وحدت نیوز (اسکردو) سالگرہ انقلاب اسلامی ایران کی مناسبت سے مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے ڈویژنل سیکرٹریٹ میں ایک تقریب کا اہتمام ہوا جس میں کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سالگرہ انقلاب اسلامی ایران کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین بلتستان ڈویژن علامہ آغا علی رضوی نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایران اور پاکستان نہ صرف سرحدی حد تک ملحق ہے بلکہ نظریاتی طور پر مربوط اور ملحق ہے۔ پاکستان ایران کا نظریاتی اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے جو امریکہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کے لیے قابل برداشت نہیں۔ ہم ملت اسلامیہ کو سالگرہ انقلاب اسلامی پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں نہیں چاہتیں کہ اسلامی ممالک متحد ہو کر اپنا اقتصادی نظام بنائیں جبکہ یورپی اقوم کی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور دفاعی پالیسیاں مشترک ہیں اسکے برعکس اسلامی ممالک بچھڑے ہوئے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کو مشترکات پہ جمع ہو کر ایک عظیم اقتصادی، سماجی اور دفاعی پالیسی بنا کر اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف قیام کرنا چاہیئے۔ پاکستان کو اسلام کے دشمن امریکہ کی غلامی ترک کر کے اور امریکن پول سے نکل کر امریکہ مخالف پول کے ساتھ رہنا چاہیئے۔

 

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سابقہ خارجہ پالیسی ناکام رہی ہے اور اس میں سب سے زیادہ ہاتھ امریکہ کا ہے۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کر کے واضح پالیسی بنانی چاہیئے اور سات سمندر پار ممالک کو گلے سے لگانے کی بجائے ان اسلامی ممالک کے ساتھ روابط بڑھانا چاہیئے جو پاکستان کے حقیقی دوست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے دنیا کے سامنے واضح کر دیا کہ امریکہ سے مدمقابل رہ کر ہی ملت اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے پاوں پر کھڑا ہو کر جامع پالیسی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے اور پاکستان کے حقیقی دوست جیسے ایران، چین، افغانستان اور دیگر اسلامی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہیئے۔ تقریب کے اختتام پر شرکاء نے سالگرہ انقلاب اسلامی ایران کی پرمسرت موقع پر کیک بھی کاٹے۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں کرپشن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو ا ہو اہے او ر محکمہ تعلیم میں غیرقانونی بھرتیاں نگران حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے۔محکمہ تعلیم کا قبلہ درست کرنے کے لیے قوم تیار رہے کرپشن مافیا نے محکمہ تعلیم میں بدترین بدعنوانی کو تاحال جاری و ساری رکھا ہو اہے جو کہ نئی نسل کے ساتھ خیانت اور بدترین جرم ہے۔ محکمہ تعلیم میں اصلاحات کے لیے نہ سیکیورٹی ادارے مخلص نظر آتے ہیں، نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نہ احتسابی ادارے۔ محکمہ تعلیم میں جاری بدعنوانیوں اور غیرقانونی تقرریوں کے خلاف ریاستی ادارے اور اعلی حکام یرغمال ہونے کی بجائے اس ادارہ سے کرپشن کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے بصورت دیگر یہ مافیا دیگر اداروں کو دیمک کی طرح چاٹ کربرباد کرے گا۔انہوں نے کہا کہ نگران دور حکومت میں بجلی لوڈشیڈنگ، چور بازاری،بدعنوانی اوراخلاقی بے راہ روی کا دور دورہ نظر آتا ہے۔خطہ میں جاری بدعنوانی اور مظالم کے خلاف عوام کو اٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے، عوام خود آگے آکے جمہوری طاقت سے بدعنوانی اور مظالم کیخلاف قیام کرنے کی ضرورت ہے۔سیکیورٹی ادارے بلتستان کے حالات کو آسان نہ لیں علائم کچھ اچھے نہیں دکھ رہے ہیں ۔ اتحاد مسلمین کے خلاف سازشی عناصر سرگرم عمل ہے۔ عوام ہشیار رہیں اور کسی قسم کی سازش میں آئے بنااپنے صفوں میں اتحاد قائم رکھیں۔ انہوں نے کہا آئی جی پی گلگت بلتستان کو بلتستان میں خوش آمدید کہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ بھی روایتی دورہ سے ہٹ بلتستان کے دورہ میں مثبت تبدیلی لانے اوریہاں کے پولیس کو درپیش مسائل حل کرنے میں اقدامات اٹھائیں گے۔ ان سے امید کرتے ہیں کہ سکردو میں قائم پی ٹی سی کو فنکشنل کریں گے اور یہاں موجود پولیس نفری کو کمی کودور کرنے اور استحقاق رکھنے والے پولیس آفیسران کی پروموشن کریں گے اور محکمہ پولیس کی کارکردگی کو مزید بہتر کرنے کے لیے وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔

وحدت نیوز (سکردو)  مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ شیخ زاہد حسین زاہدی نے کہا کہ نگران حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان میں صنف علماء کے داخلے پر پابندی علماء کی توہین اور بوکھلاہٹ ہے۔ انہوں نے علما کے خلاف عملی اقدام کر کے اپنی ذہنیت واضح کر دی، وزیراعلی فوری طور علماء کی اہانت پر معافی مانگیں ورنہ تمام مکاتب فکر کے علما کو جمع کر کے نام نہاد نگران حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کو شاید معلوم نہیں کہ اگر گلگت بلتستان میں امن قائم ہیں تو حکومتی اداروں اور طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ یہاں کے امن پسند علماء اور عوام کی وجہ ہے اور ان علماء سے ملک کے محب وطن دہشتگردو مخالف علماء کا رابطہ ہے اگر حکومتی ادارے امن قائم کر سکتے ہیں تو ملک کے دیگر حصوں میں کیوں نہیں قائم کرتے ۔ ہم علماء کی توہین کو ایک لحظہ کے لیے برداشت نہیں کرسکتے اگر وزیراعلیٰ کو کلمہ پاک بھی یاد ہے تو علماء کی تعلیم کر دہ ہے۔ انکے علماء کے خلاف اقدام پر تمام مکاتب فکر کے علماء کو دکھ پہنچا ہے۔ اگر پابندی عائد کرنی ہے تو گلگت بلتستان میں دہشتگرد عناصر کے آمدورفت پر پابندی عائد کی جائے، اسلحے کی نقل حمل پر پابندی عائد کی جائے، منشیات کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کرے ، ترکی کے فحش ڈراموں پر پابندی عائد کی جائے۔ لیکن سلسلہ اس کے برعکس ہے یہاں پر بھی فیض احمد فیض کے کلام کی طرح ہے سنگ و خشت مقید اور سگ آزاد ہے۔نگران حکومت گلگت بلتستان کو پاکستانیوں کے لیے نوگو ایرایا بنا کر کس کو خوش کرنا چاہتی ہے ریاستی ادارے نگران حکومت کی اس پالیسی کو آسان نہ لے۔ گلگت بلتستان کو پاکستان کے لیے نوگو بنانا را کی خواہش ہے۔ بعید نہیں کہ کل وطن عزیز پاکستان کے ازلی دشمن ہندوستان بھی نگران حکومت کی اس پالیسی کو اپنے میڈیا میں جگہ دیں۔

 

گلگت بلتستان کو پاکستان کے علماء اور دیگر امن پسند عوام کے لیے نوگو ایریا بنانے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے اور ان تمام عوامل کو دیوار سے لگائیں گے جسکے نتیجے میں علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت پہنچتے ہوں۔ہم نے اس خطہ کو قوت بازو سے آزاد کرایا ہے اور پاکستان سے الحاق بلاشرط و شروط کے کیا ہے اگر گلگت بلتستان کو پاکستان سے مختلف ناموں سے الگ کرنے کی کوشش کرے توان غداروں کو سبق سکھائیں گے اور جانوں کی قربانیاں دے کے واضح کردیں گے کہ یہ ارض پاک ہے جان اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے۔ہم حساس اداروں تک ایک بار پھر یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ دشمن کے ایجنڈوں کو تقویت ملنے والی پالیسوں کودفن کرے۔ حساس ادارے نااہل حکمرانوں کی نااہلی اورکم ظرفی پر نگاہ رکھیں اور ایسی پالیسیاں بننے نہ دیں جس سے دشمن خوش ہوں۔

