The Latest

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین نے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی برقرار رکھنے کے بھارتی ہائیکورٹ کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے لاہور میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا بھارتی عدالت انصاف و مساوات کے اصول اور برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے، یہ فیصلہ مسلمان مخالف مہم میں بے رحمی کی ایک تازہ مثال ہے، جہاں سیکولرازم کے ہتھیار سے مسلمانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے ہائیکورٹ کے ناقص فیصلے کے بعد خاص طور پر مسلمان اقلیت کو مزید پسماندگی سے دوچار کرنے کی کوششیں تیز ہو جائیں گی، اس عمل سے ہندو انتہاپسند جماعت آر ایس ایس کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ مسلمانوں کو ہدف بنائیں گے۔

علامہ اسدی نے مطالبہ کیا بھارتی حکومت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی حفاظت و سلامتی یقینی بناتے ہوئے مذہبی روایات پر عملدرآمد کرنے کیلئے انہیں تحفظ فراہم کرے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ دینے والے جج کو شائد اسلامی عقائد کا علم نہیں جو یہ کہہ رہا ہے کہ اسلام میں حجاب پہننا ضروری مذہبی عمل نہیں۔ علامہ اسدی نے کہا کہ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے جبکہ عملی طور پر وہاں اقلیتوں کا استحصال جاری ہے، ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک ہائیکورٹ نے انڈیا کی بربادی کی بنیاد رکھ دی ہے۔

وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں سید سلمان حیدر رضوی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشتگردوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔ اپنے مذمتی بیان میں ترجمان ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ معروف شیعہ رہنماء سلمان حیدر کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ سلمان حیدر کا قتل شہر قائد کا امن خراب کرنے کی سازش ہے، سلمان حیدر کی ٹارگٹ کلنگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ترجمان ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ شہید سلمان حیدر پاسبان عزا اور آل پاکستان زیارات کاروان آپریٹر کے سیکرٹری جنرل، مسجد و امام بارگاہ خیر العمل ٹرسٹ کے ذمہ دار اور معروف شیعہ رہنماء ایس ایم حیدر مرحوم کے بیٹے تھے۔ ترجمان ایم ڈبلیو ایم نے مطالبہ کیا کہ سلمان حیدر کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشتگردوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔ واضح رہے کہ کراچی کے علاقے انچولی سوسائٹی میں موٹرسائیکل سوار دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے پاسبان عزا کے جنرل سیکریٹری سید سلمان حیدر رضوی کو شہید کر دیا۔

