوں کو سرسبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ عوام کی زمینوں کو ان سے چھین کر مفاد پرستوں کا پیٹ بھریں۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو علاقے کے عوام کو بے چینی اور تشویش میں مبتلا کرے اورہماری امن پسندی کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے تو حکمرانوں کے حق میں بہتر ہوگا۔بصورت دیگر یا ہم رہیں گے یا پھر تم۔

وحدت نیوز (بیروت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری نے حالیہ دورہ لبنان کے موقع پرحزب اللہ لبنان کے سربراہ قائد مقاومت حجتہ السلام  سید حسن  نصراللہ سے بیروت میں انکی رہائش پر خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی سیکریٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی اور حزب اللہ کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے، حجتہ السلام سید حسن نصراللہ سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ ناصرعباس جعفری نے  پاکستان میں ایم ڈبلیوایم کے کردار و فعالیت اور ملت پاکستان کی بیداری اور شعور کے حوالے سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ کوآگاہ کیا، انہوں نے پاکستان میں حالیہ دنوں میں شیعہ سنی یونٹی کے اقدامات اور سعودی نواز حکومت سے عوامی بیزاری کے حوالے سے بھی آگاہ کیا،ایم ڈبلیوایم کے قائدین نے قنیطرہ کے مقام پرحزب اللہ کے چھ مجاہدین بالالخصوص شہید جہاد عماد مغنیہ کی شہادت پر قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کی خدمت میں تعزیت و تہنیت کا اظہار کیا، حجتہ السلام سید حسن نصر اللہ نے علامہ ناصرعباس جعفری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں شیعہ سنی اتحاد کیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں،امریکی اسرائیلی گماشتوں (تکفیریوں) کا وجود جڑ سے اکھاڑے بغیرعالم اسلام میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے،اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہے، شیعہ سنی اتحاد کی طاقت کے ذریعے امت مسلمہ کو باہم دست و گریباں کرنے کی امریکی سازش کو ناکام بنایا جاسکتا ہے،قائد مقاومت نے پشاور اور شکارپور سانحہ پر تعزیت کا اظہارکرتے ہوئے اسے  تکفیری عناصر کی بزدلانہ کاروائی  قرار دیا اور دونوں سانحات پر ملت پاکستان اور متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہا رکیا، ان کاکہنا تھا کہ خدا ان ہی قوموں کو آزمائش میں ڈاتا ہے جو ان آزمائشوں میں سر خرو ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں،امید کرتے ہیں کہ یمن کے بعد پاکستان سے بھی امریکی و صیہونی تسلط کا خاتمہ ہوگا اور پاکستان کی عوام بھی سکو ن کا سانس لے سکیں گے،پاکستان کی عوام کو چاہیئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی  فوج کی مدد کریں تاکہ پاکستان سے بھی تکفیریوں کے نجس وجود کا خاتمہ ہوسکے،لبنان کی عوام نے بھی یہ کام انجام دیا تھا، میں امید کرتا ہوں کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مظلوم عوام کی پناہ گاہ بن کر سامنے آئے اور حال میں اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومنین کو قائم کرنے کیلئے اپنا ہر قسم کا کردار ادا کرے،یہ صدی اسلام کی صدی ہے، اسرائیل انتہائی کمزور ہوچکا ہے اور وہ زمانہ گزر گیا کہ جب سامراج اس خطے میں اپنے حکمرانی کرتا تھا۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری کردہ بیان میں ایم ڈبلیوایم کے مرکزی رہنما علامہ ہاشم موسوی، ایم پی اے آغا رضا،کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی اور تمام کونسلرزنےسانحہ شکار پور کے خلاف علمدار روڈ پر نکالی گئی ریلی سے خطاب  کرتے ہوئے کہا کہ شکارپور مرکزی امام بارگاہ میں خود کش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ وفاقی اور سندھ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔ شکارپور میں اس سے پہلے بھی دہشت گردی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں لیکن سندھ حکومت اپنی بے حسی اور نا اہلی کی وجہ سے ان واقعات کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ حکومتی اقدامات صرف میڈیا میں بیانات کی حد تک محدود ہے۔ دہشت گرد آزاد اور دنددناتے پر رہے ہیں ان کے خلاف اقدامات نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرے اور گرفتار ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے کر ان کو نشان عبرت بنائے۔ حکومت ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کے لیے نرم رویہ رکھنے والوں سے بھی سختی سے نمٹے اور تمام کلعدم دہشت گرد تنظیموں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کریک ڈاون کرے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کوئٹہ ڈویژن شکار پور سانحے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کے لیے شفایابی کے لیے دعا کرتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree