وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ ارشاد حسین نے لکی مروت میں ہونے والے خودکش دھماکہ اور لوئر دیر میں پولیو ٹیم پر حملے کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے گذشتہ لوئر دیر میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پولیس اہلکاروں کی شہادت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ علامہ ارشاد حسین نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں تیزی ظاہر کرتی ہے کہ ملک دشمن عناصر ایک بار پھر سر اُٹھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں جنہیں پوری قوت سے کچلنے کی ضرورت ہے۔ صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہے جسے نتیجہ خیز بنانے کیلئے اُن مذموم عناصر کو بھی قانون کے شنکجے میں لانا ضروری ہے جو انتہا پسندی کے فروغ میں سہولتکار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

ایم ڈبلیو ایم رہنما نے نیشنل ایکشن پلان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک دشمنوں کے خلاف گھیرا تنگ کر کے امن لایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا پولیو ٹیم کے ورکر ملک و قوم کیلئے قابل احترام ہیں جو اپنے آج کو ہمارے کل پر قربان کر رہے ہیں، صحتمند پاکستان کیلئے ان کی قربانیوں کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے۔ علامہ ارشاد حسین نے مزید کہا کہ پاکستان کو محفوظ پناہ گاہ تصور کرنے والے دہشت گردوں کو اب سر چھپانے کی کوئی جگہ میسر نہیں، ان کا انجام بہت نزدیک پہنچ چکا ہے، قومی سلامتی کے ادارے کے جراتمندانہ کردار کی بدولت کسی کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں رہے گی۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) جدید دنیا میں غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کا کردار کافی حد تک بڑھتا چلا جا رہاہے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں این جی اوز کے قیام نے عوام کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے جیسے سنہرے خوابوں سمیت خواتین کی آزادی جیسے کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر نہ صرف بے راہ روی کو پروان چڑھایا ہے بلکہ ان ممالک میں عوام کے اندر ایسے گروہوں کو بھی جنم دیا ہے جو وقت آنے پر ان غیر سرکاری تنظیموں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنے ہی وطن کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتے ہیں۔


ہم اس مقالہ میں تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک میں امریکی این جی اوز کے منفی کردار کو آشکار کرنے کی کوشش کریں گے۔خاص طور پر امریکن این جی اوز نے افریقا اور ایشیائی ممالک کو اپنا گڑھ بنا رکھا ہے اور یہاں پر امریکی مفادات کو ترجیح پر رکھنے کے لئے ان خطوں کے ممالک میں سرمایہ گذار ی کی جا رہی ہے۔

امریکن این جی اوز میں سر فہرست یو ایس ایڈ نامی این جی او یا ادارہ کہہ لیجئے شامل ہے۔

پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے ممالک میں اور اسی طرح سوڈان، مصر اور دیگر شمالی و جنوبی افریقائی ممالک میں امریکن این جی او ز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی ادارے کی جڑیں کافی مضبوط ہو چکی ہیں۔ جہاں یہ ادارے مختلف خطوں کے ممالک میں تعلیم اور صحت کا نعرہ لگا کر نام نہاد ترقی کے منصوبہ متعارف کرواتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ ان ملکوں کی جڑو ں کو کھوکھلا کرنے کے لئے بھی زہر گھولتے رہتے ہیں اور درست وقت پر اس زہر کو کار آمد بنانے کے لئے اس سے کام لیا جاتا ہے۔

حال ہی میں ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں شمالی افریقائی ممالک سمیت مغربی ایشیائی مماک بشمول سوڈان، عراق، لبنان میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے مشاہدہ اور تجربہ نے ا س بات کو مزید تقویت بخشی ہے کہ امریکن این جی اوز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی ادارہ ان ممالک میں حکومت مخالف احتجاجی تحریکوں کو امریکی حکومت کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے رخ موڑنے کا کام انجام دیتا رہاہے۔

اگر عراق کی مثال سامنے رکھی جائے تو مشاہدے میں آیا ہے کہ امریکن این جی اوز نے کئی ماہ قبل ہی عراق میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم کے نعرے دکھا کر انہیں امریکہ کا سفر کروایا جہاں پر ان کی خاص تربیت کے دوران اپنے وطن کے نظام کو مسترد کرنے کی خصوصی تربیت بھی فراہم کی گئی۔یہ عمل امریکن این جی اوز کی سرپرستی میں جاری رہا اور پھر نتیجہ میں دو ماہ قبل سوشل میڈیا سے ہی جمع ہونے والے چند سو لوگوں نے کہ جن کو انہی امریکی این جی اوز نے امریکہ کا سفر کروا کر تربیت فراہم کی تھی، انہوں نے عراق کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسے تکنیکی ذرائع اور نعروں کا استعمال کیا جو یقینا ہرعام انسان کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں۔

لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں نے حکومت پر دباؤ بڑھانے اور نظام کو غیر فعال کرنے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور بد ترین تشدد کے نتیجہ میں کئی افراد کو جان سے مار دیاگیا۔۔۔
کئی ایک ایسی مستند ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں کہ جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ انتہائی مہارت کے ساتھ مخصوص قسم کے اسلحوں سے لوگوں کو گولیاں ماری گئی ہیں اور اسی طرح ایمبولینسز سے نکال کر جوانوں کی قتل کئے جانے کی ویڈیوز اور پھر ایک نوجوان کو قتل کرکے نذر آتش کرنے اور برہنہ حالت میں چوک پرلٹکائے جانے کی ویڈیوز ایک مخصوص اور منفی طرز فکر کی ترجمانی کرتی ہیں۔

اس بارے میں خود عراقی حکومت کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ امریکی این جی او ز نے گذشتہ چند ماہ میں نوجوانوں کو امریکہ لے جا کر جس تربیت سے پروان چڑھایا ہے اس وقت موجودہ سیاسی بحران کو پیدا کرنے میں انہی این جی اوز کا منفی کردار واضح ہو چکا ہے۔

دوسری طرف لبنان میں بھی اکتوبر کے مہینہ میں اسی قسم کا احتجاج شروع ہو اجو چند دن بعد لبنانی وزیر اعظم کے استعفی کی صورت میں کامیاب ہوتا نظر آیا لیکن لبنان کے احتجاج میں بھی یوا یس ایڈ کے خصوصی افراد کی جانب سے مظاہروں میں بھرپور شرکت اور مظاہرین کی مدد کرنے کے ٹھوس شواہد نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ امریکی این اجی او ز اس ملک میں بھی جہاں حکومت کے خلاف احتجاج کو پر تشدد رنگ دینے میں سرگرم عمل ہیں وہاں ساتھ ساتھ مخصوص گروہوں کی تربیت کے ذریعہ ملک کو غیر مستحکم کرنے اور سیاسی بحران کو پروان چڑھانے میں بھی پیش پیش ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سے شواہد سامنے آنے کے بعد لبنانی عوام نے احتجاج کو ترک کر دیا ہے جبکہ چند ایک لوگ ابھی بھی حکومت مخالف احتجاج میں شریک ہیں، البتہ احتجاج سے باہر نکل جانے والی عوام کی ایک بڑی تعداد نے لبنان میں امریکی این جی اوز بالخصوص یو ایس ایڈ نامی این جی او کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کرتے ہوئے اس ملک دشمن ادارے کے دفاتر کو بند کر دیا ہے۔

سوڈان کی اگر بات کریں تو یہا ں بھی ستمبر کے مہینہ میں شروع ہونے والا احتجاج حکومت کے مستعفی ہونے کا باعث بنا ہے اور اسی طرح مصر میں بھی احتجاجی نے جنم لیا تھا اور اب یہ صورتحال پاکستان میں بھی آن پہنچی ہے کہ گذشتہ دنوں طلباء یکجہتی مارچ کے نام پر امریکی زدہ کھوکھلے نعروں اور انسانیت کی تذلیل نے امریکی این جی اوز کی ممالک میں مداخلت کے راز کو فاش کر دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ عراق، سوڈان،لبنان اور پاکستان میں ہونے والے مختلف احتجاجوں میں ایک بات قدرے مشترک پائی گئی ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں کی کوئی واضح قیادت سامنے نہیں آئی ہے جبکہ ان مظاہروں میں بے راہ روی اور ملک دشمن نعروں سمیت انسانیت کی تذلیل پر مبنی اقدامات او ر امریکی سامراج کے پیدا کردہ کھوکھلے نعروں سے ایک بات واضح ہو ئی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں امریکی این جی اوز ان ممالک کی جڑو ں کو کاٹنے کا کام کر رہی ہیں۔عراق و لبنان یا سوڈان میں کیا ہونا ہے ہمیں شاید نہیں معلوم، لیکن پاکستان ہمارا دیس اور ہماری جان ہے یہاں پر اس طرح کے اداروں کی جانب سے ملک کی جڑوں کو کاٹنے کے اقدامات کو سختی سے روکنا چاہئیے۔