وحدت نیوز (اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام ملک گیر شیعہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ یکساں قومی نصاب کے نام پر متنازع نصاب کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔شیعہ قومی کانفرنس کا تعلق وطن کی سالمیت کے لیے ہے۔قائد اعظم کے بیانیہ سے انحراف کرنے والوں کے خلاف یہ قومی کانفرنس ہے۔جو کھیل وطن عزیز کو دولخت کرنے کے لیے ماضی میں کھیلا گیا تھا آج وہی کھیل پھر کھیلا جا رہا ہے۔ملک کو عدم استحکام،معاشی مشکلات اور اقتصادی بدحالی کا سامنا ہے۔نصاب کی تدوین کا کام دھوکے بازوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ یہ دھمکانے والے کون لوگ ہیں۔ اس نصاب کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ہمیں الجھانے کے لیے پینڈورا باکس کھولے جا رہے ہیں۔حکومت کو واضح کرنا چاہتے ہیں نصاب کی تبدیلی تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔نصاب کے معاملے پر پوری ملت تشیع متحد ہے۔اس فتنے کو روکنے کے لیے اگر جان بھی دینا پڑی تو بھی ڈٹے رہیں گے۔جس ملک میں قاتلوں کو اثاثہ سمجھتے ہوئے مضبوط کیا جائے وہاں استحکام کیسے آئے گا۔پاکستان کا آئین اللہ کی حکومت کو صالح نمائندوں کے ذریعے قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔ریاست مدینہ کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔استکباری قوتیں مذہبی طبقات کو آپس میں الجھا کر اپنا کام نکالنا چاہتی ہیں۔اس نصاب کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، یہ بددیانتی حکومت کو ڈبو دے گی۔سانحہ پشاور پر حکومتی بے حسی قابل مذمت ہے۔بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع پر سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان ہونا چاہئے تھے۔پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے، عوام تمھیں بددعائیں دے رہے ہیں۔پشاور میں نہتے نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے نے خیبر پختونخوا کی ماڈل پولیس کی کارکردگی آشکار کر دی ہے۔سانحہ پشاور پر حکومت رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ہم اپنے شہدائ کو کبھی نہیں بھولیں گے، ہم زندہ قوم ہیں۔دہشت گردوں کو مین سٹریم میں لانے کی کوشش مجرمانہ اقدام ہے۔ہمارے اندر امریکہ و اسرائیل کے حامی موجود ہیں،ایسے عنصر کو صفوں سے نکالنا ہوگا۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بزرگ عالم دین علامہ سید افتخار نقوی نے کہا کہ یکساں قومی نصاب کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو ہلانے کی کوشش کی گئی ہے جو آئین پاکستان سے انحراف ہے۔نصاب دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے تکفیری فکر کار فرما ہے۔قومی یک جہتی سے اس نصاب کا کوئی تعلق نہیں۔جو نصاب ملی وحدت کو تباہ کرنے کا ذریعہ بنے وہ قابل قبول نہیں۔تمام شیعہ تنظیمیں مشترکہ طور پر اس نصاب کو مسترد کرتی ہیں۔قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ایسے نصاب کی ضرورت ہے جو ملک کے استحکام میں کردار ادا کرے۔تکفیریت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ نصاب تیار کیا گیا ہمیں اس کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے۔امام جمعہ نور ایمان مسجد کراچی بزرگ عالم دین مرزا یوسف حسین نے کہا کہ یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کے موقف کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔یکساں نصاب کے متعدد نکات پر اہل سنت برادران کو بھی اعتراض ہے۔ ان سازشی عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے جو ملک میں مذہبی منافرت کا فروغ چاہتے ہیں۔عراق کے آی? اللہ العظمیٰ الحاج حافظ بشیر حسین نجفی کے فرزند شیخ ابو صادق علی نجفی نے وڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ارض پاکستان پر کسی ممکنہ فتنے کو روکنے کے لیے یہ بابرکت اجتماع بنیاد فراہم کرے گا۔ نصاب تعلیم کی تدوین انتہائی حساس ہے۔ملک کے مستقبل پر عظیم اثرات مرتب کرتا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے ارض پاک ایک نئے دور کاآغاز کر رہا ہے۔نصاب تعلیم کے آئندہ نسلوں پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔اس موضوع کو ماہرین اور علما ئے کرام کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔ گلگت امامیہ کونسل کے نمائندہ علامہ نیئر عباس نے کہا کہ یکساں نصاب کے نام پر مخصوص مسلک کا پرچار ہمیں قبول نہیں۔نصاب تعلیم کی یکسانیت کے حقیقی تقاضوں کو پورا کیا جانا چاہئے۔نصاب کے حوالے سے آگہی مہم شروع کی جائے تاکہ ملت کا ہر فرد اس سے آشنا ہو۔ البصیرہ پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے رہنما سید ثاقب اکبر نے کہا کہ ملت تشیع پر کسی دوسرے کو اپنے نظریات لاگو نہیں کرنے دیں گے۔پاکستان کے استحکام اور وحدت امت پر ایمان رکھتے ہیں۔نصاب تعلیم ہر سب کا مطمئن ہونا اوراقلیتوں کا احترام ضروری ہے لیکن کسی کو خوش کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کانفرنس سے شیعہ پولٹیکل پارٹی کے چیئرمین سید نوبہار شاہ،ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نائلہ کیانی، ممتاز عالم دین خورشید انور جوادی ،ماہر تعلیم ڈاکٹر ریاض حسین،محمد عباس جعفری، عاطف مہدی،عاطف مہدی سیال،صفدر بخاری، لال مہدی خان اور سید ہاشم موسوی سمیت دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔اعلامیہیکساں متنازعہ نصابِ تعلیم پر ملت جعفریہ کے تحفظات کے تناظر میںشیعہ قومی کانفرنسقراردادیں12 مارچ2022، اسلام آبادملت جعفریہ کا آج کا ملک گیر نمائندہ اجتماع 1-     یکساں قومی نصاب کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اس میں مکتب تشیع کے عقائد اور اہل بیت? کی تعلیمات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ اگر یہ نصاب اسی شکل میں نافذ کیا گیا تو ملی یکجہتی اور مذہبی رواداری کو متاثر کرے گا لہذا یہ نصاب تعلیم ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔2-     یہ اجتماع 1975 کے نصاب دینیات کو موزوں قرار دیتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اس نصاب میں مختلف اسلامی مکاتب فکر کی تعلیمات کو مناسب طور پر شامل کیا گیا تھا لہذا یکساں قومی نصابِ دینیات کو 1975 کی طرز پر ترتیب دیا جائے۔3-     آئین پاکستان اور حقوقِ انسانی کا عالمی منشور ہر انسان کو اپنے مسلک اور مکتبہ فکر کی ہدایات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے حق کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یکساں نصاب ہمارے اس بنیادی حق پر حملہ ہے اور یہ ظلم کے مترادف ہے۔4-     وطن عزیز پاکستان میں ایک سازش کے تحت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے باوفا بیٹوں کے خلاف منظم سازش کے تحت انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی نمایاں مثال محرم اور صفر میں عبادت کے جرم میں عزاداروں کے خلاف ہزاروں ناجائز مقدمات کا اندراج ہے۔ اور متنازعہ نصاب تعلیم اور دہشتگردی کے نا ختم ہونے والے واقعات ہیں۔5-    یہ اجتماع وزارت مذہبی امور کی جانب سے اسمبلی قرارداد کا سہارا لے کر امت مسلمہ کے درمیان صدیوں سے رائج مسنون درود شریف کی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے متنازعہ نوٹیفکیشن کی منسوخی کا مطالبہ کرتا ہے۔6-     یہ اجتماع کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ نسل کشی اور پشاور مسجد میں بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شیعہ نسل کشی کا تسلسل سمجھتا ہے جس کے سدباب کے لیے حکومت اور ریاستی اداروں کو سنجیدہ عملی اقدامات کرنے چاہیے۔مجوزہ لائحہ عمل:نصاب تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر یہ اجتماع پوری ملت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ a.    نصاب تعلیم کی اصلاح کے لیے ہر ممکنہ ٹھوس اقدام اٹھائے۔b.    نصاب کے موضوع پر ایک مستقل تحقیقی و علمی ادارے کے قیام کو یقینی بنائیں۔c.    احتجاجی تحریک کو نتیجہ خیز بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس سلسلہ میں 14 مارچ بروز پیر سے 20 مارچ بروز اتوار تک ہفتہ نصاب کو منایا جائے۔d.    اراکین اسمبلی کو خطوط لکھے جائیں اور پارلیمنٹ سے لیکر اقتدار اعلی کے تمام ایوانوں میں اپنی موثر آواز پہنچائی جائے۔e.    جمعہ کے دن ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے جائیں۔f.    پریس کانفرنس اور موثر میڈیا مہم چلائی جائے۔g.    بااثر سماجی، سیاسی و علمی و محبان اہل بیت? اہل سنت حلقوں کو ساتھ ملاکر نصاب کی اصلاح میں کردار ادا رکروایا جائے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر سے پارلیمانی سیکرٹری ترقی نسواں و صوبائی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کنیز فاطمہ علی،پارلیمانی سیکرٹری سیاحت دلشاد بانو اور پارلیمانی سیکرٹری تعلیم ثریا زمان کی ملاقات،ملاقات میں احساس پروگرام سمیت گلگت بلتستان میں خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا،اس موقع پر رکن اسمبلی کنیز فاطمہ نے کہا کہ ملک کو غربت سے نکالنے میں احساس پروگرام کا اہم ترین کردار ہے، عالمی سطح پر اس منصوبے کو پذیرائی ملنا ہماری حکومت کی غریب دوست پالیسیز کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ احساس نشوونما پروگرام کو گلگت بلتستان کے تمام اضلاع تک وسعت دی جائے گی اور  خاص طور پر خواتین کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام "آل پاکستان شیعہ قومی کانفرنس"کا انعقاد آج بروز ہفتہ جامع الصادق اسلام آباد میں گا جس میں ملک بھر سے ملت تشیع کے جید علماء،اکابرین،دانشور اور ماہرین تعلیم شرکت کریں گے۔

کانفرنس کے اختتام پر مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری شام پانچ بجے پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔کانفرنس کے انعقاد کا مقصد یکساں نصاب تعلیم کے متنازع نکات کے خلاف مشترکہ قومی بیانیے کا بھرپور اظہار ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کی اصلاح نصاب کمیٹی کے کنوینر علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ ان کی جماعت ہر اس اقدام کو مسترد کرتی ہے جس سے مذہبی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔یکساں نصاب تعلیم کے نام پر ملت تشیع کے بنیادی عقائد کو نشانہ بنانے کی دانستہ کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

آل پاکستان شیعہ قومی کانفرنس ان قوتوں کے خلاف ایک مؤثر اور مضبوط آواز ثابت ہو گی جو ملک میں انتشار اور بے چینی پیدا کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کانفرنس کی کوریج کی دعوت دی ہے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس علمائے شیعہ پاکستان نے متنازع یکساں نصاب کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کے موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ایم ڈبلیو ایم سیکرٹریٹ میں علامہ حسنین گردیزی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ملک میں جاری حالیہ سیاسی افراتفری پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

شرکاء اجلاس نے یکساں نصاب تعلیم کو متنازعہ قرار دے دیتے ہوئے اس کے نفاذ سے مذہبی رواداری کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔مجلس علماء شیعہ نے نصاب پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیاکہ یکساں نصاب ملت جعفریہ کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام ہونے والی قومی شیعہ کانفرنس کی مجلس علماء شیعہ بھرپور حمایت کا اعلان کرتی ہے۔ انہوں نے سانحہ پشاور اور کوئٹہ میں دہشتگردی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قرار واقعی سزا دینےاور مستقبل میں دہشت گردی کے واقعات روکنے کے لیےٹھوس اقدامات کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تکفیریت دھشت گردی کی اصل بنیاد ہے اسے مملکت خداداد پاکستان میں قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔مجلس علماء نے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کی مشکوک اور غیر سفارتی نقل و حرکت پر تشویش ظاہر کی۔

وحدت نیوز(اسلام آباد)رابطہ ودعوتی مہم مکمل، متنازعہ یکساں قومی نصاب کے خلاف ایم ڈبلیوایم کے تحت قومی شیعہ کانفرنس کل 12 مارچ بروز ہفتہ اسلام آباد میں منعقد ہوگی۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نے ایک وفد کے ہمراہ امام حسینؑ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر غضنفر مہدی، ممتاز عالم دین وفاق المدارس الشیعہ کے رہنما علامہ شیخ شفا نجفی سے ملاقات کی اور انہیں 12 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی ملک گیر قومی شیعہ کانفرنس کی دعوت دی۔

ملاقات میں نصاب کمیٹی کے اراکین مرکزی سیکریٹری تعلیم برادر نثار علی فیضی برادر سید ابن حسن شاہ بخاری اور برادر عارف الجانی اور علامہ ضیغم عباس چوہدری شریک تھے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے نصاب کمیٹی کے کنوینیر علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ یکساں قومی نصاب متنازعہ ہے اس میں مکتب تشیع کے عقائد اور دینی تعلیمات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ہم مجوزہ یکساں قومی نصاب کے متنازع نکات کو حذف کرتے ہوئے نصاب اور کتاب دونوں کی نظر ثانی کے ذریعے مکمل اصلاح کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ یہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے لیے یکساں طور پر قابل قبول ہو۔ہم سمجھتے ہیں کہ 1975 کا نصاب تعلیم موزوں ہے اس نصاب میں مختلف اسلامی مکاتب فکر کی تعلیمات کو مناسب طور پر شامل کیا گیا تھا لہذا نیا قومی نصاب 1975 کی طرز پر ترتیب دیا جائے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان اور نصاب کمیٹی کے کنوینیر مقصود علی ڈومکی اور مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی نے وفد کے ہمراہ اسلام آباد کے سابقہ ڈپٹی میئر سید ذیشان حیدر عرف شانی شاہ  اور عوامی نیشنل پارٹی کےرہنما سید حسین علی شاہ  سے ملاقات کی اور انہیں 12 مارچ کو اسلام آباد میں متنازعہ نصاب تعلیم کے حوالے سے ہونے والی شیعہ قومی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سید ناصر عباس شیرازی نے کہا کہ شیعہ قومی کانفرنس قومی وحدت اور بیداری کا اظہار ہوگی۔ پاک وطن کے باوفا بیٹوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کو ناکام بنائیں گے۔ مقصود علی  ڈومکی نے کہا کہ نصاب تعلیم اہم قومی مسئلہ ہے اس لئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک گیر شیعہ قومی کانفرنس طلب کی ہے تاکہ ملک بھر کے شیعہ علماء خطباء ذاکرین مسولین مدارس ماہرین تعلیم اور تنظیمی نمائندے مل بیٹھ کر نصاب پر مشاورت کریں اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں۔

انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ملت کی نمائندہ قومی جماعت کی حیثیت سے ملت کے حقوق کے حصول کے لئے مسلسل میدان عمل میں ہے۔  نصاب تعلیم حساس مسئلہ ہے۔ اصلاح نصاب کے سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کی کاوشیں جاری ہیں۔ نصاب تعلیم سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے تعلیمی نصاب میں ملت جعفریہ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ افسوس ناک ہے۔اس موقع پر علامہ ضیغم عباس چوہدری و دیگر موجود تھے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)دنیا میں جب بھی عالمی طاقتوں کے مفاد کو نقصان پہنچے یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اقوام متحدہ ہمیشہ ان عالمی طاقتوں یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء اور تحفظ کے لئے حرکت میں آ جاتا ہے۔حالانکہ دنیا میں افغانستان، عراق، شام، لبنان، یمن، فلسطین، کشمیر، برما، لیبیا اور ان جیسے متعدد ممالک کے مسائل ایسے ہیں کہ جن کے لئے اقوام متحدہ نے کبھی فوری ایکشن نہیں لیا ہے اور اگر کوئی ایک آدھ قرارداد نکال بھی دی ہے تو اس پر بھی خود عملدرآمد سے قاصر رہی ہے۔علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں لیگ آف نیشن یعنی اقوام متحدہ کے پرانے ڈھانچہ کو ”کفن چوروں کی انجمن“ قرار دیا تھا۔

موجودہ حالات میں جب اقوام متحدہ کا عالمی اور علاقائی مسائل میں کردار کا مشاہدہ کرتا ہوں تو علامہ اقبال کے وہ اشعار اور ان کے مفاہیم ایک سو فیصد سچ دکھائی دیتے ہیں۔

مسئلہ فلسطین کا ہو تو اقوام متحدہ ایک بے کار ادارہ ثابت ہوتا ہے۔مسئلہ اگرکشمیر کا ہو تو یہ ادارہ بالکل ہی ناکارہ ہو جاتاہے۔اسی طرح شام میں داعش اور دہشت گرد گروہوں کو امریکہ، اسرائیل اور یورپ سمیت عرب ممالک کی طرف سے ہتھیار اور سرمایہ فراہم کرنے کا مسئلہ ہو تو اس اقوام متحدہ کو نیند سی آ جاتی ہے، عرا ق میں امریکی فوجوں کی چڑھائی اور معصوم عراقی عوام کا قتل کا مسئلہ ہو تو بھی یہ اقوام متحدہ نیند کے مزے میں رہتی ہے، افغانستان میں بیس سال تک امریکی دہشت گردی کا راج رہے تو بھی اقوا م متحدہ غائب ہو جاتی ہے، اور اب جب کہ امریکی صدر بائیڈن نے افغانستان کے عوام کا پیسہ ضبط کر کے نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا اعلان کیا ہے تو اس حق تلفی اور نا انصافی پر تو اقوام متحدہ کو کسی نے خبر ہی نہیں دی ہے کہ صاحب ایسا بھی ہو گیا ہے۔

لبنان میں اسرائیلی دہشتگردی اور امریکی دخل اندازی کے معاملہ پر بھی اقوام متحدہ خاموش ہے، لیبیا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لئے بھی اقوام متحدہ نے چپ سادھ لی، قطرکے خلاف سعودی عرب کی محاذ آرائی کو بھی اقوام متحدہ نیند کی گولی سمجھ کر کھا چکی ہے۔یمن تو انسانی تاریخ کا بد ترین بحران کا شکار ہے، دسیوں ہزار انسانوں کو قتل کر دیاہے، دور جدید کی دنیا میں آج بھی زمین پر ایسا خطہ ہے کہ جہاں انسان اپنی جان بچانے کے لئے درختوں کے پتے کھا کھا کر زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ کو تو یہ بھی میسر نہیں اس جگہ کا نام بھی یمن ہے لیکن اقوام متحدہ کے پاس یمن سے زیادہ اہم مسائل میں امریکہ اور اسرائیل سمیت سرمایہ دارانہ نظام کے مالکان کا تحفظ کرنا زیادہ ضروری کام ہے جس میں اقوام متحدہ دن رات مصروف عمل ہے۔

آئیے اب یوکرائن کی ہی بات کرلیتے ہیں، اس معاملہ میں خیر اقوام متحدہ نے بہت چستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاید اس معاملہ میں سرمادارانہ نظام کے سرداروں کے سر قلم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں تو اقوام متحدہ نے بھی اس محاذ میں چھلانگ لگاتے ہوئے ان سروں کو کچھ دیرتک مزید گردنوں پر رہنے دینے کی کوشش شروع کی ہے۔روس کی جانب سے یوکرائین کے خلاف جاری فوجی آپریشن پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو قرار داد لائی گئی ہے اس کو لانے والا کوئی اور نہیں بلکہ دنیا کے سیاسی افق پر شکست کھانے والے امریکہ ہے۔اب اس قرار داد پر ووٹنگ کروا دی گئی ہے تا کہ امریکی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔یہ وہی اقوام متحدہ ہے کہ جس نے دنیا میں امریکی صدور خاص طور پربل کلنٹن، جارج بش اورباراک اوبامہ سمیت ڈونالڈ ٹرمپ جیسوں کے خلاف کوئی قرار داد پیش نہیں کی گئی۔ حالانکہ مذکورہ امریکی صدور نے اپنے دور صدارت میں نو اسلامی ممالک پر حملے کئے اور ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو براہ راست اور بالواسطہ قتل کیا جبکہ آخری صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسی اقوام متحدہ کے بنائے گئے عالمی قوانین کو پیرو ں تلے روند کر ایران کے سفارتی سفر کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں قتل کر دیا۔لیکن اقوام متحدہ ہے کہ کوئی قرار داد لانے سے قاصر رہی حتی ان دہشت گرد صدور کی مذمت نہیں کی گئی لیکن آج جب روس نے اپنے حق کے لئے یوکرائن کے معاملہ پر ایکشن لیا ہے تو آج یہی اقوام متحدہ روس کے خلاف محاذ آرائی کے لئے جمع ہو گئی ہے۔

گذشتہ دنوں روس کے خلاف لائی جانے والی امریکی تیار کردہ قرارداد نے اگر چہ ایک سو اکتالیس ووٹ اپنے حق میں حاصل کر لئے ہیں لیکن علامہ اقبال کے اشعار اور افاہیم کو درست قرار دیتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ادارہ فقط ”کفن چوروں کی انجمن“ سے زیادہ نہیں ہے۔

 امریکہ کی طرف سے ڈرافٹ کردہ قرار داد کو منظور کروانے کے لئے امریکی انتظامیہ نے اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کر نے کے باوجو دبھی وہ نتیجہ حاصل نہیں کیا جو کرنا چاہئیے تھا۔روس کے خلاف پیش کردہ امریکی قرارداد کے بارے میں چین کے مندوب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد باہمی مشاورت کے ساتھ نہیں لائی گئی ہے بلکہ یکطرفہ ہے جس پر چین نے غیرحاضری کا مظاہرہ کیا ہے، اسی طرح پاکستان کہ جس کے وزیر اعظم نے حال ہی میں روس کا دورہ کیا تھا امریکی دباؤ کو مسترد کیا اور اس قرار داد سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیاجو کہ امریکہ کے لئے ایک واضح پیغام اور پاکستان اور روس کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔ کئی ایک ایسے ممالک ہیں جنہوں نے امریکی دباؤ کے باوجود قرار داد کے حق میں ووٹ نہیں دیا اوراس عمل سے غیر حاضر رہے۔یہ بات خو د اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ امریکہ اپنی طاقت کھو چکا ہے اور اب دنیا کے چھوٹے ممالک بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں لیکن چند ایک ایسے ممالک موجو دہیں کہ جن کے حکمران اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امریکی دباؤ کو تسلیم کر رہے ہیں اور اس قرارداد نے واضح طور پر تقسیم کی ایک لائن کھینچ دی ہے جو امریکہ کے حق میں جاتی نظر نہیں آتی۔ماہرین کے نقطہ نگاہ کے تحت روس اور یوکرائن مسئلہ کا اصل ذمہ دار امریکہ اور نیٹو ہیں۔یوکرائن کے معاملہ سے دوسرے ممالک کو درس عبرت حاصل کرنا چاہئیے تا کہ مستقبل میں امریکہ کے دھوکہ میں آئے بغیر ممالک اپنی پالیسیوں کو مرتب کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ روس کے خلاف امریکی تیار کردی قراردادکے نتائج کا نقشہ علاقائی تقسیم کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ روس کے کیمپ میں وسطی ایشیا سب سے زیادہ مضبوط نظر آیا۔ پانچ وسطی ایشیائی جمہوریہ میں سے کسی نے بھی اس تحریک کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ سب  یا تو ووٹنگ کے وقت غیر حاضر ہے  یا پھر حصہ نہیں لیا۔

پاکستان نے اپنے تبصروں میں ''ناقابل تقسیم سلامتی'' کے اصول پر زور دینے کا خاص خیال رکھا، جو روس کے موقف کی تائید ہے۔ بین الاقوامی تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ یہ حمایت کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان روس کے سرکاری دورے پر تھے جس دن ماسکو نے سرحد پار یوکرین میں فوج بھیجی۔ہندوستان، سوویت یونین اور روس کے ساتھ قریبی تاریخی تعلقات کے باوجود، روسی مؤقف کا کچھ کم حامی دکھائی دیا، اس کے نمائندے نے ''تشدد کے فوری خاتمے اور دشمنی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

جنوبی ایشیا میں، ممالک یکساں طور پر تقسیم تھے، جن میں سے چار نے قرارداد کی حمایت کی۔ (افغانستان، بھوٹان، مالدیپ، اور نیپال)۔ اور چار (بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، اور سری لنکا) غیر حاضر ہے۔  اقوام متحدہ میں افغانستان  کا وفد اب بھی سابق جمہوریہ افغانستان (اشرف غنی) حکومت کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ طالبان کی حکومت زیادہ غیر جانبدار رہی ہے، جس نے ''دونوں فریقوں '' سے ''تحمل کا مظاہرہ'' کرنے کا مطالبہ کیا ہے، یہ ایک موقف ہے جو غیر حاصر مملک کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔

میانمار (برما) کہ موجودہ سربراہ نے اتوار کو ایک بار پھر روسی صدر ولادیمیر پوتن کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے یوکرین پر حملے کا الزام اس ملک کے رہنما پر لگایا۔ برمی زبان کے ترجمان میانما الین میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں، حکومت نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں پر روس اور یوکرین کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی سازش کرنے کا الزام بھی لگایا۔ووٹنگ سے پہلے حتمی ریمارکس میں، اقوام متحدہ میں روس کے سفیر نے مغرب کی طرف سے ''کھلی اور مذموم دھمکیوں '' کی مذمت کی تاکہ دوسرے ممالک کو قرارداد کی حمایت حاصل ہو۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس قرارداد سے یوکرین میں جنگ ختم نہیں ہوگی۔

وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کے مرکزی وفد کا کوچہ رسالدار جامع مسجد امامیہ پشاور کا دورہ ، خانوادہ شہداء سے ملاقات کی اور تعزیت پیش کی ۔

 مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین کے وفد جس میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات محترمہ نرگس سجاد، مرکزی آفس سیکرٹری محترمہ بینا شاہ، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات محترمہ زینب بنت الھدی، مرکزی سیکرٹری فنانس محترمہ قراة العين، ضلع اسلام آباد کی سیکرٹری جنرل محترمہ صدیقہ کائنات اور ضلع راولپنڈی کی مسئول محترمہ سمعیہ شامل تھیں نے جامعہ مسجد کوچہ رسالدار کا دورہ کیا اور پھر اس اندھوناک سانحے میں شہید اور زخمی ہونے والے مومنین کے گھروں میں ان کے لواحقین جن میں محترمہ سمعیہ کے عزیز و اقارب بھی شامل ہیں سے ملاقات کی ۔

اس موقع پر شہید مجاہد علی اکبر اخونذادہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ میرا ایک بیٹا تھا جو راہ خدا میں قربان ہوگیا میری قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں انہوں نے کہا کہ میری آقا ذادی جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا نے اپنے امام وقت کے امام پر اپنے دونوں چاند جیسے بیٹوں کو قربان کیا تھا انہی کے صدقے امام زمانہ عج ہماری قربانی قبول فرمائیں۔

 مرکزی سیکرٹری سیاسیات محترمہ نرگس سجاد نے کہا کہ شہداء کے ماؤں نے کربلا کی خواتین سے بلند حوصلہ ،ہمت اور راہ خدا میں قربانی کا جزبہ پایا ہے۔ انہوں نے کہا ہماری یہ قربانیاں ثابت کرتی ہیں کہ ہم حق کے راستے پر چل رہے ہیں اور دشمن ہمیں راستے سے ہٹانے کے لیے بزدلانہ کاروائیاں کرکے خوفزدہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے تمام خواہران نے خانوادہ شہداء سے اظہار یکجہتی کیا اور تعزیت پیش کی شہداء کی بلندی درجات اور زخمیوں کی صحتیابی کے لیے دعا کی علاوہ ازیں وفد نے جائے شہادت قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی دورہ کیا ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree