The Latest
وحدت نیوز(اسلام آباد)چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی عوام کی استقامت نے اسرائیلی گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا ہے، غزہ میں داخل ہونے اسرائیلی فورسز کا خواب چکنا چور ہو چکا، شوق شہادت سے لبریز فلسطینی جوانوں نے غاصب صہیونی ریاست کو ناکوں چنے چبوا دیئے، سترہ روزہ بارود کی بارش کے باوجود اسرائیلی فورسز غزہ میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کر پا رہیں، امریکی بیساکھیوں کے بغیر اسرائیل کی بزدل افواج اپنے مرکاوہ ٹینک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور نظر آتی ہے، شجاع فلسطینیوں نے بہادری اور جانبازی کی نئی مثال قائم کردی ہے، اسرائیل کے ناقابل شکست ہونے کے گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا ہے، فاتح خیبر و خندق کے ماننے والوں کے حملوں کی اسرائیل تاب نہیں لا سکا، اپنی سبکی کا بدلہ وہ اسپتال، مساجد، چرچ اور پناہ گزین کیمپوں پر سفاکانہ اور غیر انسانی حملوں کی صورت میں لے رہا ہے، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اس ظلم وبربریت پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، اقوام متحدہ اور او آئی سی غزہ پر اسرائیلی درندگی کو رکوانے میں مکمل ناکام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح یہود ونصاریٰ اسرائیلی مظالم کی پشت پناہی کر رہے ہیں اسی طرح مسلم دنیا سے بھی واضح اور جرآت مندانہ پیغام اسرائیل کو جانا چاہیے، پوری دنیا میں آزادی خواہ اور انسانیت کا درد رکھنے والے لاکھوں افراد اپنے ممالک میں احتجاج کر کے فلسطین کے معصوم بچوں اور خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، تمام اہل درد اقوام فلسطینیوں کی نسل کشی پر سراپا احتجاج ہیں، آج غزہ کے مظلومین جہاں پوری دنیا کے منصفوں کی طرف دیکھ رہے ہیں وہاں پاکستان کی طرف بھی امید بھری نظریں لگائے ہوئے ہیں، پاکستان سمیت پوری مسلم ورلڈ کی جانب سے اسرائیلی کے درندہ صفت حکمرانوں کو سخت اور دو ٹوک پیغام جانا چاہیے کہ غزہ میں غیر انسانی مظالم کو فی الفور روک دے، مسلم دنیا کی یک زبان ہو کر ایک دھمکی اسرائیلی حکومت برداشت نہیں کر سکے گی اور خونخوار ریاست خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس علماء مکتب اہلبیت پاکستان کے مرکزی صدر علامہ سید حسنین عباس گردیزی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے قتل عام پر مسلم امہ کی خاموشی شرمناک ہے، اس غارت گری کے جس طرح مغربی ممالک ذمہ دار ہیں اسی طرح مسلم دنیا بھی تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے، آج اگر فلسطینیوں کی نسل کشی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جا رہی ہے تو کل کو کشمیر میں بھی ہندوستان کی جانب سے عام شہریوں پر ظلم وبربریت کے خلاف آواز اٹھانا بے معنی سا ہو جائے گا، آج فلسطینی عوام پر دن رات ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، جنہیں روکنا ہر انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے افراد کا فریضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو وحشیانہ کارروائیوں کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے، صیہونی ریاست امریکی پشت پناہی اور مغربی ممالک کی ایماء پر غزہ میں دن رات بے رحمی سے بمباری کر رہا ہے، مائیں اپنے بچوں کے ہاتھوں پر نام لکھ رہی ہیں کہ اچانک بمباری میں شہید ہونے والوں کی پہچان ممکن ہو سکے، اسرائیل کے غیر انسانی سلوک کو روکنے کی بجائے الٹا اسے امریکہ کی طرف سے شہہ دی جا رہی ہے جس کی بدولت اسرائیل مسلسل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور اسپتالوں، سکولز اور مساجد کو نشانہ بنا کر یو این کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے جسے اسلامی دنیا اور عرب ممالک کو آگے بڑھ کر بازور بازو روکنا ہو گی ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ولادت باسعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام کے پر مسرت موقع تمام محبان محمد و آل محمد علیہم السلام کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کا جلال و ہیبت اس قدر تھا کہ دلوں کو آپ کی نورانیت اور ملکوتی چہرہ کے سامنے خاضع کر دیتا تھا، آپ کے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ مخالفین بھی احترام کرنے پر مجبور نظر آتے تھے، آپ نے اپنے جدِ امجد کی طرح علم و حکمت کے سلسلے کو تمام تر مشکلات اور سختیوں کے باوجود جاری رکھا، بے شک آپ کا علم منبع وحی سے ماخوذ تھا جو اس قدر وسیع تھا کہ بیان کے دائرے میں نہیں سماتا، آپ دیگر ائمہ اطہار ع کی طرح وقت کے تقاضوں کے مطابق فرائض امامت ادا کرتے رہے اور امت مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی میں مکمل طور پر سرگرم عمل رہے،انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام نے جہاں مسلمانوں کے دینی و اعتقادی مسائل کو حل کرنے کا فریضہ انجام دیا وہاں آپ معاشرتی اور معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی مسلسل کوشاں رہے، آپ ع کی حیات طیبہ خدائے مہربان سے انس و محبت اور صبر و شکر کا اعلی نمونہ تھی، جب کبھی حکومت وقت کی طرف سے مومنین و مسلمین کے لئے ایسی مشکلات اور مسائل پیش آتے تھے کہ انہیں صرف امام حسن عسکری ہی حل کر سکتے تھے، تو اس موقع پر امام معصوم اپنے علمِ امامت اور حیرت انگیز تدبیر و کمالات کے ذریعے سخت ترین مشکل کو حل کر دیتے تھے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل)ترکی دنیائے اسلام کا ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے لیے سادہ لوح مسلمانوں کی نگاہیں ترکی پر لگی رہتی ہیں.
ہمارے ہاں میڈیا پر جو ترکی کا چہرہ دکھایا جاتا ہے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور ترکی کو عالم اسلام کا خیرخواہ اور دفاع کرنے والا بناکر پیش کیا جاتا ہے
ترکی کے متعلق حقائق بیان کرنے کا مقصد ہرگز ترکی کی مخالفت نہیں بلکہ وہ حقائق جو ساری دنیا جانتی ہے ان سے اپنی عوام کو بھی آگاہ کرنا ہے تاکہ ہماری سادہ لوح قوم کسی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہو. اور ترکی کے بارے میں ہماری توقعات حقائق تک محدود رہے۔
ترکی فلسطین کی کتنی مدد کرے گا اس سوال کا بہترین جواب تو خود فلسطینی قوم ہی دے سکتی ہے لیکن تاریخی حقائق جان آپ خود بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترکی فلسطین کی کتنی مدد کرے گا ناظرین کچھ سال پیچھے چلتے ہیں
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات باضابطہ طور پر مارچ 1949ء میں اس وقت طے پائے جب اسرائیل کو وجود میں آئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا یاد رہے کہ ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک بھی ہے 1950 میں دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہو گئے ناظرین ترکی وہ پہلا اسلامی ملک تھا کہ جس نے 1957 میں اسرائیل کے سربراہ بن غوریون کا اپنی سرزمین پر پرتپاک استقبال کیا۔ 1958 میں اسرائیل کے وزیر اعظم ڈیوڈ بن غوریون اور ترکی وزیر اعظم عدنان مندریس نے مشرق وسطی میں روسی نفوذ کا مقابلہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد امریکہ جب سپر پاور کے طور پر ابھرا تو ترکی کی سیاست میں بھی ایک نئی تبدیلی آئی. ترکی چونکہ امریکہ کا اتحادی تھا، اس لیے ترکی نے بھی سوویت یونین کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے اور اپنے نفوذ کو خطے میں بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ترک سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطى، بلقان اور قوقاز کے ممالک پر انکا حق ہے. تو بس اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لئے ترکی کو ایک طاقتور فوج کی ضرورت تھی۔ لیکن جب امریکہ و یورپ نے ترکی کو جدید عسکری ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا تو ان حالات میں ترکی کی نگاہیں اسرائیل پر پڑیں کہ جو جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی لیس ہے. دوسری طرف اسرائیل کو بھی خطے میں ایک مضبوط شراکت دار کی ضرورت تھی.
1994 میں اسرائیل کے صدر عزر وایزمین نے ترکی کا دورہ کیا جس کے بعد ترکی کی خاتون وزیر اعظم تانسو چیلر نے اسرائیل کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان " امن و سیکورٹی " معاہدے پر دستخط ہوئے. تاکہ دونوں آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکیں. اور ترک فضائیہ کو اسرائیل میں ٹریننگ دی جائے.
1996 میں ترکی نے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافے اور جدید اسلحہ کی خریداری کے لئے بڑی مقدار میں سرمایہ خرچ کیا. اور پہلے دس سال کے لئے 25 سے 30 بلین ڈالرز بجٹ طے ہوا، جس کی مقدار اگلے تیس سال تک کے لئے 150 بلین ڈالرز تک کردی گئی
26 اگست 1996 کو ترکی اور اسرائیل نے اسلحہ بنانے کے معاہدے پر دستخط کئے.م
اگست 1996 میں دونوں ممالک میں عسکری شعبوں میں تعاون کے معاہدے ہوئے. جس کے تحت مشترکہ بری ، بحری اور فضائی فوجی مشقیں اور ڈائیلاگ وغیرہ شامل ہیں
یہی نہیں بلکہ
ترکی اسرائیلی اسلحہ کا خریدار بھی ہے جن میں جنگی جہاز ، ٹینک اور توپخانے شامل ہیں
.اس معاہدے کے بعد باہمی سرمایہ کاری کے فروغ، دہرے ٹیکس سے بچنے کے معاہدے اور اقتصادی تعاون کے معاہدے جیسے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔
جس کے بعد اسرائیل نے ترکی کے 54 جنگی جہازوں کو اپ گریڈ کیا. اور اس پانچ سالہ ڈیل کی لاگت 800 ملین ڈالرز تھی۔ اسی طرح میزائل اور ریڈار بھی بنائے گئے جو ترکی نے اپنے ہی اسلامی ممالک عراق اور شام کی سرحدوں پر نصب کر دئیے
اسی طرح دور تک مار کرنے والے میزائل بنانے کا معاہدہ بھی طے پایا جس کا بجٹ 150 ملین ڈالرز طے ہوا.
۔
اسرائیل کی جغرافیائی وسعت کم ہونے کی وجہ اسرائیل نے ان معاہدوں سے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جنگی جہازوں کو پرواز کے لیے ترکی کی وسيع فضا استعمال کرنے کا موقع مل گیا. جس کے سبب وہ اپنے دشمن اسلامی ممالک کے قریب آزادانہ پرواز کرنے لگے.
1997 میں ترکی اور اسرائیل کے اہم وزراء اور چیف نے دونوں ممالک کے دورے کرکے عسکری تعلقات کو مزید فروغ دیا
30 نومبر سے 4 دسمبر 1997 تک امریکہ ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ ٹریننگ شروع ہوئی اور طے پایا کہ یہ ہر سال ہوگی.
یکم جنوری 2000 میں ترکی اور اسرائیل کے مابین ڈیوٹی فری تجارت کا معاہدہ بھی طے پایا.
اب آئیے اردگان کے دور حکومت اور ترک اسرائیل تعلقات پر بھی ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں:
جب اردگان کی پارٹی نے 2002 میں اقتدار حاصل کیا تو ایک اسلامی چهره رکھنے والی اس پارٹی کی حکومت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ اقتدار پر آتے ہی اسرائیل کے ساتھ سارے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کریں گے. اور حماس اور فلسطینی مقاومت کے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن اردگان نے اپنے اسلاف کے راستے کا بی انتخاب کیا اور اسرائیل کے ساتھ امن وسیکورٹی معاہدے کو جاری رکھا بلکہ اردوان نے فورا امریکہ کا سفر کیا وہاں یہودی لابی اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اعتماد میں ليا
مارچ 2003 میں جب عراق پر امریکہ نے قبضہ کیا تو ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے پوری کوشش کی کہ امریکہ کے ساتھ ملکر عراق میں مداخلت کرے لیکن ترک پارلیمنٹ نے انکار کردیا. جون 2004 کو مشرق وسطیٰ کے وسیع البنیاد امریکی منصوبے کے سربراہی اجلاس میں اردگان نے شرکت کی. اور امریکہ و ترکی کے باہمی تعاون سے خطے کا نیا روڈ میپ بنانے پر تعاون اور ترکی کی حکومت کو ایک اسلامی ڈیموکریٹک لیبرل نظام بطور نمونہ خطے میں متعارف کروانے کی کوشش پر اتفاق ہوا. 25 جنوری 2004 امریکی یہودی کانفرنس تنظیم AJC نے ادرگان کو انکی خدمات کے صلے میں تمغہ شجاعت سے نوازا .
مئی 2005 کو اردگان نے اسرائیل کا دورہ کیا اردگان نے اس دورے میں اسرائیل کے ساتھ 687.5 ملین ڈالرز کا سودا کیا.
اور اسرائیل سے M601 جنگی ٹینک خریدے جنہیں اسرائیلی چلتا پھرتا قلعہ کہتے تھے یہ الگ بات ہے کہ 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان پر 33 روزہ جنگ مسلط کی تو حزب اللہ نے ایک ہی دن میں اسی قسم کے 40 اسرائیلی ٹینک تباہ کردئیے تھے اردگان کے اس دورے کی حیران کن بات یہ تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے اردگان کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے کہا " اسرائیل کے ابدی دارالحکومت قدس شہر میں خوش آمدید " اردگان نے جب اس بات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا تو اسے اپنے سابق سربراہ نجم الدین اربکان کی" سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس نے اس پر امریکہ و یہودی لابی اور عالمی صہیونیت کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا اسی سال
10 جون 2005 کو امریکی یہودی ادارے ADL نے اردگان کو نشان شجاعت سیاسی کا تمغہ عطا کیا
15 فروری 2006 کو جب حماس کے سیاسی سربراه خالد مشعل نے ترکی کا دورہ کیا تو اردوان نے بذات خود امریکا اور اسرائیل کے ڈر سے حماس رہنما سے ملنا تک گوارا نہیں کیا. اور اس وقت کے وزیر خارجہ عبداللہ گل نے وزارت خارجہ آفس کی بجائے اپنی پارٹی کے دفتر میں حماس رہنما سے ملاقات کی اور انہیں نصیحت کی کہ اسرائیل کے خلاف عسکری عمل سے باز رہیں یار رہے کہ یہ دورہ حماس کی فلسطینی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کا تھا.
13 نومبر 2007 کو اسرائیل کے صدر شمعون پیریز کو ترکی کے دورے کی دعوت دی گئی اور یہ پہلا اسرائیلی صدر تھا کہ جس نے ترک پارلیمنٹ سے خطاب کیا.
2009 کو ترکی نے اسرائیلی کمپنی کو شام ترکی سرحدی علاقے سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کا ٹھیکہ دیا.
2018 میں اسرائیل اور ترکی کا تجارتی حجم تقریبا 6 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا تھا. اور اسی سال 3 لاکھ 20 هزار اسرائیلی باشندوں کا سیاحت و تفریح کے لیے ترکی کی سرزمین پر استقبال کیا گیا
9 مئی 2018 کو انقرہ میں قائم اسرائیلی سفارتخانے میں اسرائیل کے قیام کے 70 سال پورے ہونے کا جشن گرمجوشی سے منایا گیا جس میں ترک وزیر خارجہ سمیت اعلی ترک حکام نے شرکت کی.
ا. یاد رہے اردگان ووٹ حاصل کرنے اور مسلمانوں کے دل جیتنے کے لئے کبھی کبھار انقلابی بیانات اور خطاب کرتا رہتا ہے.
آج رجب طیب اردگان کہتے ہیں کہ " وہ ہمیشہ کے لئے فلسطین کا دفاع کریں گے جیسا کہ سلطان عبدالحمید نے دفاع کیا تھا "
اب آئیے جانیے کہ یہ سلطان عبدالحمید ہے کون؟ تاریخ کو کھنگال لیجئے، سلطان عبدالحمید وہ شخص ہے کہ اس وقت اگر سلطان عبدالحمید یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین کی طرف ہجرت کی اجازت نہ دیتا اور سہولت کار نہ بنتا اور مالی امداد نہ کرتا تو آج اسرائیل کا وجود ہی نہ ہوتا.
جب عرب بہار کے نام پر خطے میں اسرائیل کی خاطر حالات خراب کئے گئے اور جنگیں مسلط کی گئیں تاکہ شام ، ایران ، حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کو کچلا جا سکے تو امریکہ کی سرپرستی میں جو اتحاد تشکیل پایا تو اس میں بھی فرانس ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک اور خطے کے ممالک میں سعودی عرب ، قطر ، امارات، اسرائیل اور ترکی سرفہرست تھا.
ترکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر اردگان کے بیٹے براق اردوان کے بحری جہاز ترکی سے سامان اور عراقی کرد علاقوں کا پٹرول اسرائیل منتقل کرتے ہیں. اور اسرائیل کے زرعی بیج اور مصنوعات بھی ترکی کی منڈیوں میں بکتے ہیں.
داعش کے شامی علاقوں سے نکالے جانے والے پٹرول کا خریدار اور بلیک مارکیٹ میں بیچنے والا بھی ترکی ہی ہے.
اسرائیل اور فلسطین کے موجوہ حالات میں ترکی فلسطینیوں کی کتنی مدد کر رہا ہے یہ سب کے سامنے ہے
ناظرین امید کرتے ہیں کہ یہ تاریخی حقائق جان کر آپکو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہوگا کہ ترکی فلسطین کی کتنی مدد کریگا ۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کی جانب سے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف جامع مسجد نورایمان کے باہر بعد نماز جمعہ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے پلے کارڈ ز اور بینرز اٹھائے ہوئے تھے جس پر امریکہ مردہ باد، اسرائیلی نامنظور، لبیک یا اقصیٰ، لبیک یا غزہ کے نعرے درج تھے۔ شرکاء احتجاج نے امریکہ، اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ احتجاج کے اختتام پر امریکی و اسرائیلی پرچم بھی نظر آتش کئے گئے۔
مظاہرین سے خطاب میں علامہ حسن ظفر نقوی،علامہ صادق رضا تقوی ، علامہ حیات عباس نجفی، علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے خاتمے تک احتجاج جاری رہے گا، اقوام عالم جانتے ہیں اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے اس کا وجود دنیا کے نقشے سے بہت جلد مٹنے والا ہے، مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل پیش کرنے والے ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ و اسرائیل انسانیت کے دشمن ہیں، ملک سے امریکی سفارتخانہ بند کئے جائیں، امریکی سفیر کو ملک بدر کیا جائے، عالمی ادارے فلسطین میں انسانیت سوز مظالم سے پیدا ہونے والے خطرات کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں اس کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین انسانوں کا قبرستان بن رہا ہے، غزہ ادویات اور ایندھن کی کمی سے اسپتال مردہ خانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پر امریکہ و برطانیہ کا قبضہ ہے، امریکہ اسرائیل، برطانیہ، فرانس خطہ میں براہ راست دہشتگردی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ، عالمی برادری اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ محاصرے کے فوری خاتمے کیلئے اپنی کوششوں کر تیز کرے، متاثرین کی امداد کو مستقل بنیادں پر جاری رکھے، جس طرح امریکہ، برطانیہ فلسطین میں اسرائیلی جنگی جرائم میں اس کی کھل کر مدد کر رہے ہیں، اسی طرح مسلم امہ بالخصوص عرب ممالک مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں ان کی نسل کشی رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں، مسلم ممالک صہیونی ریاست کا سیاسی، سفارتی، سماجی، معاشی بائیکاٹ کریں، عرب ممالک اسرائیل کو تیل کی ترسیل بند کریں۔ احتجاجی مظاہرے میں ڈاکٹر صابر ابومریم، رضی حیدر، تقی ہاشمی، علامہ ملک عباس، آصف صفوی، ناصر الحسینی سمیت دیگر موجود تھے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کے اہتمام کراچی میں حمایت فلسطین و دفاع غزہ ریلی نمائش چورنگی سے امریکی قونصلیٹ تک نکالی گئی۔
ریلی میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین، بچوں، بزرگ و جوانوں نے شرکت کی، شرکاء ریلی نے پلے کارڈز و بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جس میں لبیک یااقصیٰ، لبیک یا غزہ، امریکا و اسرائیل مردہ باد، قدس کی آزادی تک جنگ رہے گی و دیگر نعرے درج تھے۔
مظاہرین نے امریکی قونصلیٹ کے قریب اسرائیل اور امریکا کے پرچم بھی نظر آتش کئے۔
ریلی میں ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن،ہیئت آئمہ مساجد وعلماءامامیہ،مجلس ذاکرین امامیہ، مرکزی تنظیم عزاداری سمیت دیگر سیاسی، مذہبی و سماجی تنظیموں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
امریکی قونصلیٹ کے قریب شرکاء ریلی سے خطاب میں علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت انسانیت کا قتل ہے، اسپتال پر حملے اور اسرائیلی جرائم میں امریکا میں برابر کا شریک ہے،
فلسطینی عوام پناہ گزین کیمپوں میں بھی محفوظ نہیں، مساجد، چرچ، اسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں سمیت رہائشی عمارتوں پر وحشانہ بمباری جاری ہے، امریکا، اسرائیل، برطانیہ، فرانس مشرق وسطیٰ میں براہ راست دہشتگردی کر رہے ہیں۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ فلسطین میں موجود مزاحمتی تنظیموں نے صہیونیوں کو مہ توڑ جواب دیا ہے، گریٹر اسرائیل کی طرح ناقابل تسخیر ہونے کا صہیونی خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا،
دنیا نے دیکھا امریکی صدر کی اسرائیل موجودگی میں فلسطینی آبادیوں پر فضائی حملے کئے گئے، امریکا، برطانیہ، فرانس نے اسرائیل کی کھل کر مدد کی، اسی طرح مسلم ممالک بھی مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں،
امریکا عالمی دہشتگرد انسانیت کا دشمن ہے، امریکا کا اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو کرنا مشرق وسطیٰ میں اپنے عزائم کی تکمیل ہے، مسلم ممالک صہیونی ریاست کا سیاسی، سفارتی، سماجی، معاشی بائیکاٹ کریں۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے مطالبہ کیا کہ مسلم حکمران اور اقوام متحدہ، عالمی برادری غزہ جانے والی انسانی امداد کی رسائی ممکن بنائیں، ان شاء اللہ شہدائے فلسطین کی قرنیاں غاصب اسرائیلی وجود کے خاتمہ پر رنگ لائیں گی،
غزہ اسپتالوں میں ادویات، اجناس اور پانی کے خاتمہ سے مذید انسانی جانیں خطرہ میں ہیں، اسپتال پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری جنگی جرم ہے۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ قائم کرنے کی آواز حکومتِ پاکستان اُٹھائے، مصر کا غزہ کے محصورین کو پناہ نہ دینا اسرائیلی خوف ہے،
اسرائیلی جارحیت کے خلاف او آئی سی کا خالی مذمتی بیان کافی نہیں، غزہ محاصرے کے فوری خاتمے، مہاجرین کی امداد کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں، انبیاء کی سرزمین فلسطین سے غاصب اسرائیل کا خاتمہ ضروری ہے، عالمی برادری فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں اپنا کردار کرے۔
ریلی سے خطاب میں ایم کیو ایم کے رہنما روف صدیقی نے کہا کہ 56 اسلامی ممالک غزہ کے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے رہے، مسلم حکمران بزدل ہیں، غزہ میں اسرائیلی جارحیت نہیں روکی گئی تو مدینہ شریف پر یہ صہیونی حملہ کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امام عالی مقام حضرت امام حسینؑ کا شعار ہے کہ ظلم کے خلاف نہیں اٹھو گے تو بزدل حکمران تم پر مسلط ہو جائیں گے، امریکا، برطانیہ، اسرائیل بے گناہ مسلمانوں کا پوری دنیا میں خون بہا رہے ہیں۔
ریلی سے خطاب میں جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر مسلم پرویز نے کہا کہ ملت پاکستان کے دل اپنے فلسطین مظلوم کے ساتھ دھڑکتے ہیں، امریکا و اسرائیل مظلوموں کا خون بہا رہے ہیں، غزہ فلسطینیوں کی خاظر اپنی جان قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں۔
ریلی سے پیپلز پارٹی کے رہنما جاوید ناگوری نے کہا کہ فلسطین کی جنگ ظالم و مظلوم کی جنگ ہے، اسلامی ممالک کو متحد ہونا ہوگا، آج ہم نے مظلوم کی حمایت نہیں کی تو کل ہم پر بھی یہ وقت آئے گا۔
احتجاجی ریلی میں علامہ حسن صلاح الدین،شیعہ علماء کونسل کراچی کے صدر حسن رضا غدیری، سجاد حاتمی، ایم ڈبلیو ایم سندھ کے صدر علامہ باقر عباس زیدی، علی حسین نقوی، علامہ صادق جعفری، ایم کیو ایم کے رہنما عباس جعفری، عارف رضا، فلسطین فاؤنڈیشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم، آئی ایس او کراچی کے صدر ظفر حیدر، جمیعت اہل حدیث کے رہنما مفتی مرتضیٰ رحمانی، علامہ نثار احمد قلندری، علامہ صادق رضا تقوی سمیت شیعہ تنظیموں، ماتمی انجمنوں کے ذمہ داران، سوشل ایکٹوسٹ آغا شیرازی سمیت دیگر نے شرکت کی۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان لاہور ڈویژن کے زیراہتمام یکجہتی فلسطین ریلی چیئرنگ کراس مال روڈ سے نکالی گئی۔
ریلی کی قیادت ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے رہنما علامہ حسن رضا ہمدانی نے کی۔ یکجہتی فلسطین ریلی میں خواتین، بچوں اور بزرگوں سمیت کارکنوں اور شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
ریلی کے شرکاء نے امریکہ اور اسرائیل کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔ ریلی کے شرکاء نے فلسطین کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔
ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری سیاسیات اسد عباس نقوی، صدر ایم ڈبلیوایم لاہور نجم عباس خان، چیئرمین کل مسالک علماء بورڈ علامہ عاصم مخدوم، صدر آئی ایس او لاہور ارتضیٰ باقر، علامہ جواد موسوی اور ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ حسن رضا ہمدانی کا کہنا تھا کہ ناجائز ریاست اسرائیل کی جانب سے ہسپتال پر میزائل حملہ تاریخ بشریت میں سفاکیت و ظلم کی مثال بن چکا ہے،
ہسپتال میں موجود سولہ سو فلسطینی شہریوں میں پانچ سو سے زائد خواتین اور بچے شامل تھے،جنہیں بے دردی سے یکمشت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ اقوام عالم بالخصوص مسلم ریاستیں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر حسن عارف نے اسلام آباد میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ کیا۔
اس موقع پر انہوں نے مرکزی صدر وحدت یوتھ ونگ پاکستان علامہ تصور علی مہدی سے خصوصی ملاقات میں باہمی امور پہ تبادلہ خیا ل کیا ۔
اس موقع پروحدت یوتھ ونگ کے عہدیداران سید سجاد نقوی، نثار نقوی، یاورعلی،،سید وسیم الحسن اور عارف علیجانی بھی موجود تھے۔
وحدت نیوز(جعفرآباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام ملک گیر یوم یکجہتی فلسطین کے موقع پر جعفر آباد بلوچستان میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے سے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی علامہ مقصود علی ڈومکی اور صوبائی صدر علامہ سید ظفر عباس شمسی نے خطاب کیا۔
اس موقع پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ پاکستان کے غیرت مند عوام مظلوم اور بہادر فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے باوفا بیٹے مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ ہم اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دل فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے زندگی کے آخری لمحے تک فلسطین کی تحریک آزادی اور فلسطینی مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
علامہ سید ظفر عباس شمسی نے کہا کہ پاکستانی قوم کو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہما کے افکار و نظریات سے انحراف پر ملک کے حکمرانوں اور مقتدر اداروں سے جواب طلب کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ فلسطین جلد آزاد ہو گا اور ان شاءاللہ تعالیٰ ہم مسجد اقصی میں نماز ادا کریں گے۔
وحدت نیوز(اٹک) مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع اٹک کے زیر اہتمام مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اور اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔ اٹک کیمل پور کی جامع مسجد کے باہر نماز جمعہ کے بعد مجلس وحدت مسلمین ضلع اٹک کے ضلعی صدر جناب سید نیاز حسین بخاری اور ان کی ٹیم کی سربراہی میں یہ مظاہرہ منعقد ہوا ۔
مجلس وحدت مسلمین صوبہ پنجاب کے صوبائی صدر جناب علامہ سید علی اکبر کاظمی اپنے وفد کے ہمراہ اس مظاہرے میں پہنچے ۔ مقررین نے مظاہرے سے خطاب کیا ایڈووکیٹ احسن الدین ، کرنل سجاد نقوی ،علامہ نیاز حسین بخاری ، عارف بخاری، سابقین امامیہ نے پرجوش خطابات کیے اور مظاہرین نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے رہے ۔
آخری خطاب علامہ سید علی اکبر کاظمی صوبائی صدر مجلس وحدت مسلمین صوبہ پنجاب نے کیا ۔ عوام کی کثیر تعداد مظاہرے میں موجود تھی ۔ مظاہرے میں موجود سب نے علامہ علی اکبر کاظمی صاحب کے خطاب کا پرجوش نعروں سے جواب دیا ۔ علامہ صاحب چونکہ بہترین خطیب اور مقرر ہیں لہذا انہوں اس مظاہرے میں اپنی خطابت کا حق ادا کردیا ۔ فلسطین کے مظلومین کی آواز بن کر خطابت کرتے نظر آئے اور اسرائیل اور امریکہ کے مظالم سے عوام کو آگاہ کیا ۔ قرآن پاک کی آیات ،آخری زمانے کی متعلق احادیث مبارکہ اور آخری زمانے کی نشانیوں کو ملاکر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی خامنہ ای کے فرامین کی روشنی میں ایسے حقائق بیان کیے کہ ہر آدمی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا ۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر اسرائیل ،امریکہ کے خلاف نعرے درج تھےساتھ ہی ان پلے کارڈز پر حماس اور حزب اللہ سے ہمدردی اور ہمبستگی کا اظہار کیا گیاتھا ۔یہ مظاہرہ اٹک کی تاریخ کا بہترین مظاہرہ تھا جس میں ہر مکتب فکر کی نمائندگی شامل تھی ۔