تحریر: صابر ابو مریم

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پاکستان کے داخلی و خارجی معاملات ہمیں خود طے کرنے ہوں گے۔پاکستان ایک خودمختار اور ایٹمی ریاست ہے۔مختلف ممالک سے ہمارے تعلقات کسی کی پسند و ناپسند کے کے تابع نہیں ہونے چاہیے۔اعلی سطح فیصلے ملک و قوم کے مفادات کو مقدم رکھ کر کیے جاتے ہیں۔دوسروں کی ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے مخلص دوست ممالک کو ناراض کرنا ملکی و قومی سلامتی کے لیے کوئی اچھا شگون ثابت نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا ہماری ذرا سی بے اعتنائی ہمیں ان دوست ممالک سے دور کر سکتی ہے جنہوں نے کشمیر کے معاملے میں عالمی فورمز پر ہماری کھل کر حمایت کی ہے۔ محمد بن سلمان اور محمد بن زید کے دباؤ پر خارجہ پالیسی کی تبدیلی اس حقیقت کی عکاس ہے کہ نئے پاکستان میں بھی ریاست کا طرز عمل وہی ماضی کی حکومتوں کی طرح غلامانہ ہے۔

علامہ راجہ ناصرعباس نے کہاکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی کبھی حمایت نہیں کی اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی۔ملک دشمن عالمی طاقتوں اور عرب حکمرانوں نے مادر وطن میں دہشت گرد تنظیموں کو ہر طرح کی سپورٹ فراہم کی تاکہ ملک عدم استحکام کا شکار رہے۔یہ طاقتیں خودمختار اور مستحکم پاکستان نہیں دیکھنا چاہتیں۔

انہوں نے کہا کہ کوالمپور سمٹ میں پاکستان کی عدم شمولیت کے اعلان نے خود مختار خارجہ پالیسی کا خواب چکنا چور کر دیا ہے۔مسلم ممالک کے سربراہی اجلاس میں دنیا کے بڑے رہنما شریک ہو رہے ہیں لیکن سعودی عرب کے دباؤ پر پاکستان کے شرکت سے انکارنے پوری قوم کو چونکا کے رکھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس عمل سے ہماری ساکھ پوری دنیا میں سخت متاثر ہو گی۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین صوبہ بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ برکت مطہری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سرسری جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں تمام خرابیوں کا بنیادی سبب مخلص اور دیانتدار قومی قیادت کا فقدان ہے۔سیاستدانوں نے کبھی بھی اپنے ذات سے باہر نکل کر ملک و قوم کے مفادات کو فوقیت نہیں دی ۔ان کی تمام سرگرمیاں اقتدار کے حصول اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے گرد گھومتی ہے۔ انہوں نے سیاست کو سماجی خدمت کا ذریعہ بنانے کی بجائے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے اور عوامی مسائل سے لا تعلق رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود عوامی مسائل جو ںکے تو ں ہیں۔

علامہ برکت مطہری نے کہاکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارے رہنما ، ہمارے حکمران ملک میں سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ اخلاقی نظام قائم کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر مسائل کا تعلق اخلاقی اور سماجی نظام ہے۔ اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے باوجود ہم اخلاقی گراوٹ سے دوچار ہیں۔ سو ہمیں ایسی قیادت میسر آتی ہے جیسے ہم خود ہیں۔ ہم اپنے قائدین میں تو تمام اخلاقی خوبیاں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنی ذات کو ان خوبیوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ پاکستان کے نام کا مطلب پاک لوگوں کی سرزمین ہے کہ ہم نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر یہ خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں قرآن و سنت کے زرین اصولوں کے مطابق نظام قائم ہوگا۔

انہوںنے مزید کہاکہ ہماری زندگیاں اسلام کے مطابق ہونگی۔ لیکن ہمارا کردار اور عمل اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہے۔ ناپ تول میں کمی ، ناجائز منافع خوری ، ملاوٹ ، دھوکہ بازی ، جھوٹ اور فریب جیسے انفرادی گناہوں کا اجتماعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان سے بچنے کے لیے نہ کسی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے نہ کسی قیادت کی، تو پھر کیوں ہم اپنے آپ کو ان برائیوں سے محفوظ رکھنے سے قاصر ہیں۔

علامہ برکت مطہری کا مزیدکہناتھاکہ اس میں شک نہیں گزشتہ برسوں میں بحیثیت قوم قیام پاکستان کے اصل مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہی رہے ہیں۔ لیکن اس ناکامی کا ملبہ دوسرں پر گرانے کی بجائے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری زندگیاں کس حد تک اخلاقی نظام کی پابند ہیں۔ اگر ہم اپنی ذاتی اور انفرادی زندگی میں کسی نظام کے پابند نہیں ہے تو اپنی اجتماعی زندگی میں کسی دوسرے کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانے کا بھی ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔اگر ہم خود کو بدل لیں تو یقین جانیے سب کچھ بدل جائے گا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) گذشتہ چار دھائیوں سے امریکہ اور غرب اس خطے میں اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پٹرول گیس اور دیگر وسائل کو لوٹنے کے لئے انھوں نے مختلف ممالک کے نظاموں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا. انکے ظلم وستم کا مقابلہ کرنے کے لئے مقاومت کا بلاک ابھر کر سامنے آیا. انھوں نے خباثت سے مذھبی رنگ دیکر جہان اسلام کو سنی اور شیعہ میں تقسیم کرنے پر کام کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہمارے مخالف تو بس شیعہ مسلمان ہیں. اور سنی مسلمان ہمارے اتحادی ہیں. حالینکہ سب سے زیادہ نقصان ان ممالک کے عوام کا ہوا جہاں پر اکثریت اھل سنت مسلمانوں کی ہے. اور امریکہ وغرب کی ان مسلط کردہ جنگوں میں اگر کوئی اعداد وشمار پر نظر کرے تو سب سے زیادہ قتل ہونے والے بھی اھل سنت مسلمان ہی ہیں. اس وقت جب مقاومت کی حکمت عملی و استقامت اور جوابی کارروائیوں سے اس خطے میں امریکہ شکست سے دوچار ہے. اور دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

 امریکہ اور غرب نے خلیجی ممالک بالخصوص سعودیہ وامارات کو لیبیا ، الجزائر ، تیونس ، مصر ، لبنان وسوریہ ، فلسطین وعراق اور یمن وبحرین سمیت دیگر اسلامی ممالک میں اس قدر استعمال کر لیا ہے کہ اب سعودیہ کا چہرہ پورے جہان اسلام میں امریکی اشاروں پر ناچنے اور خطے کے ان مذکورہ ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت کرنے اور انکے امن امان کو تباہ برباد کرنے ، آباد وشاد ممالک کو ویران کرنے کے لئے دہشگردی کی کھلی مدد کرنے کی وجہ سے سیاہ ہو چکا ہے. اقوام عالم میں آل سعود کے خلاف بہت نفرتیں جنم لے چکی ہے. وہ اب اس قابل نہیں رہے کہ کوئی مسلمان انہیں اپنا پیشوا وراھنما قبول کر سکے. اب انکےطاقتدار کے زوال کا وقت آن پہنچا ہے اور انکی قیادت کا خاتمہ ہونے والا ہے . اقبال نے تو بہت عرصہ پہلے جہان اسلام کی نجات کا فارمولہ بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ

تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

مقاومت کا بلاک ہر گز فقط شیعہ بلاک نہیں بلکہ اس میں عراق ولبنان وشام وفلسطین ویمن کے اھل سنت صوفی ، مسیحی ، درزی ، ایزدی ، عاشوری ، علوی ، زیدی واسماعیلی. نیشنلسٹ وکیمونسٹ ولیبرل وغیرہ سب شامل ہیں . اور امریکہ واسرائیل کی استعماری پالیسیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور انکی غلامی کی بجائے انکے خلاف قیام اور ہر وسیلہ سے مقاومت کرنے کے موقف پر متحد ہیں۔

لیکن شاید امریکہ اور اسرائیل کی پیدا کردہ نفرتوں کا شکار مسلمان ابھی تک اس حقیقت کو درک کرنے کے قابل نہیں. اس لئے اب امریکہ کو شکست دینے والے مقاومت کے بلاک کے محور مرکز سے ھٹ کر سنی سیاسی اسلام کے دعویدار اخوان المسلمین جہان اسلام کو قیادت کا جدید نظام فراھم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں. جبکہ سعودی عرب اب بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ھاتھ پاوں مار رھا ہے. انہیں ایرانی مسلمان بھائی کلمہ شھادت پڑھنے والا اسلام دشمن اور اسرائیلی وصہیونی ویہودی اسلام کا کا ھمدرد اور دوست نظر آتا ہے اس لئے ایران سے تعلقات منقطع کرتے ہیں اور امریکا وغاصب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر فخر کرتے ہیں۔

تاریخ عصر حاضر کے تناظر میں عالمی سنی قیادت

– پہلی عالمی جنگ سے پہلے جہان تسنن کی زعامت وقیادت ترکی کے پاس خلافت عثمانیہ کی شکل میں تھی۔
– اس کے کے بعد تدریجا سعودیہ کو یہ قیادت تفویض کی گئی. اور پورے سنی جہان اسلام کا سرپرست اور قائد وراھبر ال سعود کو بنایا گیا۔
– جب اردغان کو طاقتور کیا گیا تو اسے پھر خلافت عثمانیہ کے احیاء کا خواب دکھایا گیا. اور اس نے سنی اسلام سیاسی ( اخوان المسلمین ) کو جذب کیا۔
– جب مصر میں محمد موسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مصر نے خلافت وقیادت سنی اسلام کی انگڑائی لی. سعودیہ نے جنرل سیسی کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا۔
– قطر کے اخوانی رجحانات نے اسے سعودیہ کا دشمن بنایا۔
– مہاتیر محمد نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اسرائيل کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور حماس کی حمایت کی . تو ملائشیا میں سعودی نواز حکومت لائی گئی۔

– نون پریس کی رپورٹ کے مطابق کوالمپور میں ہونے والی کانفرنس اپنی نوعیت کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس ہے۔
– 2014 کو مہاتیر محمد نے اقتدار میں آنے سے پہلے اسلامی مفکرین کی بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ” اسلام کا سیاسی وفکری نظام ” بلائی۔
– دوسری بین الاقوامی کانفرنس بھی کوالمپور میں بعنوان ” ترقی واستحکام کے لئے حریت ودیموکریسی کا کردار ” منعقد کی کئی۔
– تیسری بین الاقوامی کانفرنس اخوان کے نفوذ کے ملک سوڈان میں بعنوان ” الحکم الرشید ” یعنی حکومت راشدہ منعقد ہوئی۔
– چوتھی بین الاقوامی کانفرنس استنبول میں ” الانتقال الدیمقراطی ” منقعقد ہوئی۔
– ابھی 18 سے 21 دسمبر 2019 کو پانچویں کانفرنس بعنوان “قومی استقلالیت کے حصول میں تعمیر وترقی کا کردار ” اور امت اسلامیہ کو درپیش مسائل پر بحث کرنے کے لئے منعقد ہو رہی ہے جس میں پانچ ممالک ملائشیا ، ترکی ، پاکستان ، قطر اور انڈونیشیا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے البتہ شرکت کے لئے 50 کے قریب اسلامی ممالک کہ جن میں ایران بھی ہے ان کو دعوت دی گئی ہے. اس کے علاوہ جہان اسلام کے 450 مفکرین کو بھی ان مسائل پر بحث کرنے کے لئے دعوت دی گئی ہے. کانفرنس کے انعقاد کے بعد سب کچھ سامنے آ جائے گا کہ یہ مفکر کیا فقط اھل سنت ہیں یا کسی شیعہ مفکر کو بھی دعوت ہے. یا پھر اھل سنت میں سے بھی فقط اخوان المسلمین عالمی کے مفکرین اور انکے طرفدار ہی مدعو ہیں یا دیگر اھل سنت مفکرین بھی شریک ہو رہے ہیں۔

– ملائشیاء کے وزیر اعظم مھاتیر محمد نے اپنے بیان میں جن زیر بحث آنے والے اہم مسائل کا تذکرہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

مسلمانوں کی مجبورا ھجرت ، اقتصادی مسائل ، قومی وفرھنگی شناخت ، اسلام فوبیا ، مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرتیں ، انٹرنیٹ وٹیکنالوجی، ترقی واستقلال ، صلح امن اور دفاع ، استقامت اور حکومت راشدہ ، عدالت وآزادی وغیرہ شامل ہیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہم جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور ملیشیاء کے ساتھ ملکر امت کو درپیش مسائل کہ جن میں فلسطین اور روھینگیا کے مسلمانوں کے مسائل ہیں اس سلسلے میں تعاون کو بہتر بنائیں گے. اور ان مشکلات کا حل تلاش کریں گے۔

ترکی کے صدر کے مشیر یاسین اقطای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ سعودی عرب ،امارات ،اور مصر وغیرہ طاقتور ملک میانمار ، کشمیر ، فلسطین ، ترکستان ، سوریہ کے مسلمانوں کی مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں جبکہ یہی وہ ممالک ہیں جو یمن ، لیبیا اور مصر کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور جو کچھ ان پر گزر رہا ہے یہی ان مسائل کا موجب و منبع ہیں۔

ملائشیاء کانفرنس اور قضیہ فلسطین

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کو اولویت دی جائے گی. امریکی سفارتخانے کے قدس شريف میں منتقل ہونے اور اسے مقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی امریکی تائید کے بعد جب دنیا بھر میں اس عمل کی مذمت کی گئی. تو اسی دوران اقوام متحدہ میں عربی واسلامی ممالک کی نمائندگی میں ترکی کے صدر نے قرار داد پیش کی اور موقف اختیار کیا کہ فلسطین کے مسئلہ کے حل کے لئے اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں بلاواسطہ مذاکرات ہونے چاہئیں. جسے 128 اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لیا گیا.
فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ھنیئۃ کی شرکت بھی متوقع ہے. امریکہ واسرائیل اب فلسطین کے مسئلے پر حماس سے معاملات پر راضی ہیں. بشرطیکہ اس کا عسکری ونگ کنٹرول ہو جائے. جیسے پہلے یاسر عرفات اور محمود عباس سے معاملات چلتے رہے اور حماس وجہاد اسلامی اور مقاومت کے باقی گروہ دشمن رہے. اب یوں نظر آ رھا ہے کہ حماس محمود عباس کی جگہ لینے والی ہے اور یہی معاملات کرے گی. اور پوری دنیا کے اخوان المسلمین بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں گے ترکی اور قطر کے پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دوسری طرف سعودی عرب ، بحرین، اردن ومصر کے تعلقات قائم ہیں. حماس اسرائیل مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد ملائشیا وپاکستان ودیگر اسلامی ممالک کے راستے ہموار ہو جائیں گے. فقط مقاومت کا بلاک کہ جس میں ایران ، عراق ، شام ، لبنان اور یمن و فلسطینی مقاومتی گروہ ہیں وہ غاصب صہیونی حکومت کے مد مقابل رہ جائیں گے۔

قطری اقتصادی تعاون اور مالی امداد کا منصوبہ

قطر گیس کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے. اور اسرائیلی قطری تعلقات اور الجزیرہ کی شکل میں میڈیا کے شعبے میں تعاون بھی سب جانتے ہیں. قطر نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ ملکر اقتصادی تعاون اور اسلامی ممالک کی ترقی کے لئے مالی امداد کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے. جس کے لئے تین مراکز بنائے جا رہے ہیں. مشرق وسطیٰ کے لئے مالی امداد وتعاون کا مرکز دوحہ میں اور یورپ کے لئے ترکی میں اور ایشیا کے باقی ممالک کے لئے کوالمپور میں مرکز بنایا جائے گا. اس پر دوحہ ، استنبول اور کوالمپور حکومتوں کے مابین معاملات طے پا چکے ہیں. اور تینوں مراکز کے لئے 3 ٹریلین ڈالرز کی امداد کا بجٹ بھی طے پا چکا ہے۔

تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت شیرازی

وحدت نیوز (فیصل آباد) امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن طالبات فیصل آباد ڈویژن کی جانب سے منعقدہ ڈویژنل کنونشن میں مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری فلاح و بہبود محترمہ فرحانہ گلزیب نے خصوصی شرکت کی اور کنونشن سے خطاب کیا انھوں نے امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن طالبات فیصل آباد ڈویژن کی نو منتخب صدر محترمہ فاطمہ اسد کا مبارکباد پیش کی۔

اس موقع پر شرکاے کنونشن سے خطاب کرتے ہوے انھوں نے کہا کہ دور حاضر میں اپنی ذمہ داریوں کو جانتے ہوے خواتین کا عملی میدان میں حاضر ہونا بہت ضروری ہے۔ گھر کے ساتھ معاشرہ سازی کے ذریعے ھم ظہور امام زمانہ عج کےلیے خود کو آمادہ کر سکتے ہیں ان کا کہنا تھا امام زمانہ عج کے ظھور کے لیے ھمیں متحد ھو کر زمینہ فراھم کرنا ھوگا الہی تنظیم کے کارکنان الہئ اھداف اور مقاصد کے حصول کے لئے عزم و حوصلے کیساتھ اپنے اس سفر کو جاری رکھتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree