The Latest

وحدت نیوز (گلگت) دہشت گردوں کی گرفتاری سیکورٹی فورسز کا قابل تحسین اقدام ہے تاہم ان دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی گرفتاری جب تک عمل میں نہیں آئیگی یہ ایک ادھورا ٹاسک ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہونگے۔دیامر سے تعلق رکھنے والے ملز م فرمان اللہ کی نشاندہی پر لوکل سہولت کاروں کو پولیس کی تحویل سے رہا کرانا ایک تشویشناک امر ہے۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری سیاسیات غلام عباس نے کہا کہ حکومت اپنے رویوں اور بد انتظامی سے علاقے کے عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بیج بورہی ہے۔دہشت گردوں کی گرفتاری کی خبریں آئے روز میڈیا کی زینت تو بن رہی ہیں لیکن نہ تو ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی موثر کاروائی ہورہی ہے اور نہ ہی سہولت کاروں کی کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں بھی کئی علاقوں سے بھاری اسلحہ سمیت گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں لیکن دہشت گردی کے نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالنے سے حکومت یا تو دہشت گردوں سے درپردہ تعلقات استوار کئے بیٹھی ہے یا پھر ان کے دباؤ کو برداشت کرنے کی حکومت میں ہمت نہیں۔حالیہ دنوں دیامر سے تعلق رکھنے والے اشتہاری ملزم جو کہ شروٹ نالے میں قتل کی واردات میں پولیس کو مطلوب تھا کی نشاندہی پر گرفتار کئے گئے سہولت کاروں کی رہائی سے حکومتی عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔حکومت کے ایسے اقدامات سے عوام میں نہ صرف عدم تحفظ کا احساس بڑھ جائیگا بلکہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کے حوصلے مزید پختہ ہوجائینگے۔انہوں نے کہا کہ گرفتار دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے بارے  میں حکومت کا نرم گوشہ ریاست کی رٹ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اور اگر حکومت نے اپنے رویے میں تبدیلی نہ لائی تو اس کے نتائج خود حکومت کے حق میں بہتر نہیں ہونگے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) کراچی میں منعقدہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی سیکریٹریٹ سے جاری ایک بیان میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےسربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے معاملے پر پاک فوج کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، کرپشن کے خاتمے کیلئے بڑےسیاسی مگرمچوں کو تختہ دار کی راہ دیکھانا ضروری ہے، کراچی میں امن کا قیام عارضی محسوس ہوتا ہے، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم بدستور جاری ہیں، دہشت گردی کامکمل قلع قمع کرنے کیلئے تکفیری نظریات کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، وفاقی دارالحکومت میں ریاست پاکستان کو چیلنج کرنے والے موجود ہیں ، پاک فوج کو ریاست بچانے کیلئے کڑوے گھونٹ پینا ہوں گے۔بلدیاتی انتخابات میں انتظامی اور حکومتی رویہ غیر جمہوری تھا، انتہائی حساس پولنگ اسٹیشن پر رینجرز اور فوج کی تعیناتی کا الیکشن کمیشن کادعوہ جھوٹا ثابت ہوا، موجودہ بلدیاتی انتخابات ماضی کے قومی انتخابات اور گلگت بلتستان انتخابات کی طرح فکسڈ الیکشن ثابت ہوئے، علاقائی برسراقتدار جماعتیں بلدیاتی انتخابات پر بری طرح اثرانداز ہوئیں ۔

انہوں نے کہا کہ ریاست پاکستان کا عدالتی نظام نقائص کا مجموعہ ہے، ہزاروں کی تعداد میں گرفتار دہشت گرد تا حال حکومتی مہمان کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں ، نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتاردہشت گردوں کو اسپیڈی ٹرائل کورٹ کے ذریعے  فوری سزا دی جائے، انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر ابھرنے والاداعش کا فتنہ اپ پاکستان کے اندر داخل ہو چکا ہے، امریکی ریاست کیلیفورنیا میں حملے میں ملوث دہشت گرد خاتون کے لال مسجد کے خطیب سے مراسم خطرے کی گھنٹی ہیں ، وفاقی حکومت دہشت گرد مراکز کے خلاف اقدامات اٹھانے میں بہانے بازی کامظاہرہ کررہی ہے جو کہ قومی سلامتی کیلئے انتہائی خطرناک ہے ، پاک فوج تکفیری نظریات کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کرے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کےمرکزی سیکریٹری امو رسیاسیات سید ناصرعباس شیرازی نے بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں انتظامی بے ضابطگیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بلدیاتی انتخابات کے تینوں مراحل کا شفاف انداز میں انعقاد کرانے میں ناکام رہا ، تیسرے مرحلے میں پولنگ عملے ، سکیورٹی ادارےاور بیوروکریسی کا عدم تعاون اور غیر ذمہ دارانہ وریہ افسوس ناک تھا،مخصوص نشستوں سے نامزد ایم ڈبلیوایم کے تمام امیدوار ٹھپہ مافیا، من پسند انتخابی عملے،ریاستی مشنری کے استعمال،جعلی ووٹر لسٹوں ،من پسندپولنگ اسٹیشنوں کی تبدیلی کے باوجود معمولی فرق سے دوسرے نمبر پر رہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیوایم پر ووٹ کے زریعے اعتماد کا اظہار کرنے والے ہزاروں شہریوں کے ممنون ومشکور ہیں ،ہم پہلے کی طرح بغیر حکومتی وسائل کے عوام کی خدمت کا سفر جاری رکھیں گے، مظلوموں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد سے کسی صورت دستبردارنہیں ہوں گے، عوام نے بلاخوف وخطرخیمے کے نشان پر مہر لگاکر ثابت کردیا کہ دھونس ،دھمکی کی سیاست کا زمانہ گزرچکا، عوام اپنے جائز حق کیلئے کسی ظالم یا جابر سیاست جماعت کی بیعت نہیں کریں گے۔

وحدت نیوز (شکارپور) جامڑا ضلع شکارپور میں کالعدم دھشتگرد تنظیم نے مسجد امام زمانہ ؑ میں پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی دی اور جل کافر جل کے نعرے لگاتے رہے اس واقعے کے نتیجے میں مولانا صابر حسین جل کرشدید زخمی ہوئے تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی،مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات عبداللہ مطہری ،مولانا سکندرعلی اور شہداء کمیٹی کے دیگر رہنماوں نے مقامی اسپتال میں زخمی مولانا صابر حسین کی عیادت کی اور ان کی جلد شفاءیابی کی دعا کی ، اس موقع ہر عبداللہ مطہری کا کہنا تھا کہ ضلع شکار پور ،جیکب آباد اور قریب و جوار کے اضلاع دھشتگردوں کی جنت بنی ہوئی ہے اور انتظامیہ تماشائی بنی ہوئی ہے ، انہوں نے واقعے میں ملوث دہشت گردوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان شہر میں شفاف بلدیاتی انتخابات کرانے میں ناکام رہابلدیاتی انتخابات میں یوسی۱۱ ملیر،۱۶سولجربازار،۲۶انچولی سوسائٹی میں سیاسی جماعت کے دہشتگردوں نے بدترین دھاندلی کی ہمارے پولنگ ایجنٹ اور ووٹروں کا دھماکا یا گیامگر اس تمام صورتحال میں الیکشن کمیشن اورقانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں دیکھائی نہیں دیئے ۔وحدت ہاؤس کراچی سے جاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے حولاے سے الیکشن کمیشن و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کاسمیٹک انتظامات کئے رینجرز کو مجسٹریٹ کے دیئے جانے والے اختیارات بھی دھوکا ثابت ہوئے مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے 20امیدوار وں نے بلدیاتی انتخابا ت میں حصہ لیا جہاں ایم ڈبلیوایم کے ووٹروں کا اکثریتی علاقے ہے اور ان جگہوں سے ماضی میں بھی ایم ڈبلیو ایم کوایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ پڑھتے رہے ہیں لیکن اس بار لگتا ہے بلدیاتی انتخابات میں سیاسی طالبان کا ایجنسیوں سے پہلے ہی مک مکا ہوچکا تھاشہر میں انتہائی حساس قرار دیئے جانے والے پولنگ اسٹیشن پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل غائب رہے متعدد بار انتخابی بے ضابطگیوں ٹھپے لگانے والوں اور اسلحہ بر داروں کے حوالے سے بہت سی شکایات بھی کی گئی مگرالیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے ان واقعات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں شفاف الیکشن کے دعوئے جھوٹے ثابت ہوئے انہوں نے ٹپہ مافیا کی جانب سے ایم ڈبلیو ایم کے ووٹرز اور پولنگ ایجنٹوں کوقتل کی دھمکیا ں دیئے جانے کی مذمت کرتے ہیں تمام واقعات کے باوجودیو سی ۱۱ملیر،۱۶سولجربازار،۲۶ انچولی سوسائٹی میں ایم ڈبلیو ایم کے امید وار معمولی فرق سے دوسرے نمبر پر رہے جس پریو سی ۱۱ملیر،۱۶سولجر بازار،۲۶ انچولی سوسائٹی کے عوام کے شکر گزر ہیں کے جنہوں نے ہم پراعتماد کیا خیمہ کو ووٹ دیئے ۔

وحدت نیوز (راولپنڈی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری علامہ امین شہیدی نے چہلم سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے مرکزی جلوس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں جو طاقتیں بھی عالم اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ ابلیسی قوتیں ہیں۔ اسلام دین امن ہے، کسی شرپسند کا تعلق اسلام سے قطعا نہیں۔ حسینی طرز حیات اور شیعہ سنی وحدت کے ہتھیار سے ہمیں باطل قوتوں کو شکست دینا ہو گی۔ اس وقت امت مسلمہ شدید خلفشار کا شکار ہے۔ عالم اسلام کو ظلم و بربریت کا سامنا ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا ہی حسینی شعار ہے۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ جس سرزمین پر ظلم کے خلاف حسینی اٹھ کھڑے ہوں وہی سرزمین کربلا کی مانند ہے۔ کربلا کی تقلید ہم پر نماز روزے کی طرح واجب ہے حسینت ظلم کے خلاف شجاعت، استقامت اور جرات کا نام ہے۔ امام عالی مقام کی محبت انسان کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔ اگر یہ محبت نہیں تو پھر چلتے پھرتے جسم کو زندہ لاش تو کہا جا سکتا ہے لیکن انسان کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہ وطن عزیز کی سلامتی و استحکام کے لیے شیعہ سنی اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تا کہ ان گروہوں کو شکست دی جا سکے جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ درس کربلا کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم حقیقی معنوں میں دین اسلام کی روح سے آگاہ ہو سکیں۔

وحدت نیوز (کربلائے معلیٰ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری 4روز کی مسافت طے کرکے پاپیادہ نجف سے کربلا پہنچ گئے،14صفرالمظفر کو نجف سے آغاز ہونے والا یہ سفر  18صفرالمظفر کو کربلائے معلیٰ پہنچ کر اختتام پزیر ہوا،80 کلومیٹر طویل اس سفر میں مختلف مقامات پر انہوں نے نمازباجماعت کی امامت اور مناقب ومناجات کا شرف حاصل کیا، جبکہ کربلا پہنچنے پر انہوں نےتھکن سے چور زائرین اباعبدالحسین ؑ کی خدمت بھی کی، اس موقع پر وحدت اسکائوٹس ، امامیہ اسکائوٹس، ایران، لندن ، امریکہ، پاکستان سمیت دیگر ملکوں کے پاکستانی زائرین کی بھی بڑی تعداد انکے ہمراہ موجود تھی۔

وحدت نیوز (کربلائے معلیٰ) اربعین سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کے موقع پر عراق کے گوش وکنار سمیت دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں عاشقان حسینی ؑاپنے محبوب کی بارگاہ ملکوتی میں حاضری کے لئے تشریف لا چکے ہیں  ، سب سے بڑا پاپیادہ قافلہ نجف سے کربلا 80کلومیٹر کی مسافت طے کرکے پہنچا ہے جس میں نا فقط نجف بلکے پاکستان ، ایران، افغانستان، بھارت، برطانیہ، افریقہ،جرمنی، فرانس، بحرین، سعودیہ، یمن، لبنان، چین سمیت دیگر ممالک کے زائرین شامل ہیں،دوسری جانب سے ایران کے مقدس شہر مشہد الرضاؑسے بھی ایک پاپیادہ قافلہ عشق لاکھوں زائرین پر مشتمل ایک ماہ کی طویل مسافت طے کرکے پہلے نجف پھر کربلا پہنچا ہے،پاپیادہ زائرین راستے بھر نماز وعبادات  ، مناجات تسبیح وتحلیل میں مصروف دکھائی دیئے،  نجف سے کربلا اور دیگر شہروں سے کربلا کی جانب آنے جانے والی سڑکوں پر مقامی وغیر مقامی عاشقان حسینی ؑکی بڑی تعداد نے زائرین امام حسین ؑکی خدمت کیلئے مختلف اسٹال، سبیلیں ، کیمپس کا اہتمام کیا ہوا، جہاں دنیا بھر کی نعمتیں زائرین کے پیش خدمت ہیں ، جگہ جگہ تھکاوٹ سےچوراور پیروں میں چھالے کھانے والے زائرین کی خدمت کیلئے پورے راستے خصوصی مساج کیمپ لگائے گئے ہیں ، جہاں علمائے کرام ، فوجی حکام، اور مقامی زائرین کی بڑی رؤتعداد مہمان زائرین کی شب وروز خدمت عبادت سمجھ کر انجام دےرہے ہیں ، زائرین کا ٹھاٹھے مارتا سمندر اس وقت کربلائے معلیٰ میں موجود ہے، ہر سوز انسانی سروں کا سمندر دکھائی دے رہا ہے، فضائی مشاہدے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری شہر کو کالی چادر میں ڈھانپ دیا گیا ہے،مختلف سمتوں سے کربلامیں داخل ہونے والےزائرین حرم مطہر پر نظر پڑے سے شدید آہ وبکاکرتے دکھائی دیئے گئے، کئی یک زائرین شدت غم سے بے ہوش بھی ہوئے ، جنہیں فوری طور پر طبی امداد دی گئی، عراقی حکام کے مطابق اس برس اربعین کے موقع پر مقامی اور غیر مقامی زائرین تقریباًتین لاکھ کی تعداد میں کربلا ئے معلیٰ میں موجود ہیں ،جگہ کی کمی اور حکومتی اقدامات میں کوتاہی سے بچنے کیلئے عراقی حکام نے چار روز قبل ہی تمام بارڈرز سیل کردیئے تھے جبکہ تمام ایئرپورٹس پر آن ارائول ویزا کی سہولت بھی ختم کردی گئی تھی۔

وحدت نیوز (تہران) رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے پیر کے روز فقہ کے اپنے درس خارج میں، کربلا میں اربعین حسینی علیہ السلام کی مناسبت سے ہونے والے بے مثال عظیم اجتماع کو ایک یادگار حسنہ سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ "عشق و ایمان" اور "عقل و جذبے" کا امتزاج، اہل بیت اطہار علیھم السلام کے مکتب کی انفرادی خصوصیت ہے-

حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اربعین امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی پذیرائی کرنے والے عراقی عوام کی محبت اور بلند ہمتی کو سراہا اور اس عظیم معنوی اجتماع میں شرکت کی توفیق پانے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس موقع کو غنیمت جانیں- آپ نے فرمایا کہ ہم بھی دور سے اربعین حسینی کے زائرین پر رشک کر رہے ہیں اور یہ آرزو کر رہے ہیں کہ کاش ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے-

رہبر انقلاب اسلامی نے خاندان پیغمبر اسلام سے معنوی اور والہانہ رابطے، نیز ان نورانی شخصیات کی زیارت کو مکتب تشیع کا ایک امتیاز قرار دیا اور فرمایا کہ اربعین حسینی میں شرکت کے لئے ایران اور دیگر ملکوں سے جانے والے لوگوں کا کربلائے معلی میں عظیم اجتماع، مکتب اہل بیت اطہار علیھم السلام کی ممتاز خصوصیات کا ایک جلوہ ہے اور اس میں بھی ایمان، اعتقاد، اور پختہ یقین موجزن ہے اور ساتھ ہی عشق و محبت بھی-

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) یورپ خاص طور پر فرانس میں ہونے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات اور عالم اسلام کو درپیش موجودہ مسائل کے تناظر میں یورپی جوانوں کے نام رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا خط

بسم اللہ الرحمن الرحیم ! یورپی جوانوں کے نام ! فرانس میں اندھی دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر مجھے آپ جوانوں سے مخاطب ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ میرے لئے یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات آپ جوانوں کے ساتھ گفتگو کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دردناک واقعات باہمی مشاورت اور چارہ جوئی کا راستہ ہموار نہ کریں تو بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان کا غم بجائے خود بنی نوع انسان کے لئے رنج و اندوہ کا باعث ہے۔ ایسے مناظر کہ جن میں بچہ اپنے اعزاء و اقرباء کے سامنے موت کو گلے لگا رہا ہو، ماں کہ جس کی وجہ سے اس کے اہل خانہ کی خوشیاں غم میں تبدیل ہوجائیں، شوہر جو اپنی بیوی کے بے جان جسم کو تیزی کے ساتھ کسی سمت لے جا رہا ہو، یا وہ تماشائی کہ جسے یہ نہیں معلوم وہ چند لمحوں کے بعد خود اپنی زندگی کا آخری سین دیکھنے والا ہے، یہ وہ مناظر نہیں ہیں کہ جو انسان کے جذبات و احساسات کو نہ ابھارتے ہوں۔ ہر وہ شخص کہ جس میں محبت اور انسانیت پائي جاتی ہو۔ ان مناظر کو دیکھ کر متاثر اور رنج و الم کا شکار ہوجاتا ہے۔ چاہے اس طرح کے واقعات فرانس میں رونما ہوئے ہوں، فلسطین یا عراق، لبنان اور شام میں۔ یقینا ڈیڑھ ارب مسلمان اسی احساس کے حامل ہیں اور وہ اس طرح کے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے بے زار ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آج کے رنج و الم ایک اچھے اور زیادہ محفوظ مستقبل کی تعمیر کا سبب نہ بنیں تو وہ صرف تلخ اور بے ثمر یادوں کی صورت میں باقی رہ جائیں گے ۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ صرف آپ جوان ہی ہیں جو آج کی مشکلات سے سبق حاصل کر کے اس بات پر قادر ہو جائيں کہ مستقبل کی تعمیر کے لئے نئي راہیں تلاش کر سکیں اور ان غلط راستوں پر رکاوٹ بن جائیں کہ جو یورپ کو موجودہ مقام تک پہنچانے کا باعث بنے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آج دہشت گردی ہمارا اور آپ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس بدامنی اور اضطراب کا حالیہ واقعات کے دوران آپ لوگوں کو سامنا کرنا پڑا ہے ان مشکلات میں اور برسہا برس سے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے لوگوں نے جو مشکلات برداشت کی ہیں ان میں دو اہم فرق پائے جاتے ہیں۔ پہلا فرق یہ ہے کہ اسلامی دنیا مختلف زاویوں سے نہایت ویسع اور بڑے پیمانے پر اور ایک بہت لمبے عرصے تک تشدد کی بھینٹ چڑھی ہے۔ دوسرے یہ کہ افسوس کہ اس تشدد کی ہمیشہ بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے مختلف اور موثر انداز میں حمایت کی جاتی رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئي ایسا فرد ہوگا جو القاعدہ، طالبان اور ان سے وابستہ منحوس گروہوں کو وجود میں لانے، ان کی تقویت اور ان کو مسلح کرنے کے سلسلے میں امریکہ کے کردار سے آگاہ نہ ہو۔ اس براہ راست حمایت کے علاوہ تکفیری دہشت گردی کے جانے پہچانے حامی پسماندہ ترین سیاسی نظام کے حامل ہونے کے باوجود ہمیشہ یورپ کے اتحادیوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطے میں آگے کی جانب گامزن جمہوریت سے جنم لینے والے ترقی یافتہ اور روشن ترین نظریات کو بڑی بے رحمی کے ساتھ کچلا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں بیداری کی تحریک کے ساتھ یورپ کا دوہرا رویہ یورپی پالیسیوں میں پائےجانے والے تضادات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس تضاد کی ایک تصویر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اگر یورپ کے عوام آج چند دنوں کے لئے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں اور وہ عوامی مقامات اور پرہجوم علاقوں میں جانے سے گریز کر رہے ہیں تو فلسطینی خاندان دسیوں برسوں سے حتی اپنے گھروں میں بھی غاصب صیہونی حکومت کی تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کی مشینری سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ آج کونسے تشدد کا موازنہ صیہونی بستیوں کی تعمیر کے شدت ظلم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاسکتا ہے؟ یہ حکومت روزانہ فلسطینیوں کے گھروں کو ویران اور ان کے باغات اور کھیتوں کو نیست و نابود کر رہی ہے لیکن اس کے بااثر اتحادی یا کم از کم بظاہر آزاد بین الاقوامی ادارے موثر انداز میں اور سنجیدہ طور اس کی مذمت بھی نہیں کرتے حتی فلسطینیوں کو اپنا ساز و سامان دوسری جگہ منتقل کرنے اور غلہ جات کو اکٹھا کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی اور یہ سب کچھ وہ ان دہشت زدہ ، سہمی اور روتی ہوئي خواتین اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیتی ہے کہ جو اپنے گھرانے کے افراد کو زد وکوب ہوتا ہوا اور بعض اوقات ان کو خوفناک ٹارچر سیلوں میں منتقل کئے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیا آج کی دنیا میں آپ کو کوئی اور ایسا ظلم نظر آتا ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر یا اتنے زیادہ عرصے تک کیا گيا ہو؟ سڑک کے درمیان میں ایک ایسی خاتون کو گولی مار دی جائے جس کا جرم صرف یہ ہو کہ اس نے سر سے پاؤں تک مسلح فوجی کے خلاف احتجاج کیا ہے تو یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس بربریت کا ارتکاب چونکہ ایک قابض حکومت کے فوجی کرتے ہیں تو کیا اسے دہشت گردی نہیں کہنا چاہئے؟ یا یہ تصاویر صرف اس لئے ہمارے ضمیر کو بیدار نہیں کرتیں کہ چونکہ ساٹھ برسوں کے دوران بارہا ان کو ٹیلی ویژن سے دیکھا جا چکا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا پر کئے جانے والے متعدد حملے بھی ، کہ جن کے دوران بے شمار جانی نقصان ہوا، یورپ کی متضاد منطق کا ایک اور نمونہ ہے۔ جن ممالک پر یلغارکی گئی ہے ان کو جہاں انسانی جانوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں وہ اپنی بنیادی اقتصادی اور صنعتی تنصیبات سے بھی محروم ہوچکے ہیں، ان کی ترقی و پیشرفت کا سفر یا تو رک چکا ہے یا اس کی رفتار کم ہوگئي ہے اور موارد میں وہ دسیوں سال پيچھے چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود نہایت گستاخانہ انداز میں ان سے کہا جاتا ہےکہ وہ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ کسی ملک کو ویرانے میں تبدیل کردیا جائے، اس کے شہروں اور دیہاتوں کو کھنڈرات میں بدل دیاجائے اور پھر ان سے کہا جائے کہ برائے مہربانی آپ لوگ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ کیا انہیں اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھنے یا المناک واقعات کو بھلا دینے کی تلقین کرنےکے بجائے ان سے سچے دل سے معافی مانگنا بہتر نہیں ہے؟ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا کو جارحین کے بناوٹی چہروں اور منافقت سے جس الم و رنج کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ مادّی نقصانات سے کم نہیں ہے۔

اے عزیز جوانو! مجھےامید ہے کہ آپ لوگ موجودہ اور آنے والے زمانے میں جھوٹ سے آلودہ اس ذہنیت کو بدل دیں گے وہ ذہنیت کہ جس کا بڑا فن دور رس مقاصد کو چھپانا اور نقصان دہ اغراض و مقاصد کی آرائش کرنا ہے۔ میرے نزدیک امن و امان کی برقراری کا پہلا مرحلہ تشدد پیدا کرنے والی اس فکر کو بدلنے سے عبارت ہے۔ یورپ کی پالیسی پر جب تک دوہرے معیارات چھائے رہیں گے اور جب تک دہشت گردی کے طاقتور حامی اسے اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کرتے رہے گے اور جب تک حکومتوں کے مفادات کو انسانی اور اخلاقی اقدار پر ترجیح دی جاتی رہے گی تب تک تشدد کا سبب کسی اور چیز میں تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ افسوس کہ برسہا برس سے یہ علل و اسباب تدریجا یورپ کی ثقافتی پالیسیوں میں بھی رسوخ کر چکے ہیں اور انہوں نے ایک نرم اور خاموش یلغار شروع کر رکھی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی مقامی اور قومی ثقافت پر فخر کرتے ہیں۔ ایسی ثقافتیں کہ جو ثمر کا حامل اور بالیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں برسوں سے انسانی معاشروں کی بطریق احسن پرورش کر رہی ہیں۔ اسلامی دنیا بھی اس امر سے مستثنی نہیں ہے۔ لیکن عصر حاضر میں یورپی دنیا جدید ترین آلات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر ایک جیسی ثقافت اور کلچر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ میں مغربی ثقافت کو دوسری قوموں پر مسلط کرنے اور آزاد ثقافتوں کو حقیر سمجھنے کو ایک خاموش اور بہت ہی نقصان دہ تشدد سمجھتا ہوں۔ ایسی حالتوں میں مالا مال ثقافتوں کو حقیر سمجھا جا رہا ہے اور ان کے قابل احترام ارکان کی توہین کی جا رہی ہے کہ جب ان کی متبادل ثقافتوں میں ان ثفافتوں کی جگہ لینے کی اہلیت نہیں ہے۔ مثلا جارحانہ رویہ اور اخلاقی بے راہ روی پر مبنی دو عوامل کی وجہ سے ، کہ جو یورپی ثقافت کے دو بنیادی ترکیبی عناصر میں تبدیل ہو چکے ہیں، اس ثقافت کا مقام خود اپنے اصلی مقام میں بھی گھٹ کر رہ گیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم معنویت سے عاری، جنگ پسند اور فحش ثقافت کو تسلیم نہ کریں تو کیا ہم گناہ گار ہیں؟ اگر ہم فن و ہنر کے نام پر مختلف اشیاء کی صورت میں اپنے جوانوں کے طرف امنڈ کر آنے والے تباہ کن سیلاب کی روک تھام کریں تو کیا ہم قصور وار ہیں؟ میں ثقافتی رابطوں کی اہمیت کا انکار نہیں کرتا ۔ جب بھی مطلوبہ معاشروں کے احترام کے ساتھ اور طبیعی حالات میں یہ رابطے قائم کئے گئے تو ان کا نتیجہ ترقی و پیشرفت اور بالیدگی کی صورت میں برآمد ہوا ہے اور اس کے برعکس زبردستی مسلط کئے گئے اور ناموزوں رابطے ناکام اور نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ داعش جیسے پست گروہ درآمد شدہ ثفافتوں کے ساتھ اسی طرح کے ناکام رابطوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر واقعی اعتقاد کے اعتبار سے کوئي مشکل ہوتی تو سامراجی دور سے قبل بھی اسلامی دنیا میں اس طرح کے واقعات پیش آتے حالانکہ تاریخ اس کے خلاف گواہی دے رہی ہے۔ مسلمہ تاریخی حقائق سے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک مسترد کی گئي انتہا پسندانہ فکر کے ساتھ سامراج کے رابطے نے، وہ بھی ایک بدو قبیلے میں، اس خطے میں انتہا پسندی کا بیج بویا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دینے والے دنیا کے سب سے زیادہ انسانی ترین اور اخلاقی ترین دینی مکتب سے داعش جیسی گندگی جنم لے سکے؟ دوسری جانب یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ یورپ میں پیدا ہونے والے اور اسی فکری اور روحانی ماحول میں پرورش پانے والے افراد اس طرح کے گروہوں میں کیوں شامل ہوتے ہیں؟ کیا یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ افراد ایک دو مرتبہ جنگی علاقوں کا دورہ کر کے اس حد تک انتہا پسند بن جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم وطنوں پرگولیاں برسا دیں؟ یقینا آلودہ اور تشدد کو وجود میں لانے والے ماحول میں عرصۂ دراز تک نامناسب ثقافتی غذا سے پرورش پانے کے اثرات کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کا ایک ایسا جامع جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ جو معاشرے کی آشکارا اور خفیہ گندگیوں کی نشاندہی کر سکے۔ شاید صنعتی اور اقتصادی ترقی کے برسوں کے دوران عدم مساوات اور بعض اوقات قانونی اور اسٹرکچرل امتیازی سلوک کے نتیجے میں مغربی معاشرے کے بعض طبقات میں بوئي جانے والی شدید نفرت کی وجہ سے ایسا کینہ پیدا ہو گیا ہے کہ جو وقتا فوقتا ایک مرض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔بہرحال یہ اب آپ لوگ ہیں کہ جنہیں معاشرے کے اس ظاہری خول کو اتار پھینکنا ہے اور دشمنی اور کینے کا پتہ لگا کر اسے ختم کریں۔ شگافوں کو گہرا کرنےکے بجائے پر کرنا ہے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے سلسلے میں سب سے بڑی غلطی عجلت پر مبنی وہ رد عمل ہے کہ جو موجودہ مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تشکیل پانے والے مسلمان معاشرے کو، کہ جو کئي ملین سرگرم اور فرض شناس انسانوں پر مشتمل ہے ، تنہائی اور اضطراب میں مبتلا کرنے پر منتج ہونے والا ہر ایسا اقدام جو جذبات کی رو میں بہہ کر اور عجلت پسندی سے کام لے کر انجام دیا گيا ہو اور جو اس معاشرے کو اضطراب ، تنزلی اور خوف و ہراس میں مبتلا کردے اور پہلے سے زیادہ انہیں ان کے اصلی حقوق سے محروم کر دے اور انہیں میدان عمل سے دور کردے۔ اس سے نہ صرف مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اس سے فاصلے مزید بڑھیں گے اور کدورتوں میں وسعت آئے گی۔ سطحی تدابیر اور رد عمل میں انجام دیئے جانےوالے اقدامات کا ، خاص کر اگر ان کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے، سوائے موجودہ دھڑے بندیوں میں اضافہ کرنے اور آئندہ بحرانوں کا راستہ ہموار کرنے پر منتج ہونے کے علاوہ کوئي اور نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق بعض یورپی ممالک میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو شہریوں کو مسلمانوں کی جاسوسی پر اکساتے ہیں۔ یہ ظالمانہ رویہ ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم لامحالہ ظالم کی طرف پلٹنے کی خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان اس ناقدری کے سزاوار بھی نہیں ہیں۔ مغربی دنیا صدیوں سے مسلمانوں کو بہت اچھی طرح پہنچانتی ہے۔ اس دن سے کہ جب یورپ والے اسلامی سرزمینوں میں مہمان تھے اور ان کی نظریں میزبانوں کی دولت پر جمی ہوئي تھیں۔ اور اس دن بھی کہ جب وہ میزبان تھے انہوں نے مسلمانوں کے کام اور ان کے افکار سے فائدہ اٹھایا ان کو مسلمانوں میں مہربانی اور صبر کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ بنابریں میں آپ جوانوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ آپ لوگ درست شناخت اور غور و خوض کی بنیاد پر اور تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی دنیا کے ساتھ عزت پر مبنی اور صحیح اشتراک عمل کی بنیاد رکھنے کی تیاری کریں۔ اس صورت میں وہ دن دور نہیں کہ آپ لوگ یہ دیکھ لیں گے کہ آپ جن بنیادوں پر اس عمارت کو استوار کریں گے وہ اپنے معماروں کے سروں پر اطمینان اور اعتماد کا سایہ کرے گی، ان کو امن و سکون کی گرماہٹ کا تحفہ دے گی اور صحفہ ہستی میں تابناک مستقبل کی امید کی کرن روشن کرے گی۔


سید علی خامنہ ای

8 آذر 1394

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree