وحدت نیوز(گلگت) باچا خان یونیورسٹی پر طالبان کے حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں، قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان اور قومی سانحہ ہے۔دشمن ہمارے تعلیمی اداروں کو نشانہ بناکر ہمارے عزم و حوصلے کو شکست نہیں دے سکتا۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری سیاسیات غلام عباس نے کہا کہ دارالخلافہ اسلام آبادسمیت پورا ملک دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔افواج پاکستان کو وزیرستان میں دھکیل کر ملک کے بڑے شہروں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔حساس اداروں کی جانب سے نشاندہی کے باوجود دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف کاروائی نہ کرنا دہشت گردوں سے ملی بھگت کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری دہشت گردی ہمارے حکمرانوں کے اعمال کا نتیجہ ہے کہ ماضی میں وطن عزیز میں امریکی ڈالر اور سعودی ریال کی خاطر لشکریوں کو منظم کیا اور ان لشکریوں کو مخصوص علاقوں میں بھیجتے رہے آج وہی لشکر جسے حکمرانوں نے دوسروں کو سبق سکھانے کیلئے ترتیب دیا تھا ہمارے گلے پڑ گئے ہیں۔ہمارا دشمن ملک سے باہر نہیں بلکہ ہمارے درمیان بیٹھا ہوا ہے جس کے خلاف کاروائی کرنے سے حکومت گھبرارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ گلگت کے دو انجینئرز کے اغوا میں ملوث دہشت گردوں کو حکومتی سرپرستی میں محفوظ راستہ دینے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟گلگت شہر میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ اور ایک مسجد کا نام ابوبکر بغدادی کے نام منسوب کرنا کوئی بچوں کا کھیل ہے۔
انہوں نے کہا لیگی وزیر اعلیٰ نے اپنے دامن میں چھپائے دہشت گردوں سے توجہ ہٹانے کیلئے داریل کے جنگلات میں طالبان اور دہشت گردوں کی موجودگی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان ایک حساس علاقہ ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ دہشت گرد عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کرے قبل اس کے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے۔شاہراہ قراقرم پر کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کے زخم ابھی تک باقی ہیں حکومت مسافروں کے تحفظ کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے نیز گلگت بلتستان کے نجی و سرکاری تمام تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے۔
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے گلگت میں سید ضیاءالدین رضوی شہید کی گیارھویں برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدنیت حکمران 69 سالوں سے ہماری وفاداری کا صلہ ظلم و زیادتی سے دے رہے ہیں، سات دہائیوں سے اس خطے کے عوام کو صرف اور صرف کشمیر پر استصواب رائے کی خاطر متنازعہ بنایا گیا۔ گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق مانگنے پر سید ضیاءالدین رضوی کو راستے سے ہٹایا گیا۔ اس علاقے کے عوام کی وفاداری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بدکردار حکمران آغا ضیاءالدین رضوی کو اپنے راستے کی دیوار سمجھتے تھے، چونکہ اس سید بزرگوار نے اس علاقے کے عوام کو حکمرانوں سے اپنے حقوق مانگنے کا شعور دیا تھا۔ وہ اتحاد و وحدت اور بھائی چارے کے امین تھے۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا اور علاقے کے عوام کے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں اپنا خون بہا دیا۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ آج بھی حقوق مانگنے والوں کو غداری کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے جبکہ پورے ملک کو دہشت گردی کا شکار کرنے اور معصوم و بیگناہ افراد کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کو وفادار تصور کیا جاتا ہے۔ 1988ء میں ریاستی سرپرستی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لشکر کشی کی گئی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید ہوئے، درجنوں دیہات لشکریوں کے ہاتھوں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے، بونجی، جگلوٹ اور مناور کی شیعہ آبادی ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اس کے علاوہ لالوسر، کوہستان اور چلاس کے مقام پر مسافروں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ 13 اکتوبر 2005ء کو دو سیدانیوں سمیت سات افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ ان تمام مظالم کے باوجود ملت تشیع نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، وطن کی محبت کا دم بھرتے رہے اور حکومت ہماری اس وفاداری کو جرم سمجھ کر ہمارے ساتھ مجرموں والا سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 69 سالوں تک حقوق سے محروم رہ کر بھی اس علاقے کے عوام ایک اکائی کا حصہ رہے ہیں، لیکن پہلی مرتبہ سازشی عناصر کے ہاتھ اقتدار آیا تو اس علاقے کی تقسیم کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ مقتدر حلقے بتائیں کہ ان کے نزدیک کون زیادہ وفادار ہیں؟ خطے کو تقسیم کرنے والے یا متحدہ گلگت بلتستان کی بات کرنے والے۔ حکمرانوں کو بدنیتی کے خول سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آنا پڑے گا اور اس خطے کے عوام پر ہونے والے مظالم کا ازالہ کرنا پڑے گا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کوئٹہ میں بم دھماکے کے نتیجے میں چھ سیکورٹی اہلکاروں کی شہادت پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں ہفتے کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ تشویش ناک ہے۔ دہشت گردی کے واقعات پر مکمل طور پر قابو پانا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دہشت گردوں سمیت ان کی کمین گاہوں اور سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جاتا۔دہشت گرد عناصر وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ملک دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں۔وطن عزیز میں امن کی بحالی محض دہشت گرد قوتوں کے خاتمے سے مشروط نہیں بلکہ اس منفی رجحان کو شکست دینا ہو گی جو ناپختہ اذہان کو ملک دشمن سرگرمیوں کی طرف مائل کرتا ہے۔بلوچستان کو دہشت گردوں نے اپنی محٖفوظ پناہ گاہ سمجھ رکھا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے ان مذموم عناصر کی بھرپور معاونت کی جاتی ہے۔خطے میں امن کے حقیقی قیام کے لیے تمام ممالک کو خلوص نیت کے ساتھ کوششیں کرنا ہوں گی۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں اور مذہبی کارکنوں کو بے دریغ شہید کیا جاتا رہا۔شہدا کا خون کا حق تبھی ادا ہو گا جب اس ملک سے دہشت گردی کی لعنت کا مکمل خاتمہ ہو گا۔علامہ ناصر نے شہید ہونے والے سیکوڑٹی اہلکاروں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔
وحدت نیوز (گلگت) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان ایک اکائی ہے، علاقے کی وحدت کو تقسیم کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔ اقتصادی راہداری کے ثمرات سے علاقے کے عوام کو دور رکھنے کیلئے گلگت بلتستان کی تقسیم کا فارمولا دیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے غلمت نگر گلگت میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کی تقدیر بدل جائیگی۔ کئی دہائیوں سے گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی حقوق پر شب خون مارا گیا، اب وقت آن پہنچا ہے کہ علاقے کے عوام یک زبان ہوکر اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کریں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی جی بی کی تاریخ سے نابلد ہیں، سری نگر تک کا علاقہ اس خطے کے بہادر سپوتوں نے آزاد کروایا تھا، متنازعہ بیانات محض علاقے میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کیلئے دیئے جا رہے ہیں۔
علامہ امین شہیدی نے کہا کہ ماضی میں بھی جب اس خطے کے عوام نے متحد و یک زبان ہوکر اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی تو اسے سبوتاژ کیا گیا اور بھتہ خور سیاسی رہنماؤں کے ذریعے عوامی جدوجہد کو ناکام بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حالات بڑے نازک موڑ پر ہیں، اس خطے کے عوام کی خاموشی اور سیاسی رہنماؤں کی معمولی غلطی گلگت بلتستان کے عوام کی شناخت مٹانے کا موجب بنے گی۔ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کی جانب سے اس خطے کے عوام کو مطمئن کرنے کی بجائے شکوک و شبہات کا پھیلایا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ نواز لیگ کی حکومت جی بی کے عوام سے مخلص ہی نہیں۔ حالانکہ صوبائی اسمبلی نے دو مرتبہ متفقہ طور پر ایک مکمل خود مختار آئینی صوبے کی قرارداد پاس کی ہے۔ پاک چین اقتصادی کوریڈور میں گلگت بلتستان کے عوام کو نظر انداز کرنے کی حکومتی پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما نے کہا کہ حکومت اس خطے کے محروم عوام پر رحم کرے اور گلگت بلتستان کو ایک مکمل آئینی صوبے کی حیثیت دیکر اقتصادی راہداری میں حصہ دار بنائے۔
وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں حکومتی ظالمانہ ٹیکس کے نفاذ کے خلاف کامیاب ہڑتال نے صوبائی حکومت کو ثابت کردیا ہے کہ جی بی کی عوام باشعور عوام ہے، اب کسی کو انکے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیں گے۔ گلگت بلتستان کی عوام نے جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا اور اینٹی ٹیکس موومنٹ کی کال پر پہیہ جام ہڑتال کی وہ لائق تحسین ہے۔ آغا علی رضوی نے کہا کہ جس جمہوری انداز سے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا اس کے بعد صوبائی حکومت کو ہوش آجانا چاہیئے اور خطے کے خلاف قدم اٹھانے کے تمام عزائم کو ترک کرکے خطے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی عوام نے آج وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کے مظالم کیخلاف پرچم بلند کیا ہے اور یہ پرچم مکمل آئینی صوبہ بننے تک بلند رکھنا چاہیئے۔ حکومت چاہتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو مسلک، ذات پات، لسانیت اور علاقائیت کے نام پر لڑوائے اور عوامی ایشوز سے توجہ ہٹائے جسکی عوام ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ حراموش کا افوسناک واقعہ بھی صوبائی حکومت کی سازشوں کا شاخسانہ اور عوامی توجہ آئینی حقوق سے ہٹانے کے لیے ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) 11 جنوری کی رات کو جلال آباد اور چھموگڑ سے دو ڈھائی سو لوگ مقپون داس پہنچے اور شہیدوں کے مزار کے سامنے روڈ کی دوسری طرف تعمیراتی کام شروع کر دیا،صبح وہاں پر موجود لوگوں کو پتہ چل گیا تو انہوں نے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں کو اطلاع دی اور ایک ہی گھنٹے کے اندر ہنوچل اور شوتہ نالہ سے کافی لوگ جمع ہوگئے ،پولیس بھی تب تک پہنچ چکی تھی،پولیس کی موجودگی میں طرفین میں تصادم ہوا،گولیاں چلیں اور شدید پتھروں کی بارش ہوئی جسکے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور شوتہ نالہ سے تعلق رکھنے والے ایک عمر رسیدہ عبدالرحمن نامی شخص کو دو گولیاں لگیں ،ایک گولی سینے میں اور دوسری ٹانگ میں، جس کو فوری طور پر اسپتال پہنچا دیا گیا اور ابھی اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے۔
اسکے بعد پولیس اور این ایس فورسز ،ڈی سی صاحب ،شیخ مرزا صاحب بھی علماء کے وفد کے ساتھ پہنچ گئے اور طرفین سے مذاکرات کرکے طرفین کو شرعی فیصلے پر راضی کرلیا اور جلال آباد سے چھموگڑ اور حراموش سے آئے ہوئے لوگوں کو واپس جانے کا کہہ کر خود بھی واپس چل دیے۔
اس واقعے کو اب تین دن گزر گئے ہیں لیکن طرفین اپنی اپنی جگہ پرڈٹے ہوئے ہیں۔گویاپورا جلال آباد،چھموگڑ،حراموش مقپون داس ۔۔۔ سب ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں ، کشیدگی اور جنگ کے چانسز سو فیصد موجود،ڈی سی کی آ مد اور طرفین کو ہٹائے بغیر فورسز کے ساتھ اچانک غائب ہونا اور طرفین کو اسی جنگ کی حالت میں اپنے حال پر چھوڑ دینا،انتظامیہ کا خاموش تماشائی بننا، وزیر اعلی سمیت تمام عوامی نمائندوں کا دلچسپی نہ لینا،یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں بلکہ اس کی چند وجوہات ہوسکتی ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی راہداری کے مسئلے پر حکومت کے اوپر جو پریشر ہے اور بالخصوص وزیر اعلی کے اوپر گلگت بلتستان کی تقسیم کے ایشوپر عوام کی طرف سے جوردّعمل سامنے آیا ہے اس سے جان چھڑوانے کے لئے اس مسئلے کو گرم کیاگیاہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں کوئی بڑا حادثہ کروا کر گلگت بلتستان کی تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت عوام کو آپس میں لڑا کر اقتصادی راہداری زون کے لئے اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے چونکہ اقتصادی راہداری زون کے لئے گلگت بلتستان میں جغرافیائی لحاظ سے یہ جگہ سب سے مناسب ہے اور حکومتی اداروں میں مقپون داس اقتصادی راہداری زون کے لئے زیر بحث ہے۔
اور چوتھی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خود خود طرفین کے کچھ افراد بکے ہوئے ہوں اور وہ سرکار کے ایجنڈے کو عملی کرنے کے لئے کشت و خون کرواناچاہتے ہوں۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ علاقے میں امن و امان قائم رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت اس کو اقتصادی راہداری زون کے لئے حاصل کرنا چاہتی ہے تو کیا صرف یہی ایک حل ہے کہ لڑا واور حکومت کرو ، اور سادہ لوح عوام کا قتل عام کروا دو۔
حکومت کو اس کے علاوہ دیگر طریقوں پر بھی سوچناچاہیے۔ چلیں حکومت کو رہنے دیں کیا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ درمیان میں آکر اس مشکل کو رفع دفع کریں اور قیمتی جانوں کے زیاں سے لوگوں کو بچائیں۔
ان کو بھی رہنے دیں وہ سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کہاں ہیں جو انتخابات کے دوران گھر گھر،قریہ قریہ جاکر لوگوں سے ووٹ مانگتی ہیں اور بیچارے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ان سے ووٹ لیتی ہیں۔طرفین میں تمام پارٹیوں کے ووٹرز موجود ہیں،پی پی ہو یا نون لیگ، تحریک انصاف ہو یا تحریک اسلامی۔ وحدت مسلمین ہو جماعت اسلامی۔کہاں ہیں یہ سب پارٹیاں!؟
کیاابھی اس کا انتظارکیاجارہاہے کہ پہلےچالیس پچاس آدمی قتل ہوجائیں اور پھرسامنے آیاجائے تاکہ میڈیا میں کوریج بھی مل جائے اور سوشل پروٹوکول کا بھی مناسب انتظام ہو۔ چلیں ان کو بھی رہنے دیں،اس علاقے کے وہ عمائدین،سماجی اور دینی شخصیات کہاں ہیں جو انتخابات میں اپنے آپ کو کئی کئی مہینے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کمپین کے لئے وقف کرتی ہیں!؟
کیا بلتستان،استور،نگر جلال آباد،بگروٹ،حراموش اور دوسرے علاقوں کے عمائدین کا اخلاقی فریضہ نہیں بنتا کہ درمیان میں آکر اس مشکل کو سلجھانے کی کوشش کریں۔
ہم یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی اہمیت کے اعتبار سےمقپون داس حراموش بلتستان کا گیٹ وےہے۔یہ گلگت اور بلتستان کو ملانے والے پل عالم بریج سے چند قدموں کے فاصلےپر ہے۔مقپون داس ایک وسیع وعریض میدان ہے جو کہ جغرافیائی اعتبار سے گلگت بلتستان میں منفرد ہے چونکہ یہ دو دریا،دریائے بلتستان اور دریائے گلگت کا سنگم اور قدرت کا بے نظیر خوبصورت منظر ہے۔اس پر نہ صرف پاکستانی حکومت کی نظریں ہیں بلکہ اپنی جغرافیائی منفرد نوعیت کی وجہ سے عالمی طاقتوں خاص طور پر چائنہ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
یہ زمین کا خوبصورت ٹکڑا دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے لیکن یہاں پر پانی میسر نہیں۔ اس کی وجہ پاکستانی حکومت کی بالعموم اور گلگت بلتستان کی حکومت کی بالخصوص عدم توجہ ہے۔ پورے پنجاب کو سیراب کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا دریا،دریائے سندھ اسی بنجر میدان کے کنارے سے گزرتا ہے۔چونکہ یہ میدان دریا سے کافی بلندی پر واقع ہے جسکی وجہ سے ابھی تک یہ آباد نہیں ہے۔جو لوگ اس وقت وہاں زندگی گزار رہے ہیں پانی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی مشکلات کے شکار ہیں ،اس وقت وہاں کی کل آبادی 103 گھرانوں پر مشتمل ہیں جن کا تعلق حراموش کے دو گاؤں ہنوچل اور شوتہ نالہ سے ہے اور اس میں 88 جنگ میں شہید ہونے والے بلتستان کے دو شہیدوں کا مزار بھی ہے۔
یہاں پر رہنے والے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لئے پانی کا بندوبست کرتے ہیں۔کافی سال پہلے ہنوچل اور شوتہ نالہ کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت واٹر چینل بنانا شروع کر دیا اور ابھی بھی زیر تعمیر ہے۔ اور اس واٹر چینل پرکام تیزی سے نہ ہونے کی وجہ لوگوں کی اقتصادی مشکلات اور حکومت کی عدم توجہ ہے۔
یہ وسیع وعریض میدان حراموش اور جلال آباد ،چھموگڑ کے لوگوں کے بیچ متنازعہ ہے ۔چند سال پہلے ان دو فریقوں کے درمیان ایک ہفتہ جنگ ہوئی اس کے بات کئی سال کورٹ میں اس کا کیس چلتا رہا یہاں تک کہ ڈیڑھ سال پہلے سیشن کورٹ نے اس کا فیصلہ حراموش کے حق میں سنا دیا۔جس کے فورا بعد حراموش کے لوگوں نے یہاں گھر بنا نےشروع کر دیے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے بچوں سمیت لوگ یہاں زندگی گزار رہے ہیں اور اس میدان کو اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی کا راز سمجھتے ہیں۔
اس وقت ہمارے حکومتی ادارے اور کرپٹ عناصر اس خوبصورت وادی کو خون سے رنگین کرکے،اس جنت ارضی کو جہنم بناکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرناچاہتے ہیں۔یہ دانشوارانِ ملت،علمائے کرام اور مخلص سیاستدانوں کی اولین زمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے کو فوراً حل کروائیں۔
تحریر۔۔۔۔۔عاشق حسین آئی آر