وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصرعباس شیرازی، مرکزی رہنما علامہ سید احمد اقبال رضوی، علامہ سید جعفر موسوی، سید اسد عباس نقوی، سید قیصر حسین شاہ نے لاہور میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر مذاکرات کے نام پر وطن دشمنوں کو تقویت دینے کے گھناونے کھیل کا آغاز کر دیا گیا ہے، آٹھ ماہ کے تلخ تجربات کہ جس میں مذاکرات کی غیر مشروط پیشکش کا اتنا مہلک جواب ملا کہ ملک کی چولیں ہل کر رہ گئیں، آرمی جرنیل، پولیس اہلکار، پولیس افسر، زائرین، غیر مسلم شہری، عام شہری، بے دریغ شہید کئے جا رہے ہیں، جیلیں توڑی گئی، ملا برادرز کو ماورائے عدالت رہا کیا گیا اور پے در پے اسٹیٹ کو چیلنج کیا گیا، اس المناک تباہی کے بعد ایک دفعہ پھر مذاکرات کے نام پر وطن کی سالمیت اور شہداء کے پاک لہو کو بیچنے کے ناپاک عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔

 

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ طالبان دہشتگردوں نے قبل از مذاکرات اپنے سینکڑوں ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، ایسی پری کنڈیشنز ناقابل قبول اور دہشتگردوں کی طاقتوں میں بے پناہ اضافے کا موجب جبکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور عدلیہ کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین دہشت گردوں سے مذاکرات کے نام پر ملک دشمنوں کو طاقتور کرنے کے مکروہ ترین کھیل کو مکمل مسترد کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا طالبان سے مذاکرات کیلئے کوئی گارنٹی موجود ہے؟ گرنٹر ہیں تو وہ کون ہیں؟ کیا تحریری گارنٹی موجود ہیں؟، ہزاروں محافظان وطن کے اعلانیہ قاتلوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے قتل کے مقدموں میں سزا یافتہ افراد کو قید کرنے کا کیا جواز ہے؟ قاتلوں کو عام معافی دے کر ملک کو بنانا ریپبلک کا اعلان کر دیا جائے، تاکہ جس کے پاس طاقت ہو وہ مذاکرات کے نام پر اپنے مطالبات منوائے اور قانون، عدلیہ اور آئین کا تصور ختم ہو کر رہ جائے۔

 

رہنماؤں نے کہا کہ ہمارا سوال ہے کہ ان مذاکرات کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ کیوں کہ آئین پاکستان ریاستی قانون کو نہ ماننے والوں، کالعدم جماعتوں سے مذاکرات کو رد کرتا ہے۔ کیا طالبان سے مذاکرات کے نام پر دہشتگردی کو دی جانیوالی رعایتیں اور مربوط معاملات ان کیمرہ نہیں ہونے چاہیے، کیا ان کی تمام تر تفصیلات میڈیا اور عام لوگوں کیلئے واضح نہیں ہونے چاہیں۔؟ خفیہ مذاکرات کا آخر کیا مطلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کا دم بھرنیوالے مظلومین اور شہداء کی تشفی کیلئے کیوں نہیں جاتے؟ وارثان شہداء سے رائے کیوں نہیں لی جاتی؟ صرف دہشت گردوں اور اس کے سرپرستوں کی رائے کیوں اہم ہے؟ امریکی پٹھو، عرب ممالک کے مسلسل دورہ جات اور طالبان کیلیے حکومتی نرم گوشہ کن مفادات کے پیش نظر ہے؟ اور کیا نام نہاد مذاکراتی عمل کا یہ دورانیہ متعین شدہ ہے؟ ہے تو کیا؟ نہیں ہے تو کیوں؟ وطن عزیز میں دہشت گردی کے سب سے بڑے شکار مکاتب فکر اور جماعتوں کا اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا ؟ اور 4 رکنی مذاکراتی ٹیم کا ماضی شیعہ دشمنی اور تعصب سے بھرا ہے، میجر عامر، شہید عارف حسین الحسینی کے قتل میں ملوث پایا گیا ہے، رستم مہمند 1988ء سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان کہ جس میں دسویوں افراد شہید ہوئے تھے، کا مرکزی ملزم ہے۔

 

رہنماؤں نے کہا کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ شیعہ اور اہل سنت کے قاتلوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ سید ناصر شیرازی کا کہنا تھا کہ مذہبی آزادی پر قدغن لگانا طالبان کا اعلانیہ مطالبہ رہا ہے، مذاکرات کے پردے میں مذہب کے نام پر ملک میں تباہ کن تبدیلیاں مقصود ہیں، جن کا ہدف طالبان کو حکومت میں شریک کرنا اور طالبان کے نظام کو قانونی شکل میں رائج کرنا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین اس تمام عمل کو پاکستان توڑنے کی عالمی سازش کا حصہ قرار دیتی ہے اور بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ فی الفور منظم اور بھرپور فوجی کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے، دہشتگردوں سے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے قانون، آئین اور عدلیہ کی بالادستی کو یقینی بنانے کا عہد کرتی ہے، اس سلسلے میں 2 فروری کو کوئٹہ میں عظیم الشان امن کانفرنس بیاد شہدائے پاکستان میں عوامی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔ اس کانفرنس میں سنی اتحاد کونسل، تحریک منہاج القرآن، اقلیتی نمائندے اور کئی دیگر پارٹیاں بھی شریک ہو رہی ہیں، عوامی قوت سے دہشتگردوں کو شکست دیں گے، جس کا عملی مظاہرہ ایک مرتبہ پھر ہنگو کی سرزمین پر شہید اعتزاز حسن نے کیا ہے، حسینی عزم سے یزیدیت کو شکست فاش دیں گے اور سیاسی طالبان اور قلمی دہشت گردوں کے ہتھکنڈوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، چائیے ہمیں ہزاروں جانوں کی قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑے۔

 

رہنماؤں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل نے محب وطن کونسل کا اجلاس فروری کے پہلے ہفتہ میں طلب کر لیا ہے، جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں طالبانائزیشن کے مقابلے میں عوامی تحریک کا آغاز متوقع ہے، ایک درجن سے زائد جماعتیں محب وطن کونسل میں شامل ہونے کیلئے رسمی طور پر آمادگی کا اظہار کرچکی ہیں۔ رہنماؤں نے کہا کہ محب وطن قوتیں مل کر دہشتگردوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں اس کا عملی اظہار ملک کے طول عرض میں نظر آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے لوگ بھی دہشت گردوں کی دھمکیوں میں نہ آئیں، ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، اسی میں ملکی بقا کی راز مضمر ہے، ہم دب گئے تو یہ خون آشام درندے ہم پر مسلط ہو جائیں گے۔

وحدت نیوز(راولپنڈی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع راولپنڈی شعبہ خواتین کے زیر اہتمام ولادت رسول خدا (ص) کی مناسبت سے محفل میلاد کا انعقاد قدیمی امام بارگاہ میں کیا گیا ، جس میں خصوصی شرکت و خطاب ایم ڈبلیوایم شعبہ خواتین کی مرکزی رہنما خانم سکینہ مہدوی نے کیا۔ اس محفل میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی ، جب کے مدعوشدہ منقبت و نعت خواں خواتین نے بارگاہ رسالت (ص)میں نذارانہ عقیدت پیش کیا ۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے قومی اسمبلی میں خطاب پر رد عمل کا اظہار کر تے ہو ئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں اور فوجی جوانوں کے قاتلوں سے مذاکرات ملک دشمنی ہےنواز شریف نے اپنے خطاب میں شہداء کی نہیں طالبان کی ترجمانی کی ، عوامی احساسات سے عاری خطاب نے امن کی خاطر وطن کی خاطر جان قربان کرنے والوں کی روحوں کا تڑپا دیا۔علامہ راجہ ناصر عباس  کاکہنا تھا کہ نواز شریف کی جانب اسمبلی میں اپنی تقریر میں شیعہ نسل کشی کا تذکرہ نہ کرنے سے شہداء کے خانوادوں کی دل آزاری ہوئی ہے، ملک عزیزمیں دہشت گردی کا سب سے زیادہ منظم نشانہ ملت جعفریہ بنی ، وزیر اعظم نے تعصب کا مظاہرہ کیا، دہشت گردوں سے مذاکرات پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لئے عظیم خطرہ ہیں۔ علامہ ناصر عباس جعفری نے مزید کہا کہ طالبان سے ایک بار پھر مذاکرات کا فیصلہ دہشت گردوں کو حوصلہ اور دہشت گردی کا موقع فراہم کرنا ہے، طالبان سے مذاکرات کا اعلان خانوادہ شہداء کی تضحیک کے مترادف ہے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کرتے ہیں، ہزاروں بے گناہوں کے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات شریعت کے منافی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں کراچی میں پاک محرم ہال میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ علامہ باقر زیدی، علامہ علی انور جعفری، علی حسین نقوی، علامہ عباس وزیری، علامہ موسٰی کریمی، اصغر عباس زیدی سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے طالبان دہشتگردوں سے مذاکرات کا اعلان مایوس کن ہے، ان کے اس اعلان سے 18 کروڑ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوچکا ہے کہ خودکش دھماکوں میں شہید ہونے والے ہزاروں افراد کے خون کی حکومت کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے، پاکستان کسی مخصوص فرقہ کا نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کا مشترکہ وطن ہے۔ علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں ہزاروں اہل تشیع شہداء کا ذکر نہ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حکومت طالبان کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے اور اپنی بزدلی کو حکمت کا نام دے کر وطن سے غداری کی مرتکب ہو رہی ہے۔

 

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی شریعت کا نفاذ 18 کروڑ عوام کو قبول نہیں ہے، نواز شریف طالبان سے مذاکرات کرکے طالبان کی شریعت کو نافذ کرنے کی کوشش کا حصہ بن رہے ہیں، اگر معاشرے میں امن قائم کرنا ہے تو طالبان سے مذاکرات کا راستہ ترک کرکے ملک گیر آپریشن کرنا ہوگا ورنہ پاکستان دہشت گردوں کی جنت بن جائے گا۔ چار رکنی کمیٹی کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ یہ وقت ثابت کرے گا کہ طالبان سے مذاکرات کی مخالفت میں ہمارا مؤقف درست ہے اور انشاءاللہ وہ دن دور نہیں ہے کہ جب دنیا ہمارے مؤقف کو درست ہوتا ہوا دیکھے گی۔ علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی ہم سے یہ تقاضہ کر رہی ہے کہ تمام محب وطن قوتیں طالبان سے مذاکرات کے خلاف متحد ہوں اور ملک دشمن قوتوں کے خلاف اپنی مؤثر آواز کو بلند کریں۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکر ٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم میاں نوا ز شریف جراٗت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان اور دہشتگردوں کے خلاف فوری آپریشن کا آغاز کریں۔ مصلحت پسندی کے نام پر ملک کے 18کڑورمعصوم عوام کو دہشت گردی کی بھیٹ نہیں چڑھایا جاسکتا۔ طالبان سے مزاکرات شہدائے پاکستان کے خون سے غداری ہے، آپریشن ہی دہشت گردی سے نجات کا واحد حل ہے۔کراچی شیعہ قائدین اور افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تا حال کسی دہشت گرد کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے منگل کو ایم ڈبلیو ایم کی صوبائی اور ڈویژنل کابینہ کے ہمراہ میڈیا سیل کے دورے پر کیا۔ اس موقع پر علامہ مختار امامی،آصف صفوی، علامہ علی انور،علامہ مبشر حسن،حسن ہاشمی سمیت دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

 

 علامہ امین شہیدی نے کہا کہ پاکستان کی عوام کو سو چھی سمجھی سازش کے تحت پستی کی طرح دھکیلاہ جا رہا ہے، جس کی مکمل ذمہ دار ی ان بزدل حکمرانوں پر عائد ہوتی اس کے بر عکس ملک و اسلام دشمن طالبان دہشت گرد وں کو حکومتی فیصلوں کی کشمکش نے مزید دہشت گردی پھیلانے اور معصوم لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کا عندیا دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کی سست وری نے طالبان کو مزید مستحکم کر دیا ہے تودوسری جانب ملک میں موجود طالبان نوازجماعتیں بھی اب آزادی سے مملکت کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہی ہیں۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ اقتدار کے نشے میں ڈوبے حکمرانوں کو اپنی جائیدادوں اور اولادوں کے کھو جانے کا ڈر ہے نہ کے اس ملک کی عوام کا ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن کے با وجود مظلوم عوام کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس پر سند ھ حکومت کی نااہلی بھی کسی کے سامنے ڈھکی چھپی نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری سے زبوں حال عوام ٹارگٹ کلنگ کے طوق کو گلے میں ڈالے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بے حسی اور ان کی کاسمیٹک انتظامات کا مسلسل شکار ہو رہی ہے۔ علامہ امین شہیدی نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا جراٗت مندی کا مظاہرہ کریں اور دہشت گردوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کریں تاکہ ان ملک و اسلام دشمن دہشت گردوں سے مملکت خدادا پا کستان کو پاک کیا جاسکے ۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل و مرکزی ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان تاریخ کی بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ دہشت گردی کے سائے پاراچنار سے کراچی تک منڈلا رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن بے گناہوں کا خون نہ بہایا جاتا ہو۔ بظاہر تو سب دہشت گردی کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب آپریشن کی بات آتی ہے تو مختلف طریقوں سے اُنہیں محفوظ کارنر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی اس طرح کے بیانات اور گفتگو کی جاتی ہے کہ جن سے دہشت گردوں کی پشت پناہی اور حمایت نظر آتی ہے اور بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ ان دہشتگردوں کا سیاسی چہرہ یہ لوگ ہیں اور ان دہشتگردوں کے بارے میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو 70 ہزار لوگ شہید کر دیئے گئے وہ کس کے لوگ ہیں؟ اگر یہ دہشت گرد اور انتہاپسند اپنے لوگ ہیں تو کراچی میں جن کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے وہ کس کے لوگ ہیں۔؟ جو سندھ میں علیحدگی کا نعرہ لگاتے ہیں وہ کس کے لوگ ہیں؟ اگر دہشت گردوں کو اپنے ہی لوگ کہا جائے تو سارے ہی اپنے لوگ ہیں۔؟ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے مجلس وحدت مسلمین وحدت یوتھ کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر مرکزی سیکرٹری وحدت یوتھ سید فضل عباس نقوی، ضلعی سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدار حسین نقوی اور میڈیا کوارڈینیٹر ثقلین نقوی موجود تھے۔

 

علامہ حسن ظفر نقوی نے مزید کہا کہ کراچی میں آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو ہم نے سب سے پہلے آپریشن کی حمایت کی کہ فوجی آپریشن کیا جائے اور تمام پارٹیوں نے کہا کہ وہاں بدامنی ہے آپریشن کیا جائے کیونکہ وہاں بدامنی ہے، لیکن دوسری جگہوں پر جہاں بدامنی ہے وہاں آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو اُن کی سیاست کیوں بدل جاتی ہے؟ اُن کا رویہ کیوں بدل جاتا ہے؟ جنہیں دہشت گرد شہید نظر آتا ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ہنگو میں شہید ہونے والے اعتزاز حسن کے لیے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جو سینکڑوں بے گناہوں کو مارے اور مرجائے وہ شہید اور جو سینکڑوں کی جان اپنی جان دے کر بچالے اُس کے لیے کچھ نہیں کہا؟ کیونکہ اُن کی نظر میں دہشت گرد تو شہید ہوسکتا ہے، لیکن وہ بچہ جس نے سینکڑوں بچوں کی جان بچائی وہ اُن کی نظر میں شہید نہیں ہے۔ جب تک یہ منافقت اور دوغلاپن ہمارے معاشرے میں موجود ہے، دہشت گردوں کو کوئی خوف نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہماری حمایت اور پشت پناہی کرنے والے موجود ہیں۔ دہشت گردوں کی حمایت میں کتنے رہنمائوں نے آکر مختلف چینلز پر گفتگو کی اور ہم مسلسل اس لعنت میں دھنستے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہزاروں فوجی، پولیس اور رینجرز جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، ان کو کون ہے مارنے والا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بھی وہ لوگ کلیئر نہیں ہیں، ہم نے کب کہا کہ نہ کریں؟ مذاکرات کب ہوں گے؟ مذاکرات کس سے ہوں گے مذاکرات؟ کوئی کہتا ہے کہ 56 گروپس ہیں، کوئی کہتا ہے کہ 36 گروپس ہیں۔

 

علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ ابھی خود حکومت کو معلوم نہیں کہ کب اور کس سے مذاکرات کرنے ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ ہماری حکومت دہشت گردی ختم کر دے گی، لیکن ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ آپ نے بھی کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ کبھی کوئی وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے کبھی کوئی؟ 19 کروڑ لوگوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دہشت گرد جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں کارروائی اور ظلم کرتے ہیں۔ بلوچستان اور کراچی میں آپریشن کے نام پر ڈرامہ ہو رہا ہے۔ اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ روزانہ ہو رہی ہے۔ اب یہ سلسلہ کراچی سے نکل کر تمام بڑے شہروں میں پہنچ چکا ہے، دہشت گرد پورے پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ اُنہیں پتہ ہے کہ ہمیں سپورٹ کرنے والے ہر شہر میں بیٹھے ہیں۔ بجائے اس کہ دہشتگردوں کے خلاف ایک جگہ جمع ہونا چاہیے تھا لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہماری حکومت نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔ بار بار مذاکرات کا موقع دیا جاتا ہے اور ہر بار وہ پہلے سے زیادہ سفاک کارروائیاں کرتے ہیں اور وہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی علمائے کرام ایک جگہ جمع ہوئے تو خفیہ ہاتھوں نے ان کے درمیان اختلافات ڈال دیئے۔ لوگوں میں فرقہ واریت کا بیج بویا جاتا ہے۔

 

اُنہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس پاکستان کو بنانے میں شیعہ سنی علماء اور رہنمائوں نے مل کر کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ اسی طرح آج جب ہم یہاں اتحاد کی بات کرتے ہیں تو دشمن ہماری خلاف کارروائیاں کرتا ہے اور ہمارے اتحاد کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ ربیع الاول میں شیعہ سنیوں نے مل کر جلوس نکالے اور میلاد منائے اور اسی طرح محرم الحرام میں شیعہ سنی علمائے کرام نے مل کر بڑی بڑی سازشوں کو ناکام بنا دیا، اگر یہ سازشیں کامیاب ہو جاتیں تو ملک کا کافی نقصان ہوتا۔ جب بھی اتحاد کی ایسی فضا بنتی ہے تو خفیہ ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور اپنی کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ گذشتہ دو دنوں سے کراچی میں یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، ہم یہ سمجھے تھے کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد حکومت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرے گی، لیکن کراچی میں ہمارے دوماہ قبل اُٹھائے گئے نوجوانوں کو میڈیا کے سامنے قاتل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلسل دو دن سے میڈیا پر سازش کی جا رہی ہے، ہمارے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ہمارے بے گناہ نوجوانوں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت ہمارے دھرنوں سے خوفزدہ ہوگئی ہے، ہمارے دھرنوں کی کامیابی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں ہمارے بے گناہوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور ملک بھر میں شہید ہونے والے علمائے کرام کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ علامہ ناصر عباس آف ملتان اور علامہ دیدار حسین جلبانی کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ بعد ازاں اُنہوں نے علامہ ناصر عباس کے بھائی پروفیسر شاہد عباس سے اُن کی بھائی کی شہادت پر تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree