The Latest

سانحہ ۱۶دسمبر ۔۔۔اے غنچو تم کہاں ہو

وحدت نیوز (آرٹیکل) اقوام کو حادثات اور سانحات سے  بچانے کی تدابیر دانشمند اور مفکرین  کیا کرتے ہیں۔کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ،جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص پاگل ہوگیاہے۔

بالکل اسی طرح کسی بھی ملت میں دانشمندوں کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔ یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔

کوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پر آگے آگے نہ چلیں۔اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔

کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت،بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے،دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ،دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے،دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔

جیساکہ تحریک ِ پاکستان کے دوران ہم دیکھتے ہیں کہ برّصغیرکے مسلمانوں کی قیادت،علمائ،شعرائ،خطبائ،وکلائ،معلمین،مدرسّین،واعظین اور صحافی حضرات پرمشتمل تھی،انہوں نے نہتّے مسلمانوں کو طاغوت و استعمارکے خلاف کھڑاکردیااور ان کی قیادت میں برّصغرکی ملت اسلامیہ اپنے لئے ایک نیاملک بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعدحصولِ اقتدار کی دوڑشروع ہوئی توجاگیرداروں،صنعتکاروں،وڈیروں اور نوابوں نے دانشمندوں کودھتکارکرایک طرف بٹھادیا۔

صحافت کوملازمت بنایاگیا،علماء کو مسجدو مدرسے میں محدودکیاگیا،خطباء اور وکلاء کو فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات میں الجھایاگیا،معلمین ،مدرسین اور شعراء کافکرِ معاش کے ذریعے گلہ گھونٹاگیا۔ جس سے ملکی قیادت میں پڑھے لکھے اوردینی نظریات کے حامل باشعور افراد کاکردار ماندپڑتاگیا اور صاحبانِ علم و دانش کے بجائے رفتہ رفتہ بدمعاشوں،شرابیوں اور لفنگوں کاسکّہ چلنے لگا۔

ملکی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوتی گئی جن کا علم و دانش اور ملت و دین سے دورکاواسطہ بھی نہیں تھا۔چنانچہ یہ نئی قیادت جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی ملتِ پاکستان ،قیام ِ پاکستان کے اہداف اور اغراض و مقاص سے دور ہوتی چلی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کو ایک لادین ریاست بنانے اور اس کے قیام کے اغراض و مقاصد کومٹانے کے لئے،نظریہِ پاکستان کو مشکوک قراردیاجانے لگا،انسانیت کے نام پر تقسیم ِ برّصغیر کو غلط کہاجانے لگااوردین دوستی کو انسانیت دوستی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کیاجانے لگا۔جس سے نظریہ پاکستان کی جگہ کئی لسانی و علاقائی تعصبات نے جنم لیا اور ملت پاکستان لڑکھڑانے لگی ،یہ لڑکھڑاتی ہوئی ملت ١٩٧١ء میں دودھڑوں میں بٹ گئی اور پاکستان دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

١٩٧١ء سے لے کر ١٩٧٧ء تک باقی ماندہ پاکستان ،فوج اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں بازیچہء اطفال بنارہا،بالکل ایسے ہی جیسے آج سے پانچ سوسال پہلے اٹلی بازیچہء اطفال بناہواتھا،ایسے میں اٹلی کی طرح پاکستان کی قیادت میں ایک میکاویلی ابھرا۔۔۔

پاکستان کا یہ میکاویلی١٩٢٤ء میں جالندھرمیں پیداہوا،ابتدائی تعلیم اس نے جالندھر اوردہلی میں ہی حاصل کی،١٩٤٥ء میں اس نے فوج میں کمیشن حاصل کیااور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما،ملایا اور انڈونیشیامیں اس نے فوجی خدمات انجام دیں،برّصغیرکی آزادی کے بعد اس نے پاکستان کی طرف ہجرت کی،١٩٦٤ء میں اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوا،١٩٦٠ء سے ١٩٦٨ء کے دوران اسے اردن کی شاہی افواج میں خدمات انجام دینے کا موقع بھی ملا،مئی ١٩٦٩ء میں اسے آرمڈڈویژن کا کرنل سٹاف اور پھربریگیڈئیر بنادیاگیا،١٩٧٣ء میں یہ میجرجنرل اوراپریل ١٩٧٥ء میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پرفائزہوا اور یکم مارچ ١٩٧٦ء کو یہ پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا۔بالاخر١٩٧٧ء میں یہ پاکستان کے اقتدار کابلاشرکت غیرے مالک بننے میں کامیاب ہوگیا۔

اس کے مکمل فوجی فوجی پسِ منظر کی وجہ سے بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھاگئے اوربڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔

علمی و سیاسی دنیا آج بھی اس مرموزوپراسرارشخص کے بارے میں اس مغالطے کی شکارہے کہ یہ صرف ایک فوجی آدمی تھا اور کچھ نہیں۔حالانکہ اگر یہ صرف فوجی ہوتاتویحیٰ خان کی طرح عیاشیاں کرتا اور مرجاتایاپھر ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرتا اور رخصت ہوجاتااور اس کاشر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتالیکن اس کے فکری بچے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی مزید افزائشِ نسل ہورہی ہے،اس کے قائم کئے ہوئے تھنک ٹینکس اور دینی مدرسے،اس کے پالے ہوئے سیاستدان،اس کے نوازے ہوئے صحافی،اس کے بھٹکائے ہوئے ملّا،اس کے تربیت دیے ہوئے متعصب لسانی و علاقائی لیڈرپاکستان کی شہ رگ کو آج بھی مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

١٩٧١ء کے سیاسی بحران کے بعدپاکستان میں جدیدلادین سیاست کابانی اور پاکستانی میکاویلی ضیاء الحق،فوجی وردی پہن کر پاکستانی سیاست کے افق پر چمکا۔

اس نے اپنے گیارہ سالوں میں اٹلی کے میکا ویلی کی طرح ایک نئے سیاسی فلسفے کی بنیادیں فراہم کیں۔اٹلی کے میکا ویلی کا کہنا تھا کہ

"سیاست کا دین اور اخلاق سے کوئی تعلق نہیں" ۔

چونکہ اٹلی کے میکاویلی کا پسِ منظر علمی اور سیاسی تھا لہذا اس کا سیاسی فلسفہ بہت جلد علمی حلقوں میں زیرِ بحث آیا اور اس پر لے دے شروع ہوگئی لیکن پاکستان کا میکاویلی بظاہرصرف اور صرف" فوجی "تھاجس کے باعث علمی و فکری حلقوں میں اس کی شخصیت کو سنجیدگی سے زیرِ بحث لانے کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا اور یہی ملتِ پاکستان کے دانشوروں سے بھول ہوئی۔

حتّیٰ کہ ذولفقار علی بھٹو سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ وہ خود کو تو دنیائِ سیاست کا ناخدااور اسے فقط "فوجی" سمجھتے رہے۔تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق جنرل ضیاء الحق ،جنہیں بھٹو نے ٨ جرنیلوں کو نظراندازکرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایاتھا،انھیں دن میں دومرتبہ مشورے کے لئے بلاتے تھے اور وہ ہردفعہ پورے ادب کے ساتھ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ یقین دلاتے:

 سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔[2]

 اس نے اپنی عملی زندگی میں جس فلسفے کو عملی کیا وہ اٹلی کے میکاویلی سے بھی زیادہ خطرناک تھا،اگر اس کی تمام تقریروں کو سامنے رکھ کراوراس کے دور کی تاریخ کے ساتھ ملاکردیکھاجائے ،نیز اس کے ہم نوالہ و ہم پیالہ جرنیلوں کی یاداشتوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے عہد کی اسلامی شخصیات کے بیانات کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے تو اس کی فکروعمل کا خلاصہ کچھ اس طرح سے سامنے آتاہے:

 "سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیے"۔

موصوف کی دین ِ اسلا م اورشریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کودیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کوبھی یہ کہناپڑاکہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔ [3]

اس نے لادین سیاست کا نام دینی سیاست رکھ کرپاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں کی آنکھوں میں اس طرح دھول جھونکی کہ اس کی نام نہاد دینداری کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آکر بیٹھ گئیں۔اسے پیرومرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہاجانے لگا،اس نے اپنی مکروہات و خرافات کو نعوزباللہ "نظامِ مصطفیۖ "کہنا شروع کردیا اورجب اپنا یہ حربہ کامیاب دیکھاتوامریکی اشارے پراپنے خود ساختہ نظام ِ مصطفیٰ ۖ کے جال میں جہادِ افغانستان کا دانہ ڈالا، کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑاتواس نے شریعت آرڈیننس،زکوٰة آرڈیننس اور پتہ نہیں دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اورلوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔اس ساری کاروئی کے دوران جو بھی اس کی مخالفت میں سامنے آیا اس نے اسے اپنی مخصوص سیاست کے ذریعے راستے سے ہٹادیا،یعنی بغل میں چھری اور منہ میںرام رام کا عملی مظاہرہ کیا ،اس نے زوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کاروائی کو استعمال کیا،بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے ،بھٹو کے شدیدمخالف ججز کولاہور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں تعینات کیا،اس بات کا اعتراف جیوٹی وی پر افتخاراحمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ  نے بھی کیا تھا۔

 یادرہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کاتعلق ان چار ججوں سے ہے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھاتھا،انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہناتھاکہ بھٹوکے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائوکی بناء پر کیاگیاتھا۔پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد٢١مئی ١٩٧٩ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھاجس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کر کے ہلاک کردیاگیاتھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کاروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایاگیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیاگیاتھاکہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایاہے۔

 اگرآپ ضیاء الحق کی عملی سیاست اورشخصیت کاتجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ موصوف اپنی " عملی سیاست" میں اتاترک اور شہنشاہِ ایران کے جبکہ فکری سیاست میں میکاویلی کے ہم پلّہ تھے یاان سے بھی کچھ آگے ۔جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ انھوں نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے کہاکہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں،اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایاہے اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیاہے۔

گزشتہ سال ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴کو  انہی دنوں میں ضیاالحق کے نظریاتی  پیروکاروں نے  پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے

9 اساتذہ ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کُل 144 بچوں کو شہید کردیا تھا۔ سانحہ بنگلہ دیش کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا  ایسا دردناک با ہے جو ہمیشہ ہمارے دانشمندوں کے ضمیر کو جھنجوڑتا رہے گا۔

اس سانحے کا جتنا ذمہ دار ایک فوجی جنرل ہے اتنے ہی وہ سول مفکرین اور سیاستدان بھی ہیں جو ضیاالحق کو اپنا پیرومرشد  کتے چلے آرہے ہیں اور یا جنہوں نے کبھی ضیائی فکر کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ہمارے ملک میں دہشت گردی کے دیگر واقعات کی طرح اس سانحے کے ذمہ دار بھی ضیائی کیمپ کے تربیت یافتہ ہیں۔

۱۶ دسمبر کا سانحہ ہماری آرمی کو بھی اس امر کی یاددہانی کرواتا ہے کہ جب تک اس ملک کی کلیدی پوسٹوں اور عسکری اداروں میں ضیاالحق کے مقلدین موجود رہیں گے،ایسے سانحات کو نہیں روکا جاسکتا۔

کسی حساس مزاج شاعر کے بقول

پھولوں کا اور کلیوں کا

چمن میں خوں کیا ہے جنہوں نے

درندہ کیسے کہہ دوں ان کو

کہ اتنے زیادہ ظالم تو

درندے بھی نہیں ہوتے

 

 

 

!

منابع

بادشا،نکولومیکاویلی،مقدمہ،مترجم محمود حسین ·

 جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہرسہیل

 ضیاکے آخری ١٠سال از پروفیسرغفوراحمد

 · جنرل ضیاکے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد

 · اورالیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد

 ·بھٹو ضیاء اور میں ازلفٹیننٹ جنرل(ر)فیض علی چشتی

 ·اسلوب سیاست،خطبات علامہ عارف حسین الحسینی

 

 

 


نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(قم) مدرسہ حجتیہ قم المقدس ایران میں رسولِ اکرم ﷺ و امام حسن مجتبیٰؑ  اور   شہدائے مِنیٰ خصوصاً شہید ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین کی شہادت کی مناسبت سے بعد از نمازِ مغربین سے ایک عظیم الشّان سیمینار منعقد ہوا۔

ایم ڈبلیو ایم قم کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے اس سیمینار سے حجۃ الاسلام ڈاکٹر شفقت  شیرازی،فرزندِ شہید محمد عباس فخرالدّین اور ناصر ملت علامہ ناصر عباس جعفری نے خطاب کیا۔

مقررّین نے نبی اکرم ﷺ اور امام حسن مجتبیٰ ؑکی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ  شہید ڈاکٹر غلام محمد فخرالدّین دینِ اسلام کے مخلص مبلغ اور ولایت معصومینؑ کے حقیقی مدافع تھے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ امتِ مسلمہ خصوصاً او آئی سی اور اسلامی مکاتب کے دینی و سیاسی سربراہوں کو چاہیے کہ وہ سانحہ مِنیٰ کو سنجیدگی سے لیں اور نااہل سعودی حکمرانوں کو بیت اللہ کے انتظامات سے الگ کیا جائے۔

وحدت نیوز (لیہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید عدیل عباس شاہ نے کہا ہے کہ تنویر جعفری کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اور قتل کے محرکات سامنے لائے جائیں، انہوں نے وفد کے ہمراہ کروڑ میں شہید تنویر عباس جعفری کی رسم قل میں شرکت کی، اور شہید کے لواحقین سے ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہید تنویر عباس جعفری کا قتل ضلع لیہ کی پرامن فضاء کو متاثر کرنے کی سازش ہے، تاہم ملت جعفریہ خصوصاً شہید کے لواحقین نے دشمن کی اس سازش کو بھانپ لیا، پولیس حکام کی جانب سے کیس میں خصوصی دلچسپی خوش آئند ہے، تاہم قاتلوں کو گرفتار کرکے ہی ملت جعفریہ خصوصاً شہید کے لواحقین کو مطمئن کیا جاسکتا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ شہید تنویر جعفری کے قاتلوں کو فوری طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں جو طاقتیں بھی عالم اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ ابلیسی قوتیں ہیں۔ اسلام دین امن ہے کسی شر پسند کا تعلق اسلام سے قطعا نہیں۔ایم ڈبلیو ایم ذمہ داران کو چاہئے شیعہ سنی وحدت کے ساتھ عوامی خدمات انجام دیں۔ حسینی طرز حیات کے ہتھیار سے ہمیں باطل قوتوں کو شکست دینا ہو گی اس وقت امت مسلمہ شدید خلفشار کا شکار ہے عالم اسلام کو ظلم و بربریت کا سامنا ہے۔مجلس وحدت مسلمین کو یہ اعزاز حاصل جب ملک میں کوئی سیاسی و مذہبی جماعت دہشتگرد طالبان کے خلاف صرف لب کشائی سے قاصر تھی اس وقت ہم ان ملک و اسلام دشمن دہشتگردوں کے خلاف عملی طور پر بر سر پیکار تھے اور آج بھی ان کی حمایت یافتہ کالعدم مذہبی جماعتوں کے خلاف ہمارا موقف واضح ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی وحدت ہاؤس میں منعقدہ کابینہ اور ڈسٹرک ذمہ داران کی تربیتی نشست اورکراچی بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے خطاب میں کیا۔علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ہی حسینی شعار ہے جس سرزمین پر ظلم کے خلاف حسینی اٹھ کھڑے ہوں وہی سرزمین کربلا کی مانند ہے۔کربلا کی تقلید ہم پر نماز روزے کی طرح واجب ہے حسینیت ظلم کے خلاف شجاعت ،استقامت اور جرات کا نام ہے۔امام عالی مقام کی محبت انسان کے زندہ ہونے کی دلیل ہے اگر یہ محبت نہیں تو پھر چلتے پھرتے جسم کو زندہ لاش تو کہا جا سکتا ہے لیکن انسان کا نام نہیں دیا جا سکتا۔انہوں نے کہ وطن عزیز کی سلامتی و استحکام کے لیے شیعہ سنی اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تا کہ ان گروہوں کو شکست دی جا سکی جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔ علامہ امین شہیدی نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ملک بھر میں موجود کالعدم جماعتوں کاسیاسی اتحاد بناکر الیکشن میں حصہ لینے پر کہنا تھاکہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں ایسے لگتا ہے دہشتگردی کے خلاف بنا ئے جانے والے قانون کی کوئی عملی حیثیت نہیں کالعدم دہشتگرد گرہوں کی جانب سے سیاسی اتحاد بھی سہولت کاروں کی نشاندہی کر رہا ہے مگر ملکی مقتدر اداروں کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہاجس پر تشویش ہے انہوں نے کراچی میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے شیعہ و سنی شخصیات کا مشترکہ پینل بناکرحصہ لینا اور معمولی فرق سے دوسرے نمبر پر آنے کو خوش آئند قرار دیا ۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے گزشتہ روز نور ویلفیئر سوسائٹی کے ذیلی برانچ " نور میڈیکل سنٹر " کا افتتاح کیا. اس موقع پر علاقے کے معزز شخصیات میجر ( ریٹائرڈ )نادر علی صاحب, ڈی آئی جی ( ریٹائرڈ ) فقیر حسین صاحب, سابق کونسلر حسن کاکڑ صاحب, کونسلر کربلائی رجب علی, کونسلر کربلائی عباس علی اور دیگر شخصیات تھے.اس موقع پر نور ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین عامر علی چنگیزی نے اپنے دیگر اراکین کے ساتھ میزبانی کے فرائض انجام دیے.
واضح  رہےکہ نور میڈیکل سنٹر میں ڈاکٹر کریم اللہ دوپہر 3 بجے سے رات 9 بجے تک مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے تشریف فرما ہونگے .

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں ڈویژنل سیکریٹری امور سیاسیات کامران حسین ہزارہ نے گوادر کاشغر روٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت خستہ حال ہے ۔ صوبہ بلوچستان کو تعلیم، ترقی اور کھیل سمیت دیگر چیزوں میں پست سمجھا جاتا ہے ،گوادر کاشغر پروجیکٹ صوبے کو ملک کے دیگر صوبوں کی برابری کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا اور مستقبل میں بلوچستان کے ترقی میں گوادر کاشغر منصوبے کا اہم حصہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ جلد از جلد مغربی علاقوں میں پروجیکٹ کی تعمیر کا کام شروع کر وائے ، صوبے میں خوشحالی کی لہر دوڑ اٹھی ہے، گوادر کاشغر روٹ سے ملک کو اقتصادی طور پر فائدہ ہوگا اور صوبے کے عوام معاشی طور پر اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ صوبے کے عوام کو انکا حق ملنا چاہئے وفاقی اور صوبائی حکومت ملکی مفادات کے وقت بلوچستان کو نظر انداز نہ کرے اور صوبے کی ترقی کیلئے فکرمند رہے۔

کامران حسین کاکہناتھا کہ اپنے ساتھ خوشحالی لانے والی گوادر کاشغر روٹ کی تعمیر میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے، اگر حکومت کی جانب سے منصوبے میں مغربی روٹ کی تعمیر کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے تو اس کا کام بھی شروع ہونا چاہئے، جتنی جلدی کام کا آغازہوگا اتنی جلدی یہ منصوبہ اپنی تکمیل تک پہنچے گا۔ آخرمیں ان کا کہناتھا کہ یہ منصوبہ ملک کی تقدیر بدلنے والا ہے، گوادر کاشغر روٹ سے زیادہ فائدہ بلوچستان کے لوگوں کو ہونا چاہئے حکومت صوبے کو ہرگز نظر انداز نہ کرے اور جس طرح بلوچستان وطن عزیز کی ترقی کا باعث بن رہا ہے اسی طرح وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں پر غور کرے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں حلقہ 12کے کونسلرکربلائی رجب علی نے عوام کو درپیش اہم مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت وقت مملکت کی حالت سنوارنے کیلئے مزید جدو جہد کرے، بہتر اقدامات صوبے کی حالت بہتر بنانے میں کار آمد ہونگیں، صوبے میں عوام زندگی کی روز مرہ ضروریات سے محروم ہیں۔ مہنگائی کا عذاب ایک طرف تو گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سمیت دیگر مسائل اپنی جگہ عوام کی زندگی دشوار کر بیٹھے ہیں اور سب سے برہ بات یہ ہے کہ یہ مسائل حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔

ان کا کہناتھا کہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کیلئے بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائے، صوبے بھر میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ہی گیس کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہو رہا ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ عوام کی خدمت کو ترجیح دے اور ہر طور اس بات کو ممکن بنائے کہ عوام کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کر رہے ، عوام کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔

ان کا مذید کہنا تھا کہ حکومت گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی طرف متوجہ ہو، عجیب بات ہے کہ ان مسائل کا تذکرہ تو کیا جاتا ہے مگر ان کو حل کر نے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اور اگر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو سست روی سے کام لیا جاتا ہے، بجلی اور گیس کی پیداوار کیلئے منصوبیں تشکیل دئے جائے اور جلد از جلد صوبے کو ان کے بحران سے نجات دلایا جائے۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلا کر حکومت صوبے میں عوام کا دل جیت سکتی ہے، لہٰذا اقدامات کئے جائے اور ان کے حل کے بعد صوبے کے دیگر مسائل بھی حل کئے جائے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے ممبر بلوچستان  اسمبلی آغا رضا کی نچاری روڈ میں اہلیان نچاری روڈ, سمندر خان روڈ, حاجی مجید اسڑیٹ, رئیسانی محلہ اور ملحقہ علاقوں کے نمائندوں سے (جن میں پشتون , بلوچ , پنجابی , یوسفزئی اور ہزارہ سبھی شامل ہیں) ان کے علاقوں کے مسائل کے حوالے سے بات چیت. اس موقع پر کونسلر کربلائی رجب علی اور کونسلر کربلائی عباس علی بھی موجود تھے.

علاقہ نمائندوں کی جانب سے مذکورہ محلوں میں پانی کی کم یافتی, سڑکوں کی مرمت, اسٹریٹ لائٹس ( جن کو واپڈا اہلکار چرا کے لے گئے ) اور پیر محمد روڈ کے ٹیوب ویل کے لیے سمر سیبل کی مرمت کی درخواست کی.

ایم پی اے آغا رضا نے اہالیان محلہ کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مسلک اور ہماری تنظیم ہمیں مساوات, رواداری, بھائی چارے اور اخوت کا درس دیتے ہیں. اس لیے ہم بلا رنگ و نسل و مذہب اپنے علاقے کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں.

وحدت نیوز (ہٹیاں بالا) بجلی لوڈشیڈنگ ظلم عظیم ہے، بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا جائے، مجلس وحدت مسلمین اس عوامی حق کے لیے بھرپور تعاون کا یقین دلاتی ہے، کشمیر کو بجلی عملاً بجلی دی ہی نہیں جا رہی، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ایسی زیادتی جو ناقابل برداشت ہے، ان خیالات کا اظہار سیکرٹری اطلاعات مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد کشمیر مولانا سید حمید نقوی نے ہٹیاں بالا میں عوامی ملاقاتوں کے دوران کیا، انہوں نے کہا کہ لوڈشیڈنگ نے کاروبار زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، لیکن ایک بات افسوس ناک ہے کہ کل جب ایک طرف عوامی حق کے لیے آواز اٹھ رہی تھی اس میں محض گنتی کے چند افراد تھے جبکہ دوسری جانب جی حضوری اور شو آف پاور کے نام پر سینکڑوں لوگ نکلے ہوئے تھے، وزیراعظم نے اپنی تقریر کے دوران اپنی خدمات تو گنوائیں لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایک طرف جب ان کی تقریر جاری تھی ، جس میں ترقی ترقی ترقی کے الفاظ بولے جارہے تھے ٹھیک اسی وقت عوامی آواز بن کر سٹی ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن ، تاجر برادری و دیگر لوگ سڑک پر اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانے کے لیے موجود تھے، اگر وزیر اعظم عوامی ہوتے تو فوراً اس احتجاجی دھرنے میں شرکت کرتے تو معلوم ہوتا کہ عوامی ہیں ۔ محض ہوائی اعلانات سے عوامی ترقی ممکن نہیں ہوتی ، اور افسوس کا مقام یہ کہ ضرورت سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا کر کے دینے والے خطے کی اپوزیشن بھی سوئی ہوئی ہے، کسی بھی عوامی نمائندے کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ مولانا حمید نقوی نے کہا کہ ہم اس عوامی حق کے لیئے آواز اٹھانے پر سٹی ڈویلپمنٹ فورم و تاجر برادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ عوامی حقوق کی جدوجہد کے لیئے ہم ان کے شانہ بشانہ ہیں ۔اور حکومت وقت کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ گنے چنے دن رہ چکے ہیں آپ کے ، اب تو عوام کا خیال کریں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویڑن کے میڈیا سیل سے جاری شدہ بیان میں ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ ولایت حسین جعفری نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت شعبہ تعلیم میں ترقی کیلئے کام کریں۔ کسی بھی ملک و قوم کے ترقی کیلئے تعلیم ضروری ہے اسکے بغیر ترقی ممکن نہیں ، تعلیم کے ذریعے نہ صرف قومیں اپنا معیار زندگی بناتی ہیں بلکہ ملک و معاشرے کیلئے بہترین تعلیم افرادی قوت بھی فراہم کرتی ہے اور یہی قوت زندگی کے مختلف شعبوں میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔

انہون نے کہاکہ اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیوں کا آغاز ہو رہا ہے، چھٹیوں کے دوران والدین اپنے بچوں کا وقت ضائع ہونے نہ دیں اور اپنے بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول رکھیں۔ تعلیم بچوں کی ذہنی و فکری تربیت کا ایک ذریعہ ہے، والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سکول کے علاوہ بھی اپنے بچوں کی تربیت کیلئے مختلف سرگرمیوں میں انہیں مشغول رکھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم ہی ترقی کے راستے ہموارکرتا ہے، تعلیم وہ واحد چیز ہے جسکی اہمیت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ تعلیم کسی شخص کی تربیت اور شخصیت کی تکمیل کا راستہ ہے جسے حاصل کرکے ہم ترقی کی سڑیوں پر چڑھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بچوں کو چاہئے کہ اپنی سہ ماہاں چھٹیوں کو فقط کھیل کھود میں صرف نہ کرے بلکہ اپنے اگلے سال کے تعلیم کی تیاری کرے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree