وحدت نیوز (آرٹیکل) پاک سر زمین پر آئے روز کسی نہ کسی مظلوم کا خون بہایا جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی مسلک یا برادری سے تعلق رکھتا ہو لیکن اگر وہ دہشتگردوں یا ان کی حامیان حکومتوں کے خلاف آواز اٹھائے گا تو اس کی آواز کو دبا دیا جائے گا۔ جس کی مثالیں سانحہ ماڈل ٹائون لاہور جیسے کئی واقعات ہیں۔ حکمران جن دہشتگردوں کو اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لئے نہتے عوام کا قتل عام کرواتے ہیں وہی دہشگرد اب پاکستان کے اداروں اور سکولوں پر حملے کرنے لگے ہیں ۔ سانحہ پشاور جیسا اندوہ ناک واقعہ کہ جس پر ہر آنکھ اشک بار ہوئی اور ہر باشعور انسان کا دل خون کے آنسو رویا۔ اس سانحے میں جس بے دردی کے ساتھ معصوم بچوں کو قتل کیا گیا اور ظلم کی تاریخ رقم کی گئ اس کی مثال نہیں ملتی۔
معصوم طلباٗ کے خون نے ملت پاکستان کو شعور بخشا اور عوام کے بھرپور مظاہروں اور عوامی طاقت کے سامنے حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا۔ جس کے تحت ہر طرح کے دہشتگردوں کو سزائیں دی جانی تھیں۔ لیکن حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایکشن میں سست نظر آرہی ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے شاید دہشت گردوں کی حامی سیاسی پارٹیاں اس نیشنل ایکشن پلان کو فائلوں کی نظر کر دینا چاہتی ہیں۔ اور آپریشن ضرب عضب کہ جس کو پورے ملک میں پھیلانے کی بات کی گئی تھی اس کو کمزور کرنے کے لئے حامیان دہشت گرد میدان میں آگئے ہیں۔ اور نیشنل ایکشن پلان کو مدارس اور مذہب کے خلاف قرار دے کر دہشگردوں کو مزید کھلا چھوڑ کر ملت پاکستان کے خون سے اس دھرتی ماں کو رنگین کر نا چاہتے ہیں۔ اور دوسری طرف پورے پاکستان میں شہداٗ کے ورثاٗ کہ جو ہمیشہ سے طالبان اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور آپریشن کا مطالبہ کرتے تھے اور آج بھی آپریشن کی کامیابی کے لئے پاکستان فوج کے موقف کی تائید کرتے ہیں ان کو گرفتاریوں کے ذریعے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون تو کسی دنیا کے ملک میں نہیں ہے کہ مقتولین کے ورثاٗ کو اپنے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے کیوں کہ وہ حکومت وقت کو دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کرنے کو کہتے ہیں۔
محترم وزیر اعظم صاحب جو کہتے ہیں کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور آخری دہشتگرد تک یہ جنگ رہے گی۔ ان کی دہشت گردوں سے مراد کیا واقعی ملک دشمن عناصر کہ جو ملک کو بدامنی اور معاشی بدحالی کی طرف لے کے جا رہے ہیں یا پھر ان کی مراد ان کے سیاسی مخالفین ہیں۔ کیوں کہ دہشت گرد گروہ آج بھی پاکستان کے اندر دندناتے پھر رہے ہیں اور تکفیری سوچ رکھنے والے عناصر کہ جو پاکستان کے آئین و قانون کو نہیں مانتے اور اداروں کو بائی پاس کرتے ہیں وہ اسی طرح سے ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے شیعہ و سنی مسلمانوں کی تکفیر کر رہے ہیں ان عناصر کو حکومتی تحفظ بھی حاصل ہے۔ تو ملت پاکستان کو بتایا جائے کہ حکمران کس جنگ میں مصروف ہیں ؟؟؟؟
حکومت پنجاب اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے جس کی مثالیں ہر خاص و عام کے سامنے ہیں کہ ماڈل ٹاون لاہور میں معصوم اور نہتے شہریوں کا بے دریغانہ قتل کیا گیا اور پھر انہی کے قائدین و کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ اور اب پورے پنجاب میں مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل و عوامی تحریک کے قائدین و کارکنان کی بے جا گرفتاریاں جاری ہیں جب کہ پنجاب بھر میں دہشتگردی میں ملوث گروہ سر عام پھر رہے ہیں۔ آخر صرف انہی پارٹیوں کو کیوں نشانہ بنا یا جارہا ہے کہ جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر اپنے جائز حقوق کی بات کرتی ہیں دراصل پنجاب حکومت انتقامی سیاست سے آپریشن ضرب عضب کی عوامی حمایت کو کمزور کر رہی ہے۔
اور فوج کی عوامی پزیرائی میں کمی لانے کے لئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس سے دہشتگردوں کو ریلیف ملے گا اور وہ مزید دہشتگردانہ کاروائیاں کر سکیں گے۔نیشنل ایکشن پلان کہ جو تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی باہمی مشاورت سے عمل میں لایا گیا اور یہ فیصلہ پاکستان کے وسیع تر مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کیا گیا تاکہ اس منحوس دہشتگردی کے فتنہ کو جڑوں سمیت ختم کیا جائے لیکن طالبان کے سیاسی ونگ میدان میں آگئے اور انہوں نے ایکشن کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے جس کی وجہ سے تا حال عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں اعتماد کن ادارہ افواج ہیں کہ جو عوام کی امیدوں کا مرکز ہے وہ طالبان حامی سیاسی پارٹیاں اب فوج کے خلاف زہر اگلنا شروع ہو گئ ہیں اور فوجی عدالتوں کے خلاف رٹ درج کرا دی گئی ہے کیونکہ دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ ان کو سپورٹ کرنے والے بھی اسی لپیٹ میں آتے ہیں۔اگر فوجی عدالتیں کام نہیں کریں گی تو کیا عوام خود اپنے دشمنوں سے انتقام لے کیونکہ سول عدالتوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ دہشتگردوں کو بڑے عزت و احترام سے بری کر دیتی ہیں جس کا نتیجہ سانحہ و پشاور اور سانحہ شکار پور کی شکل میں قوم کو بھگتنہ پڑتا ہے۔ جب کہ کچھ گروہ پاکستان کے آئین و قانون کو پیروں تلے روندتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں اگر یہی حال رہا تو پوری قوم اسلحہ اٹھا لے گی تو کیا حکومتیں اور طالبان کے سیاسی ونگ یہی چاہتے ہیں کہ ملک میں خانہ جنگی ہو۔ پہلے ہی ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے مزید اس کو اندھیروں میں نہ دھکیلا جائے۔
اگر نیشنل ایکشن پلان کے تحت سانحہ پشاور کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو سانحہ شکار پور اور پھر پشاوور کے اندر قیامت صغری برپا نہ ہوتی اور معصوم نمازیوں کے خون سے خانہ خدا رنگین نہ ہوتا ۔ لہذا وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی اس کھلم کھلا دہشتگردی میں برابر کی شریک ہیں۔ سانحہ شکار پور میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین کہ جن کو انصاف نہیں دیا گیا اور سانحہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا تو وہ احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن وزیر اعلی سندھ مفاہمت کی بجائے انتقامی کاروائی پہ اتر آیا ہے اور لانگ مارچ کو روکنے کے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہا ہے جب کہ عوام کے امن و عامہ کی ذمہ داری ریاست کے اولین فرائض میں سے ہے۔ لہذا انہیں چاہیے کہ وہ لواحقین شہداٗ کے زخموں پہ مزید نمک چھٹرکنے کی بجائے ان کے لئے ڈھارس کا سبب بنیں اور سندھ بھر میں فوجی آپریشن کیا جائے اور بلا تفریق تمام دہشتگروں کے خلاف کاروائی کی جائے چاہے ہو مذہبی دہشتگرہوں یا قومی و لسانی یا صوبے کی بنیاد پر کی جانے والی دہشتگردی ہو۔
ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان انتقامی سیاست کی بجائے اصل دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے تاکہ ملک عدم استحکام کی حالت سے باہر آسکے۔ اور بجائے اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کے اصل دشمن کی تشخیص کی جائے لیکن برابری کی پالیسی کو نہ اپنا جائے کہ جس کے تحت دہشگردوں کے خلاف اٹھنے والے آواز کو دبانا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہے۔ اگر حکومتی اداروں کو کسی پہ آئین پاکستان کے خلاف ورزی کا اندیشہ ہے تو وہ ان پارٹیوں سے بات کریں بجائے کہ وہ قائدین اور کارکنان کو ہراساں کرتے رہیں۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ جس طرح سے پاک فوج نے سانحہ پشاور میں ملوث افراد کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف کاروائی شروع کر دی ہے اسی طرح سانحہ شکار میں ملوث دہشتگردوں کو بھی کیفر کردار تک پہچایا جائے گا۔
تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ اطلاعات کے زیر اہتمام مرکزی میڈیا ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا دو قطبی تھی، دو طاقتوں نے انسانوں کو تقسیم کر رکھا تھا، ایک بائیں بازو کے ترقی پسند لوگ تھے، جو ایک مکمل نظریہ کے حامل تھے، ترقی پسند مصنفین کی انجمنیں تھیں، ان کے مدمقابل امریکہ تھا، جسے دائیں بازو کی طاقت کہا جاتا تھا، دائیں بازو کی طاقت میں امریکہ نے اپنی من مانی قوتوں کو اپنے بلاک میں شامل کیا، جن میں وہابی ریاست سعودی عرب شامل تھی، ان طاقتوں نے جہان اسلام کی مرکزی قیادت وہابیت کے سپرد کر دی، وہابیت نے تیل کے پیسیوں سے پوری دنیا میں مساجد و مراکز بنائے اور اہل سنت کو تسخیر کرنے کی کوشش کی، لیکن اہل سنت نے عبدالوہاب نجدی کو قبول نہ کیا، فلسطین بھی ہم سے دائیں بازو کی طاقتوں امریکہ و اسرائیل، اور مسلم امہ کے خائن حکمرانوں کے ذریعہ چھین لیا گیا، بائیں بازو والے خدا سے لڑ رہے تھے لیکن منافق نہ تھے، دائیں بازو کی طاقتوں کا کام اسلام دشمنی تھا، 1967 تک مسلمانوں کی طاقت صفر ہو کر رہ گئی، روس کے افغانستان میں آنے اور انقلاب اسلامی ایران کے بعد حالات تبدیل ہوئے۔
انقلاب اسلامی ایران دونوں سپر طاقتوں امریکہ و روس کے خلاف تھا، یہ پہلا انقلاب تھا جو ان کی مرضی کے خلاف برپا ہوا، لاشرقیہ لاغربیہ کا نعرہ لیکر یہ انقلاب امید کی کرن ثابت ہوا، انقلاب نے مسلم امہ کے اتحاد کی بات کی، کھوکھلے رہبران کو بے نقاب کیا، اسرائیل کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا گیا، اس انقلاب نے عرب آزادی پسند قوتوں کی حمایت کی، انقلاب کو اندرونی اور بیرونی طور پر مشکلات کا شکار کر دیا گیا، چند ماہ کے اندر اٹھارہ ہزار انقلابیوں کو استعمار نے مار ڈالا، ایک ہی دن میں صدر و وزیراعظم کو شہید کیا گیا، اس کارستانی میں دائیں اور بائیں بازو کی دونوں طاقتیں شریک تھیں، انقلاب نے امریکا کے سیکیورٹی سسٹم کو توڑ ڈالا تھا، اس طرح عالمی استکبار کے ساتھ ٹکراو کا آغاز ہوا، انقلاب لانے کی تحریک میں پینسٹھ افراد شہید ہوئے، انقلاب کے تحفظ میں لاکھوں شہید ہوئے، پھر بیرونی طور پر تکفیر کا فتنہ کھڑا کیا گیا، تاکہ شیعہ سنی کے درمیان تنازعات کھڑے کئے جائیں، اسی طرح شیعوں کے اندر اختلافات پیدا کئے گئے، تاکہ تقسیم کرکے مذہب کو مذہب سے لڑایا جائے، وہابیوں نے ہمارے ساتھ ساتھ اہل سنت کی بھی تکفیر کی، عراق نے انقلابی حکومت پر حملہ کیا، مسلمان کو مسلمان نے استعمار نے لڑوا دیا، افغانستان میں دیوبندیت، پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ اور امریکہ نے مل کر طاقت کا توازن بگاڑا، نفرتوں نے جنم لیا۔
علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ موجودہ زمانہ میں ایک طرف مقاومت کا بلاک ہے جسمییں ایران، عراق، لبنان، فلسطین اور شام کے ساتھ ساتھ روس اور چین بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب عرب ریاستیں اور امریکہ و اسرائیل کا بلاک ہے۔ چین اور روس نے کئی مرتبہ شام سے متعلقہ فیصلوں کو ویٹو کیا، میڈیا میں بھی سو سے زیادہ عربی چینل ہیں، جو امریکہ و اسرائیل کی خدمت کرتے ہیں، العربیہ اور الجزیرہ اسی میڈیا وار کا حصہ ہیں، امریکہ، اسرائیل اور سعودی ریاستیں خطہ میں امریکی بالادستی چاہتی ہیں، سیکریٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شیعہ و سنی نے سیاسی جدوجہد نہ کی جس کی وجہ سے دیوبندیت ہی سیاست میں غالب رہی، شیعوں اور سنیوں نے مل کر پیپلز پارٹی کو سپورٹ کیا، اہل سنت کے بعد پاکستان میں شیعہ اکثریت ہونے کے باوجود غیر منظم رہے۔
علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ کمزور پاکستان کی خواہشمند قوتوں نے پاکستان میں تکفیریوں کی پشت پناہی کی، انڈیا، سعودی اور دائیں بازو کی طاقتوں امریکہ و اسرائیل کو کمزور پاکستان سوٹ کرتا ہے، انڈیا دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان بھی پاکستان میں کام کر رہی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا بھر کے دہشت گرد پاکستان میں متحرک ہیں۔ اہل تشیع ان دہشت گردوں کے مقابل سیسہ پلائی دیوار ہیں جنہیں دشمن گرانا چاہتا ہے، ہمارا دشمن وہی ہے جو فوج، اہل سنت اور پاک عوام کو مار رہا ہے، فوج کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا اشد ضروری امر ہے، مشترکہ دشمن کا قلع قمع کرنے کے لئے فوج کے ساتھ بہتر رابطہ قائم کرنا ضروری ہے، رائے اور افکار فوج تک متنقل کرنے چاہیں، فوج اور نیوی کے اندر تکفیری سرایت کر چکے تھے۔
سربراہ ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ ملا ملٹری الائنس کے ذریعہ تکفیری ملک پر قابض ہونا چاہتے تھے، باقاعدہ طور پر فوج میں انہیں تسلیم کیا گیا، تبلیغ کے لئے ایک سال کی چھٹی دی گئی، سنی اتحاد کونسل، منہاج القرآن اور ایم ڈبلیو ایم ایک طاقت بن کر ابھر رہے ہیں، اس طاقت کو بڑھنا چاہیے، ہم تکفیریوں کو تنہا کرنا چاہتے ہیں، جو چھوٹے چھوٹے بچوں اور نمازیوں پر حملہ کرتے ہیں، مساجد پر حملہ کو امام بارگاہ پر حملہ ایک سازش کے تحت قرار دیا جاتا ہے، آداب مسجد و امام بارگاہ علیحدہ علیحدہ ہیں، شکار پور، حیات آباد میں امام بارگاہ پر حملے ہوئے، میڈیا میں بیان کیا جائے کہ یہ نمازیوں پر حملے ہیں، امام بارگاہ پر نہیں، مسجد کی بے حرمتی کی گئی ہے، قرآن لہو میں لت پت کئے گئے۔
تکفیری اس وقت پاکستان میں پانچ ونگز کے ذریعہ کام کر رہے ہیں، جن میں تبلیغی، فلاحی، سیاسی، نظامی اور عسکری شامل ہیں، ہر ونگ اپنا اپنا کام کر رہا ہے، جب تک دیوبندیت کمزور نہیں ہو گی امن قائم نہیں ہو سکتا، تکفیریوں کا مقابلہ دین، وطن اور انسانیت کا دفاع ہے، ہم نے پانچ سو بیاسی کلو میٹر کا لانگ مارچ کیا گیا، اسکی میڈیا کے ذریعہ تشہیر کی جائے، پنجاب حکومت ہمیں دھمکیاں دے رہی ہے، سیاسی جماعتیں ہمیں اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہیں، نواز شریف سعودی عرب کا سیاسی ونگ ہے، اگر شکار پور میں چار پانچ سکاوٹ ہوتے تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا، لوکل انتظامیہ کے ساتھ بہتر تعلقات، ہر مسجد و امام بارگاہ اسلحہ کے لائسنس لے، شیعہ سنی مل کر انٹیلی جنس نیٹ ورک بنائیں، دہشت گردوں کی نقل حرکت پر نظر رکھیں، گلی گلی کوچے کوچے میں رہنے والے شیعہ سنی دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس نیٹ ورک بنائیں، آپ نے میڈیا وار لڑنی ہے، جنگیں ہمیشہ میدانوں میں لڑی جاتیں، آپ کا کردار اس جنگ میں بہت اہم ہے، ہمارے پاس جیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
وحدت نیوز (چنیوٹ) پنجاب حکومت کی جانب سے دہشتگردوں اور شرپسند عناصر کو ختم کرنے کی بجائےبے گناہ شیعہ شہریوں کو چنیوٹ میں تنگ اور گرفتارکیا جا رہا ہے.مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اور امن کمیٹی کے رکن سید اخلاق الحسن شاہ بخاری کو گرفتارکرلیا گیا، گذشتہ روز انہیں ان کے گھر سے پنجاب پولیس کے اہل کار گرفتارکرکے نامعلوم مقام پر لے گئےہیں ، جبکہ پولیس کی جانب سے ان کے اہل خانہ مسلسل ہراسان کرنے کا عمل بھی جاری ہے، پنجاب میں بے گناہ اہل تشیع کی بلاجواز گرفتاری کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ سرگودھا، علی پور، بہاولپور، جھنگ، اور فیصل آباد میں بھی ایم ڈبلیوایم کے متعدد رہنماوں اور کارکنان کو فورتھ شیڈول کےنام پر اغوا کرچکے ہیں ،ایم ڈبلیوایم پنجاب کے سیکریٹری جنرل علامہ عبد الخالق اسدی نے کہا کہ ہم چنیوٹ کی انتظامیہ کی اس کاروائی کی بھرپور مزمت کرتے ہیں، اخلاق الحسن بخاری کو فوری طور پر رہا کیا جائےاور پنجاب حکومت اہل تشیع کے خلاف انتقامی کاروائی سے گریز کرے ورنہ شدید احتجاج کیا جائے گا۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) شہادت ہماری میراث ہے ، ہم اپنی ماوُں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی گود میں ہمیں درس کربلا سے آشنائی دی،دہشت گرد ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے،ملکی سلامتی کے لئے ریاستی ادارے راست اقدام اُٹھائیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنے سے ہوگی،وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی دہشت گرد گروہ سے خفیہ ملاقاتیں ریاست کے خلاف سازش ہے،پنجاب میں مظلوموں کے خلاف کاروائی جاری ہے،جبکہ دہشت گردوں کے سرپرست آزاد اور قومی سلامتی کے امور کے خلاف سازشوں میں مصرف ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے سانحہ شکریال مسجد القائم پر حملے میں شہید ہونے والوں کی مجلس ترحیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنے شہداء کے لہو کو رائیگاں نہیں جانے دینگے،ان شہداء کے پاک لہو سے انشااللہ دہشت گرد اور اس کے آقا رسوا اور ملک میں امن و وحدت کی آبیاری کریں گے،پاکستان کے شیعہ سنی بھائی متحد ہیں،مخصوص فکر اور مخصوص ملک سے فنڈ لے کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے سن لیں کہ قائد کے پاکستان کو ہم ان کے ناپاک عزائم کے خاطر استعمال نہیں ہونے دینگے،اس دھرتی کے لئے ہمارے آباوُ اجداد نے جانی مالی قربانیاں دی اور ابھی تک ہم دیتے آرہے ہیں اور انشااللہ آئندہ بھی اس مٹی کے خاطر ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں،لیکن پاکستان دشمن پالیسی رکھنے والے حکمرانوں کے مزید ظلم برداشت نہیں کرینگے۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) وزیراعظم میاں نواز شریف کے حالیہ دورہ کوئٹہ کے موقع پر اراکین بلوچستان اسمبلی کے ساتھ ان کی خصوصی میٹنگ ہوئی ، اس میٹنگ میں مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا آغا بھی شریک ہوئے، اس موقع پرآغا رضا نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب وزیر اعظم شیعہ ہزارہ قوم کیا پاکستان کی شہری نہیں ؟ کیا شیعہ ہزارہ قوم کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کیلئے کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے؟پاکستان میں افغانیوں اور بلوچ ایرانیوں کو توفوری شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیا جاتالیکن شیعہ ہزارہ قوم سے اس کی سات پشتوں کا شجرہ نسب طلب کیا جاتا ہے،ایک منتخب ایم پی اے ہونے کے ناطے جب کسی کی تصدیق کی جاتی ہے تو متعلقہ ادارہ اسی مسترد قرار دے دیتا ہے، اس پرسابق گورنربلوچستان اور وفاقی وزیر برائے آئی ڈی پیزجنرل(ر)عبدالقادر بلوچ نے جب مداخلت کی کوشش کی توآغا رضا نے انہیں یہ کہ کر روک دیا کہ جنرل صاحب میری بات مکمل ہونے دیں آپ ان تمام حالات وواقعات سے بخوبی آگاہ ہیں، آغا رضا نے کہا کہ کیاپاکستان کے استحکام کیلئے شیعہ ہزارہ قوم کی جانب سے پیش کی جانے والی ہزاروں قربانیوں کا صلہ یہی ریاستی استحصال ہے؟اس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ آپ کے اعتراضات کو فوری طور پر دور کیا جائے گا ، ہزارہ قوم کے ساتھ کسی قسم کا ناروا سلوک برداشت نہیں کیا جائے گااورشناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کے معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔
وفاقی حکومت کے ایم ڈبلیوایم کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں تعاون کریں خواجہ سعدرفیق کی آغا رضا سےگفتگو
وحدت نیوز (کوئٹہ) گذشتہ روز صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں وزیر اعظم نواز شریف کا اراکین بلوچستان اسمبلی کے ساتھ ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں مجلس وحدت مسلمین کے رکن بلوچستان اسمبلی آغا رضانے بھی شرکت کی ، اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق،وفاقی وزیر برائے آئی ڈی پیزجنرل(ر)عبدالقادر بلوچ، مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری ، وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے، اس دوران وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے ایم ڈبلیوایم کے رکن اسمبلی سید محمد رضا آغا سے پوچھا کہ آپ کا تعلق مجلس وحدت مسلمین سے ہے ؟علامہ ناصر عباس جعفری آپ ہی کی جماعت کے قائد ہیں؟ جس پر آغا رضا نے جواب دیا کہ جی ہاں میرا تعلق مجلس وحدت مسلمین سے ہے، علامہ ناصر عباس جعفری میرے قائد ہیں اور مجھے ان پر نازہے، یہ سن کر خواجہ سعد رفیق نے آغا رضا سے کہا کہ مجلس وحدت مسلسل وفاقی حکومت سے حوالے سخت رویہ اختیار رکھتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ حکومت اور ایم ڈبلیوایم کے درمیان تعلقات کی بہتری اور روابط میں اپنا کردار ادا کریں ، جس پر آغا رضا نے خواجہ سعد رفیق کو جواب دیا کہ ایم ڈبلیوایم کی جانب سے مسلم لیگ سے متعلق سخت موقف اصولی ہے، جس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ ن کی جانب سے کالعدم تکفیری جماعتوں کی سرکاری سرپرستی ہے،اگر آپ کی جماعت دہشت گردوں کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے تو ایم ڈبلیوایم کا رویہ بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