وحدت نیوز (گلگت) برمس کے عمائدین نے وحدت ہاوس گلگت میں مجلس وحدت مسلمین کے ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ شیخ عاشق حسین ناصری اورصوبائی ترجمان الیاس صدیقی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ وفاقی حکمران جماعت کی نظر میں گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے حالانکہ اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی مدد آپ کے تحت آزادی حاصل کرکے اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے اور 28 ہزار مربع میل پر مشتمل خطہٌ گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کردیا۔یہ اس علاقے کے عوام کی بدقسمتی سمجھئے یا ملک عزیز پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ پر براجمان حکمرانوں کی نااہلیت، کہ 68 سال گزرنے کے باوجود اس علاقے کے عوام کو قومی و صوبائی اسمبلی کی نمائندگی حاصل نہ ہوسکی۔ ماضی میں آئینی حقوق کے حصول کیلئے کئی آوازیں بلند ہوئیں لیکن حکمرانوں نے اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے ان آوازوں کو خاموش کرادیا اور یوں آج تک علاقے کے عوام اپنے بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حقوق کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔

 

خطہ گلگت بلتستان جو بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے تاکہ آنیوالی نسلیں ان وسائل سے استفادہ کرتےہوئے علاقے کا مستقبل روشن اور تابناک بنائیں گے۔بصورت دیگر اگر یہ وسائل کسی اور کے ہاتھ چلے گئے تو ان دوسری غلام اقوام کی طرح اس علاقے کے عوام بھی اپنی ہی سرزمین میں بھیک مانگتے پھریں گے اور کوئی بھیک دینے والا بھی انہیں میسر نہ آسکے گا۔ ڈوگرہ راج کے دوران 1927 میں ان قدرتی وسائل کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی خاطر سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ عمل میں آیا جس کے تحت کسی دوسرے علاقے کے شہری کو خطہ گلگت بلتستان میں زمین خریدنے پر پابندی عائد تھی اور یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادے کا اختیار صرف اور صرف یہاں کے عوام کو حاصل تھا لیکن 1952 میں عوام کے اس حق کو نہ جانے کس مقصد کے تحت چھین لیا گیا اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کو معطل کرکے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کو نافذ کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی علاقے کے شہری کو گلگت بلتستان میں زمین خریدنے کی اجازت مل گئی اور یوں آج گلگت بلتستان میں غیر مقامی افراد کی ایک کثیر تعداد علاقے میں مقیم ہے اور مقامی آبادی اقلیت میں بدل رہی ہے۔حکومت نے ناردرن ایریاز ناتوڑ رول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے من پسند افراد میں کونو داس اور جوٹیال میں ہزاروں ایکڑ اراضی بانٹ دیا ہے جس سے مقامی آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

 

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ خطہ گلگت بلتستان کے عوام کی دیرینہ روایات یہ بتاتی ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعلقہ آبادیوں کے عوام اپنے علاقے سے متصل بنجر اراضیوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے اپنے زیر استعمال لاتے رہے ہیں اور ماضی کی حکومتوں نے ایسی روایات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بنجر زمینوں کی آباد کاری کیلئے دست تعاون بھی بڑھادیا اور حکومت کی نگرانی میں واٹر چینلز بنوائے گئے اور نرسریز سے مفت میں درخت مہیا کئے گئے۔پچھلے کئی سالوں سے گلگت اور آس پاس کی بنجر اراضیوں کو آباد کرنے کے عوامی حق کو چھینتے ہوئے آباد کاری کے عمل میں حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں جس سے تنگ آکر علاقے کے عوام عدالتوں میں انصاف کے منتظر ہیں۔

 

رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناردرن ایریاز ناتوڑ رول کا زیادہ استعمال صرف اور صر ف گلگت شہر سے متصل آبادیوں میں ہورہاہے اور گلگت بلتستان کے بیشتر علاقوں میں اب بھی سابقہ روایات کے مطابق عوام بنجر زمینوں کو خانگی تقسیم کے ذریعے تصرف کررہے ہیں جو کہ ان علاقوں میں بسنے والے عوام کا بنیادی حق ہے۔مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے عوام کوان کے علاقے سے متصل تمام بنجر زمینوں کے حقیقی وارث سمجھتی ہے اور یکطرفہ طور پر نافذالعمل ناتوڑ رول کو قاتل رول تصور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کرتی ہے۔چلاس داریل سے لیکر بلتستان خپلو اور غذر سے لیکر خنجراب تک کی بنجر زمینوں کے وارث ان علاقوں میں بسنے والے عوام ہیں جن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی سازش کسی طور کامیاب نہیں ہونے دینگے۔موجودہ نگران حکومت جو چور دروازے سے اقتدار تک پہنچی ہے ،کو وحدت مسلمین نے شروع دن سے مسترد کیا ہے کیونکہ نگران حکومت کے وزراء کی فوج گلگت بلتستان کے وسائل پر ایک بوجھ ہیں اور نگران حکومت کی مشکوک سرگرمیوں سے اندازہ ہورہا کہ بروقت الیکشن کروانے میں ان کی نیت صاف نہیں ہے اور ان کے اقدامات سے کسی سازش کی بو محسوس ہورہی ہے۔

 

رہنماؤں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کانا ڈویژن کے ساتھ مل کر مخصوص علاقوں کی بنجر اراضی کو خالصہ سرکار قرار دیکر ان اراضیوں کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور مختلف سرکاری اداروں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ برمس داس کی اراضی کو مقامی لوگوں نے خانگی تقسیم کرکے آباد کاری شروع کی جہاں فی گھرانہ مشکل سے 10 مرلہ زمین نصیب ہوئی ہے میں حکومت کی طرف سے مداخلت کسی شرارت سے کم نہیں۔مزید یہ کہ مذکورہ جگہ میں 220 کنال اراضی قبرستان کیلئے مختص ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے علاقے میں نقص امن کا خدشہ لازمی امر ہے او ر اس کو بنیاد بناکر الیکشن ملتوی کرواکے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔

 

رہنماؤں نے مزید کہا کہ ناتوڑ رول کا اجراء صرف اور صرف شیعہ آبادیوں پر کیا جارہا ہے تاکہ یہاں فرقہ واریت کے پرانے حربے کو استعمال کیا جاسکے اور غیر شیعہ آبادیوں کو بنجر زمینوں کی خانگی تقسیم کے ذریعے استعمال کی کوئی ممانعت نہیں ہے اور حکومت کا یہ اقدام صرف اور صرف اہل تشیع میں احساس محرومی پیدا کرکے ایجی ٹیشن کو ہوا دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ناتوڑ رول کا استعمال صر ف اور صرف شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر کیوں؟ کسی غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر زمینوں پر کیو ں اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ہم یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ اس قاتل قانوں کا اطلاق غیر شیعہ آبادیوں سے متصل بنجر اراضیوں پر ہو۔ ہم تو سرے سے اس قانون کی نفی کرتے ہیں جو پورے گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس آواز پر گلگت بلتستان کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہوں ۔ آج ہماری آواز کو دبایا گیا تو آنیوالے کل میں دوسری آبادیاں بھی اس قانون کی زد میں آئینگی۔آج ہم چیخ رہے ہیں تو کل کوئی اور چیخے گا۔

 

رہنماؤں نے کہا کہ سونی یار جو موجودہ نگران وزیر اعلیٰ کا علاقہ ہے جس کے کچھ حصے پرپاک فوج کا قبضہ تھا اور عوام نے فوج سے معاوضہ طلب کرتے ہوئے باقیماندہ علاقے کو خانگی تقسیم کرکے اپنی تحویل میں لے لیا اور موجودہ نگران وزیر اعلیٰ نے خود ہی پاک فوج سے اپنی اراضی کا معاوضہ بھی لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کا یہ اقدام صحیح اور درست تھا۔نگران وزیر اعلیٰ بتائیں جب وہاں ناتوڑ رول نافذ نہ ہوسکا اور اس نے خود پاک فوج سے اپنی زمین کے عوض معاوضہ وصول کیا تو گلگت میں اس قاتل قانون کو نافذ کرکے عوام کی ملکیتی اراضی کو خالصہ سرکارکیسے قرر دیا جارہا ہے؟ اور یہ نہیں ماضی میں بھی اس مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کو کوئی اہم ذمہ داری ملی تو اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ سال 2003 میں اس وقت کے ہوم سیکرٹری نے گلگت کے کشیدہ حالات میں کرفیو کا نفاذ کرکے نومل کے عوام کے چھلمس داس میں تعمیرشدہ مکانات کو بلڈوز کیا اور آج تک عوام کو انصاف نہیں ملا ہے۔

 

رہنماؤں نے صحافیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ حضرات تو خود لینڈ مافیا کا تذکرہ کرتے کرتے تھک ہار چکے ہیں اور اسی قاتل قانون نے محکمہ مال کے پٹواریوں اور آفیسروں کو ککھ پتی سے کروڑپتی اور ارب پتی بنادیا ہے۔محکمہ مال نہ صرف اپنے لئے مال بناتی ہے بلکہ دوسرے بھی اسی مال سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ ناجائز مال حکومت کے ایوانوں تک بھی پہنچ جاتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آرہا ہے۔اسی محکمہ مال کے مک مکا کا نتیجہ ہے کہ پہاڑوں پر لوگ چڑھ گئے اور اور پہاڑوں کو بھی بھاری رشوت کے عوض لوگوں کے نام الاٹ کیا جاچکا ہے۔

 

آخر میں رہنماؤں کاکہنا تھا کہ حکومت عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی بجائے آباد کاری کے مسائل پر توجہ دیکر بنجر اراضیوں کو سرسبز و شاداب بنانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ عوام کی زمینوں کو ان سے چھین کر مفاد پرستوں کا پیٹ بھریں۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو علاقے کے عوام کو بے چینی اور تشویش میں مبتلا کرے اورہماری امن پسندی کو کمزوری پر محمول نہ کیا جائے تو حکمرانوں کے حق میں بہتر ہوگا۔بصورت دیگر یا ہم رہیں گے یا پھر تم۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کےترجمان فدا حسین نے اپنے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ گمبہ اسکردو میں ہونے والی تفرقہ آمیز اور توہین آمیز وال چاکنگ کو دو ہفتہ گزرنے کے باوجود ذمہ داروں کو سامنے نہ لانا انتظامیہ کی نااہلی اور بدنیتی ہے۔ بلتستان میں دہشتگردی کے خلاف اقدامات ٹھوس بنیادوں پر اٹھانے کی بجائے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث چار چار شناختی کارڈ رکھنے والے افراد کی ریاستی پشت پناہی لمحہ فکریہ اور افسوسناک ہے۔ بلتستان انتظامیہ کی جانب سے بلتستان میں دہشتگرد عناصر کی غیر موجودگی کے بیانات انکی وکالت کے مترادف ہیں۔ تحریک طالبان کے کمانڈر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہونے سے کوئی فاطر العقل ہی انکار کر سکتا ہے اور ماضی میں دہشتگردانہ واقعات میں ملوث افراد کی فہرستیں اور سرگرمیاں حساس اداروں کے پاس موجود ہونے کے باوجود بلتستان کے حوالے سے کلین چٹ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی طرح وزارت داخلہ کی جانب سے بھی متعدد بار گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کے امکانات اور خفیہ رپورٹیں آنے کے باوجود اس بات سے انکار کرنا دہشتگرد عناصر کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ انتظامیہ سب ٹھیک ہے کی پالیسی کو ترک کر کے بلتستان سے تعلق رکھنے والے طالبان سے مربوط افراد کا گھیرا تنگ کرے۔


انہوں نے کہا کہ ریاست کو چیلنج کرنے اور دہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد ملنے والے اداروں میں بھی بلتستان سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں جو کسی بھی وقت علاقے میں بڑی سطح پہ تخریب کاری کر سکتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بلتستان کو دہشتگردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔ جس انداز میں انتظامیہ نے بلتستان میں کلعدم جماعتوں کے افراد کی موجودگی اور تحریک طالبان کے نئے ترجمان کی یہاں نیٹ ورک نہ ہونے سے انکار کیا ہے وہ عجیب منطق ہے۔ ہم پاکستان آرمی اور دیگر حساس اداروں تک یہ پیغام پہنچانا چاہیں گے کہ بلتستان میں دہشتگرد عناصر کی عدم موجودگی کی لوری سنانے پر غفلت کا شکار نہ ہوں بلکہ اس حساس خطہ میں ٹھوس بنیادوں پر سکیورٹی اقدامات کریں اور دہشتگردوں کے خفیہ نیٹ ورک تک رسائی کی کوشش کر کے آنے والے ناخوشگوار واقعات کی پیش بندی کرے بصورت دیگر یہاں پر ملنے والی اطلاعات اور تحریک طالبان کے نئے کمانڈر کی دھمکیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ ملک دشمن عناصر یہاں موجود ہیں۔ ہم بلتستان میں اتحاد و وحدت کی طاقت سے دہشتگردوں اور فرقہ پرورں کا مقابلہ کریں گے۔ تمام مکاتب فکر امن، اخوت اور بھائی چارگی کی فضا کو قائم رکھنے کے لیے آمادہ رہیں۔ دہشتگردوں کا تعلق کسی بھی مکتب و مذہب سے نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن ہیں۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ مشکوک سرگرمیوں کے حامل افراد کو گرفتار کرنے اور شواہد ملنے کے بعد رہا کرنا انتظامیہ کی نااہلی ہے۔ ملک دشمن دہشتگرد عناصر کا تعلق چاہے جس مسلک و قوم سے ہو چھوٹ نہیں ملنی چاہیئے۔ بلتستان میں فوجی عدالتوں کے قیام پر جن کو تکلیف ہو رہی ہے وہ غیرارادی طور پر دہشتگردوں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے ساٹھ ہزار سے زائد شہداء کے وارثین کی آرزو ہے کہ انکے قاتل دہشتگردوں کو سولی پر لٹکایا جائے۔ دہشتگردی کا واحد حل صرف اور صرف طاقت کے ذریعے روکنا اور تختہ دار پر لٹکانا ہے۔

وحدت نیوز(اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری تعلیم انجینئر محمداسلم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نگران کابینہ کی جانب سے سرکاری پوسٹوں پر تقرریوں میں معیار کو ملحوظ خاطر رکھنے کی خبریں بے بنیاد ہیں اور عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہیں۔ محکمہ تعلیم سمیت دیگر اداروں میں بھی چور دروازوں سے بھرتیوں کے شواہد مل رہے ہیں اور بھاری رشوت کے عوض بھرتیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔بلتستان میں موجودہ ڈائریکٹر ایجوکیشن کی تعیناتی کے بعد کرپشن مافیا سرچڑھ کے بول رہا ہے اور محکمہ تعلیم میں کرپشن مافیا کی علمداری ہے ۔ سیکرٹری تعلیم نے کہا ہے کہ اگر نگران حکومت کو چور دروازوں سے بھرتیوں اور رشوت کے عوض بھرتیوں کے شواہد حاصل کر سکتے ہیں۔ بلتستان میں محکمہ تعلیم میں بھاری رشوت کے عوض چور دروازوں سے بھرتیوں کاسلسلہ جاری ہے اور قوم کی نئی نسل کو برباد کرنے والوں کوریاستی پشت پناہی انتہائی افسوسناک اور ریاست سے خیانت کے مترادف ہے۔ ہم تعلیم دشمن عناصر کا گھیرا تنگ کریں گے اورچور دروازوں سے بھرتی کرنے والے افراد کو بھی عدالت کی کٹہری میں لا کھڑا کریں گے اور کرپشن مافیا کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری تمام اداروں میں محکمہ تعلیم حساس ترین محکمہ ہے لیکن اس محکمہ میں ہونے والی بدترین بدعنوانیوں پر حساس ریاستی اداروں کی خاموشی اور نیت کی غفلت سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاستی خزانے کو کرپشن کے ذریعے نقصان پہنچانے والے مجرم ہیں ان کا دھندنانے پھرنا اور انکے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہ ہونا تمام ریاستی اداروں کی بدترین ناکامی ہے۔اگر ریاستی ادارے چھوٹے موٹے چوروں اور کرپشن مافیا کو لگام نہیں دیں گے تو کل یہی مافیا ریاست کے لیے ناسور بن جائے گا اور اس کے بعد ناقابل گرفت ہوگا۔ ہم ہر ظلم کے خلاف قیام کرتے رہیں گے اور محکمہ تعلیم میں ہونے والے مظالم کیخلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں گے اور عوامی و جمہوری طاقت سے تمام بدعنوان افرادکا گھیرا تنگ کریں گے اور اس معاملہ میں کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree