وحدت نیوز(آرٹیکل) مذہبی اسکالر ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کے خطاب سے اقتباس

تحریر : ناصر رینگچن

✒?اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں اور قارین کی آسانی کے لئے اس موضوع میں بیان ہونے والے کچھ اہم پوائنٹس مندرجہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔

*?الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی؟*
*? امریکہ ،فرانس ،اسرئیل اور سعودیہ کا گٹھ جوڑ*
*? عرب سپرنگ کے نام پر دہشت گردوں کو فنڈینگ کس نے کی؟*
*? خطے میں تین بلاکز ، کون کون شامل ہے؟*
? *بن سلمان اور بن زید امریکہ سے کہا چاہتے ہیں؟*
*? ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب سے قطر کو کیا پریشان ہوئی؟*
*? ایران کے مخالف قطر اور سعودیہ کے مابین تنازعہ کیوں؟*
*?پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟*
*? عالمی طاقتوں کا مقصد؟*
*? اتحاد وقت کی اہم ضرورت۔*

*مشرق وسطی کے بدلتے حالات سے پاکستان تک*

مشرق وسطی جو کہ تاریخی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ہر زمانے میں یہ خطہ عالمی طاقتور اور حکومتوں کی نظروں میں رہا۔ اسی طرح آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھی مشرق وسطی کی اہمیت میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی بلکہ قدرتی وسائل، جغرافیائی اہمیت اور سیاسی لہذ سے اب بھی عالمی طاقتوں کے مفاداتی جنگ کا میدان ہے جہاں پر ڈائریکٹ انڈائرکٹ تمام طاقتیں موجود ہیں۔ایک بات یاد رکھیں بین الاقوامی سیاست میں کوئی ابدی دوست اور دشمن نہیں ہوتا تمام تر تعلقات مفادات سے وابسطہ ہوتے ہیں۔ یہاں پر مشرق وسطی کے موجودہ حالات پر گفتگو کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں جس سے آپ کو ان حالات کو سمجھنے اور پس پردہ حقائق کو جانے میں آسانی ہوگی ۔ ڈاکٹر عبدالمجید دشتی کویتی جو کہ کویتی پارلیمنٹ کے سابق ممبر ہیں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا ایک دوست جو الجزائر کا سابق وزیر خارجہ تھا اس کا نام علی بن فلیس ہے ۔ وہ وزیر خارجہ کے علاوہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اس نے الجزائر سے دہشت گردی کیسے ختم ہوئی ؟ مجھے مفصل بتایا اور بیان کیا۔
علی بن فلیس کہتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں الجزائیر میں دہشت گردی عروج پر تھی جیسے ابھی شام عراق اور دیگر دہشت گرد متاثرین مملکوں میں ہیں۔90 کی دہائی میں متشدد اسلامی تحریک کی لہر زوروں پر تھی اور ان لہروں کے پیچھے یہی تکفیری آیڈیالوجی کارفرما تھی.اور جس نے الجزائر کے امن کو تباہ و برباد کردیا تھا اور لوگوں کا جینا حرام ہوگیا تھا۔ حکومت پریشان تھی کہ کیسے اس دہشت گردی کی لہر اور سوچ پر قابو پایا جائے مگر ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ ایک مرتبہ الجزائر کا صدر نے مجھے یعنی علی بن فلیس کو طلب کیا اور اسے کہتا ہے کہ اج کچھ خاص مہمان آئنگے لہذا تمھاری شرکت نہایت ضروری ہے۔ علی بن فلیس کہتے ہیں کہ جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ صدر کے ساتھ امریکی سفیر اور تین دیگر لوگ بیٹھے تھے جو امریکن سی آئی اے کے عہدہ دار معلوم ہوتے تھے۔ امریکی سفیر نے صدر سے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں آپ کے ملک سے دہشتگردی ختم ہو؟؟ صدر صاحب پہلے سے ہی اس صورت حال سے پریشان تھے باعث حیرانگی کہنے لگے کیا آپ ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم کر سکتے ہیں؟؟ سفیر نے کہا جی بلکل مگر کچھ شرائط ہیں !! صدر نے کہا قبول ہے۔ امریکی سفیر نے کہا

اول۔ آپ کے ملک کے تیل کی فروخت کی امدن وغیرہ کے جو نفع ہے اسے امریکی بینکوں میں رکھیں گے۔
دوئم_ اور گیس کی فروخت کی آمدن فرانس کے بنکوں میں رکھیں گے.
سوئم - فلسطین کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہوگا اور اسرائیلی مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔
چہارم _ ایران اور حزب اللہ سے تعلقات ختم کرنے ہونگے۔
پنجم _ اگر ترکی جیسی اسلامی حکومت تشکیل دینا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا.
اگر آپ ہماری شرطیں قبول کرتے ہیں تو آپکے ملک سے یہ مذھبی دہشتگردی ختم کرنے کی ہم ضمانت دیتے ہیں.

صدر نے کچھ سوچنے کے بعد مطالبات تسلیم کرنے کی حامی بھر دی تو سفیر کہنے لگا ٹھیک ہے پھر ہم اپنے شرکاء اسرائیل، فرانس اور سعودیہ سے بات کریں گے ۔
صدر نے پوچھا کہ ان ممالک کا کیا تعلق ہےامریکی سفیر نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیاکہ دہشت گردوں زیادہ تر اسلحہ فروخت کرنے والا ملک اسرائیل ہے، اور اس اسلحہ کا خریدار یعنی فنڈز فراہم کرنے والا ملک سعودی عرب اور دہشت گردوں تک اسلحوں کو پہنچانے والا فرانس ہے. اسرائیل اسلحہ فرانس بھیجتا ہے اور فرانس کے الجزائر کے بعض فوجی آفیسرز سے تعلقات ہیں جنکےبذریعے یہ اسلحہ مسلحہ گروھوں تک پہنچتا ہے.اس کے بعد سفیر نےتمام معلومات اور حقائق ہمارے سامنے رکھ دئے ، اور کہا کہ ہم فرانس اور اسرئیل کو اس معاہدے سے اگاہ کر دیں گے آپ کسی کو سعودیہ بھیجیں جو سعودی حکومت کوقائل کرے .

اسی دوران صدر نے علی بن فلیس جو کہ وزیر خارجہ تھا کو حکم دیا کہ سعودی عرب سے بارگینگ تم کرو گے۔ علی بن فلیس سعودیہ پہنچتا ہے کنگ عبداللہ سے ملاقات کرتا ہے اور پلینگ سے آگاہ کرتا ہے مگر بادشاہ عبداللہ کسی صورت مانے کو تیار نہیں ہوا بالآخر علی بن فلیس ناکامی کے ساتھ محل سے باہر نکلتا ہے اور امریکی سفیر کو فون کر کے صورت حال سے آگاہ کرتے ہیں سفیر کہتا ہے تھوڑی دیر انتظار کرو۔ اب تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ملک عبداللہ کا خصوصی ایلچی جلدی سے علی بن فلیس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے بادشاہ نے آپ کو بلایا ہے وہ کہتا جب میں کنگ عبداللہ کے پاس پہنچا تو وہ فورا مجھے مبارکباد دینے لگا ۔ اس کے بعد دہشت گردوں کی لعنت ہمارے ملک الجزائر سے ختم ہو گئی. امیرکن الجزائر میں دہشت گردوں کے مراکز کو جزائیری فوج کے سامنے رکھ ریتے ہیں یوں وہاں کی آرمی امریکیوں کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ۔

خلاصہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو ظاہری دہشت گرد نظر آتے ہیں یہ ایک روبوٹ کی طرح ہے ان کے پیچھے پورا ایک سسٹم کار فرما ہے جو شاید ہی صرف دہشت گردوں کے لیڈروں کو ہی پتا ہو۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے سعودی عرب میں دہشت گردوں کے تھینک ٹینک اسلامی ممالک کے سربراھان کا اجلاس ہوا اور امریکی سعودی اتحاد سے اس کے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمان حکمرانوں کو اسلام پر لیکچر بھی دیا. اس کے بعد برادر اسلامی ملک ایران کے خلاف اتحاد کے مقاصد کو بیان کیا گیا . جس کا پہلا اثر ایرانی پارلیمنٹ اور مرقد امام راحل پر دھشتگردی کے حملے کی صورت میں نظر آیا.

اور دوسرا اثر دہشت گردوں کی سب سے زیادہ مالی سپورٹ کرنے والے ممالک قطر ، سعودیہ اور امارات کے ما بین کشیدگی کی صورت میں نظر آ رھا ہے. اب ایران پر حملہ کیوں ہوا؟ پہلا نقطہ تو واضح ہے کہ سعودی اتحاد میں الاعلان کہا تھا کہ اب دہشت گردی کی جنگ کو ایران کے اندر لے جائیں گے۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان اور محمد بن زید نے امریکہ کے سے قریبی تعلقات قائم کئے اور امریکہ سے کہا کہ خطے کی چودراہٹ ہمارے ہاتھ میں آنے چاہئیے اور ساتھ ہی خزانوں کی چابیاں بھی دیکھا دیں۔ امریکہ جسے ان دہشت گردوں اور عرب بدووں کی جاہلانہ ذہنیت پر کمانڈ حاصل ہے ، اور ساتھ ہی اپنے مفادات کا بھی خیال تھا. انہوں نے کہا یہ معاہدہ برا نہیں ہے۔ابھی تو فقط امریکہ اور سعودیہ کا پانچ سو ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا ہے. در پردہ 1500 ارب ڈالرز محمد بن سلمان طے کر چکا ہے. اور سعودیہ کی خاطر پہلے امریکہ نے شام کے شعیرات ائیر بیس پر حملہ کر کے ال سعود اور اس کے اتحادیوں کو یہ باور کرایا تھا کہ اگر پیسے دو گے تو ہم یوں بھی کر سکتے ہیں لہذا پیسے دو کام لو۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی اتحاد کو یہ جراءت ہوئی کہ اس نے ایران سے جنگ کا اعلان کیا۔ اسی لئے ہمیں تہران حملے کی نوعیت داعشی اسٹائل سے الگ نظر آتی ہے چونکہ اس منصوبے میں ڈائریکٹ امریکہ اسرائیل بھی موجود ہے۔ دوسری طرف سی آئی اے نے سعودیہ کو گرین سگنل دیا ہے کہ 500 ارب ڈالر کا نتیجہ آرہا ہے۔

یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایران پر حملہ دو اہم رموز اور ستونوں پر حملہ ہے .اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلام اور جمہوریت دو اہم ستون اور رکن نظام ہیں. اس لئے حرم امام خمینی کو نشانہ بنانا اسلام ناب اور محمدی اسلام کو نشانہ بنانا ہے اور مجلس شوریٰ اسلامی یا پارلیمنٹ پر حملہ جمہوریت پر حملہ ہے. دوسرے لفظوں میں شام عراق کی شکست انھیں یہاں تک لے آئی ہے . کہ جمہوریت کی خاطر پر امن ممالک کو تباہ کرنے والے جمہوریت پر حملے کر رہے ہیں اور اسلام کے جھوٹے دعویدار اسلام پر ہی حملہ آور ہیں. لیکن ایک بار پھر استعماری طاقتیں اپنے اصل ہدف میں ناکام ہوئے۔

آج مقاومتی بلاک بڑی طاقت میں ہے جس کی وجہ سے شام، لبنان،یمن ، عراق اور ایران میں مضبوط روابط قائم ہیں۔ اسرائیل حزب اللہ جنگ میں اسرائیل کی شرمناک شکست اور پھر شام عراق میں تکفیریوں کی پے درپے شکست سے بلاک مقاومت کی طاقت دنیا بھر میں ظاہر ہوئی. اب امریکہ ڈائرکٹلی مقاومتی بلاک سے ٹکرانے میں احتیاط کرتے ہیں۔ ہم سنتے آرہے ہیں تھے کہ تہران سے بیروت تک اس ہلالی خطے میں شیعہ مظبوط ہونا چاہتے ہیں تو دینا آج دیکھ رہی ہے کہ ہلال شیعہ مکمل ہوچکا ہے آج تہران سے بیروت تک راستہ کلیر ہے اور یہ سب مقاومت کی بدولت ہے۔اس وقت خطے میں تین بلاکز موجود ہیں۔

1_مقاومت کا بلاک: امریکہ و اسرائیل کے خلاف یعنی ہر ظالم کے ظلم کے خلاف اور یہ لوگ خود سے کبھی پہل نہیں کرتے یہ اپنے اصولی موقف کا دفاع کرتے ہیں اگر کسی ملک میں جاتے بھی ہیں تو بین الاقوامی قوانین کا لحاظ رکھتے ہیں اور قانونی طور پر جاتے ہیں یعنی باقاعدہ دفاعی معاہدہ کی صورت میں جاتے ہیں۔ اس بلاک میں جو نمایاں ہیں وہ ایران، عراق، شام، حزب اللہ، انصاراللہ اور الحشد الشعبی ہیں۔ جنہیں عالمی طور پر روس اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے.
2۔ سعودی عرب ، خلیجی ممالک اور مصر کا بلاک : جو اپنے آپ کو سنی بلاک کہتے ہیں حقیقت میں تکفیری بلاک ہے. جو امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ناچتا ہے.
3۔ قطر ، ترکی ، اخوان المسلمین اور حماس کا بلاک : جن کی زیادہ تر مالی معاونت قطر کرتا ہے۔ تکفیری دہشتگردی کی پشت پناہی اور امریکہ و اسرائیل سے تعلقات میں دوسرے اور تیسرے بلاک میں کوئی فرق نہیں. دونوں کی کوشش ہے سنی دنیا کی خلافت وسربراہی فقط اس کے پاس ہو ایک خادم الحرمین کے لقب سے سنی ممالک کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے دوسرا خلافت عثمانیہ کے از سر نو احیاء سے مسلمانوں کا امیرالمؤمنین بننا چاہتا ہے. اور اس خلافت کو وہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

دوسرے اور تیسرے مقامات کا آئڈیولوجی تقریبا ایک ہی مگر نظریاتی و مفادات اختلاف موجود ہیں۔ شام، عراق میں یہ دونوں پہلے والے مقاومت کے خلاف متحد تھے.
جب عراق، شام میں ان تکفیریوں کو شکست ہوئی تو امریکہ اور اسرائیل کو تشویش ہوئی انھوں نے اب ایک نئی ڈرامہ بازی شروع کردی۔ اور شام، عراق، لیبیا وغیرہ کی جنگ میں جو ممالک متحد تھے اور دہشت گردوں کی مالی و نفری مدد کر رہے تھے انہوں نے اپنے الو ٹھیک کرنے شروع کئے ہیں ۔ امریکہ جس کی اقتصاد روز بہ روز تنزلی کی جانب بڑھ رہا تھا اس نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور عربوں کے دولت سمیٹنے لگا جس کی پہلی مثال دورہ ٹرمپ اور ٹرمپ کا یہ بیان ہے سعودیہ دودھ دینے والی گائے ہیں جب تک دودھ موجود ہے دودھ دھولو۔

یہاں سے قطر اور سعودیہ کا تنازع شروع ہوتا ہے اول تو مقاومتی بلاک کی وجہ سے اختلافات تھے دوسرا امریکہ سے سعودی قریبی تعلقات سے بھی قطر ناراض تھا اور یہ اختلافات اس وقت شدت اختیار کر گئے .جب سعودی عرب نے قطر کو جگا ٹیکس دینے کا کہا مطلب 1500 ارب ڈالر میں اپنا حصہ دیں قطر کو سعودی شرائط منظور نہیں تھیں لہذا اس نےانکار کردیا۔

یہ بات یاد رہے کہ سعودی قطعی تعلقات خراب کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قطری اچھے ہوگئے ہیں۔ مشرق وسطی میں دہشت گردی کی آگ لگانے اور اس آگ پر مزید تیل چھڑکنے والا ملک قطر ہے۔اور قطری چینل الجزیرہ عرب ممالک کی تباہی کی آگ لگانے جھوٹا پروپیگنڈا کرنے اور مسلمانوں کی قتل وغارت میں دہشتگردوں کا برابر کا شریک ہے. انسانیت کے قتل عام میں قطر نے پانی کی طرح پیسا بہایا عرب سپرنگ کی آڑ میں دہشت گردوں کی خوب پرورش کی لیبیا میں تکفیریوں مکمل مالی تعاون کیا بلکہ امریکن نیٹو کے اخرات بھی قطر دیتا تھا۔ اس کے بدلے میں قطر کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ 10 سال تک لیبین تیل کی آمدنی حاصل کرے گا۔

صرف یہ نہیں شام کو عرب لیگ سے نکالنے میں بھی قطر کا ہاتھ ہے۔ خلاصہ یہ کی اب تک بین الاقوامی جنگ قطر لڑ رہا تھا۔ جب قطر نے اپنی ان تمام قربانیوں کے باوجود امریکہ کا سعودی عرب کی طرف جھکاو دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا یوں یاری میں دوریاں پیدا شروع ہوئی۔ شروع میں یہ خیال تھا کہ یہ ننھا قطر گھٹنے ٹیک دے گا مگر ترکی کی طرف سے فوجی، ایران کی طرف سے غذائی مدد پھر روس کی طرف سے بھی آسرا ملنے کے بعد قطر نے اپنی روش میں استقامت پیدا کی ہے۔

لیکن ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے یہ خلافت رسول اللہ کی جنگ نہیں یہ اقتدار بنی امیہ اور بنی عباس کی جنگ ہے اور اللہ کے نیک اور صالح بندے اور ذریت رسول اللہ ان دونوں اقتداروں میں ظلم کی چکی میں پستی رہی. یہ دونوں بلاک ہمارے ابدی دشمن ہیں ہمارے خلاف یہ دونوں ایک ہیں ۔ لیکن ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور ان حالات سے فائدہ اٹھانا چاہیے چونکہ دشمن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا اور ان سے دوستی کرنے میں فرق ہے۔ ہم کبھی بھی قطر اور سعودیہ کے جرائم پر پردہ نہیں ڈالیں گے بلکہ جب بھی موقع ملے گا ان کے جرائم اور مظالم کو آشکار کریں گے۔

پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میں بھی غور و فکر کرنا چاہیے کیونکہ پاکستانی عوام بھی سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہے اور دہشت گردی کے خلاف ہمارے جوانوں نے بے شمار قربانیاں پیش کی ہے۔ لیکن پاکستان میں بھی دہشت گردی کی جڑیں مفادات سے وابسطہ ہیں، اس کے علاوہ تقریبا ہمارے ہر محکموں میں ایک خاص فکر دیوبندیت اور وہابیت سے تعلق رکھنے والے گروہ کا قبضہ ہے۔ اور ان کے منظم شکل کا نام جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام ہے ۔۔جماعت اسلامی پاکستان میں ایسے ہی ہیں جیسے مصر میں اخوانالمسلمین لیکن جماعتی فکر کے لوگ پاکستان کے ہر سرکاری محکموں اور سیاسی پارٹیوں میں موجود ہیں۔ یہی لوگ ملکی نصاب بناتے ہیں تنگی نظری اور تعصب کی ترویج کرتے ہیں. پھر ملک میں فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہے۔ جس پاکستان کو ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دے کر بنایا اور جن لوگوں نے پاکستان کی مخالفت کی بانی پاکستان کو کافر اعظم کہا آج وہ پاکستان کے خیر خواہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس گروہ نے ہمارے نصاب میں ہر شیعہ دشمن کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے چاہئے وہ محمد بن قاسم ہو یا شاہ ولی اللہ تاریخ کے اندر جو متشدد گزرے ہیں وہ ان کے ہیرو اور آئیڈیل ہوتے ہیں۔ ابھی کی ہی مثال لے لیں اسامہ بن لادن ، صدام، قذافی، ملاں عمر ، مولوی فضل اللہ ، ابو مصعب زرقاوی اور ابو بکر بغدادی یہ سارے ان کے اسلامی ہیرو ہیں۔ اب آپ خود سوچیں جو لوگ دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لئے نرم کوشہ رکھتا ہو وہ جب نیشنل ایکشن پلان، ردالفساد ترتیب دینے میں شامل ہوں گے تو یہ آپریشن کیسے کامیاب ہوگا۔

خلاصہ آج ہمیں انتہائی مشکل حالات درپیش ہیں اور ہر رنگ نسل سے تعلق رکھنے والے ظالم و ستمگر ہمارے خلاف متحد ہوچکے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتوں کا مقصد نئے سرے سے اسلامی ریاستوں کی سرحدیں تعین کرنا ہے تاکہ کوئی بھی اسلامی طاقت موجود نہ رہیں اور یہ سارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھر جائے۔ اسلام دشمن عناصر چاہتے ہیں افریقہ، مشرق وسطی، خلیجی ممالک ،ایران ترکی، پاکستان سے لیکر انڈونیشا تک کوئی سالم ملک باقی نہ رہے اور یہ سب فرقوں اور نسلوں میں تقسیم ہوجائیں اور ان کی آئندہ آنے والی نسلیں یہ جنگیں شیعہ سنی، عرب عجم و قوم کے نام پر اپنی گلیوں میں لڑیں۔ لہذا اس خطرناک دور میں ہوشمندی کے ساتھ آپس میں مضبوط اتحاد ضروری ہے اور یہی اتحاد ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اسلام تکفیری و اسلامی امریکائی کو شکست دے سکتے ہیں۔ یقینا امام خمینی نے ہمیں اس خطرے سے پہلے ہی آگاہ کیا تھا اور نشاندہی کی کہ تھی شیطان اکبر امریکہ ہے۔ آج اسلامی اتحاد کے نام پر اسلامی امریکی و اسرائیلی کو فروغ دیا جارہا ہے جن کا اصل ہدف یہودی ونصاری کے مفادات کا تحفظ اور حقیقی اسلام کو کمزور کرنا ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ خدا نے اس پر خطر دور میں بھی ہمیں رہبر سے یتیم نہیں رکھا آج آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں دشمنان اسلام ہر محاذ پر ناکام ہو رہے ہیں اور ان کے پس پردہ مقاصد عیاں ہو رہے ہیں، آج ہر جگہ مقاومت اسلامی حقیقی اسلام کے مدافعین کو ہر جگہ چاہئے جنگ نرم ہو یا سرد فتح و کامرانی نصیب ہو رہی ہے ہمیں اس نعمت خداوندی کا شکر بجالانا چاہئے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی نے کراچی سینٹرل جیل سے لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے دو خطرناک قیدیوں کے فرار کو جیل عملے کی ملی بھگت قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سخت ترین سیکورٹی میں بغیر کسی مدد کے جیل سے فرار ہونا ممکن نہیں۔ ملکی امن و سلامتی کے ذمہ دار اداروں میں دہشت گردوں سے فکری مطابقت رکھنے والے افراد کی موجودگی خطرناک ہے۔دہشت گردوں کو فرار میں معاونت فراہم کرنے والے افسران اور اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔وطن عزیز میں دہشت گردی کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قومی اداروں میں موجود اس طرح کے سہولت کار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام کے سلسلے میں عزاداری کے پروگراموں کا انعقاد جاری ہے۔مختلف شہروں سے مرکزی جلوس برآمد ہونے ہیں جہاں عزاداروں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ایسے موقعہ پر دہشت گردوں کا فرار مختلف شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ملک کے کسی بھی حصے میں خدانخواستہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔اس سے قبل بھی ملک کے بعض جیلوں سے ایسے خطرناک قیدیوں کو فرار کرایا گیا جو دہشت گردی کے سنگین ترین واقعات میں ملوث تھے۔اس طرح کے واقعات کا تسلسل عوام کے لیے عدم تحفظ کے احساس میں تقویت کا باعث اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔حکومت کو عوام کی جان ومال کی اہمیت کا ادارک کرنا چاہیے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ یوم علیؑ کے موقعہ پر ملک کے تمام شہروں میں سیکورٹی کی فراہمی میں کسی قسم کو کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے تاکہ موقعہ پرست اور ملک دشمن عناصر کو شر پسندی کا کوئی موقعہ نہ مل سکے۔

وحدت نیوز(لاہور) ملک بھر کی طرح پنجاب بھر میں بھی ایام خلیفتہ المسلمین امیرالمومینن حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے مناسبت سے 19 رمضان تا 21 رمضان المبارک مجالس عزاء و جلوس ہائے عزاء کا انعقاد ہوگا۔ مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے تحفظ عزاداری سیل کے سیکرٹری رانا ماجد علی نے لاہور میں افطار ڈنر سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتظامیہ اور پنجاب حکومت عزاداروں کی سکیورٹی اور مجالس عزاء و جلوس ہائے عزاء کے انعقاد میں عزاداران امام عالی مقام کیساتھ بھرپور تعاون کرے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی سیکرٹریٹ میں قائم کنٹرول روم سے پنجاب بھر کے اضلاع سے رابطے میں رہیں گے، کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں انتظامیہ کیساتھ مل کر اس کا سدباب کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن عزاداری جو ہمارا بنیادی آئینی و قانونی حق ہے اس پر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہماری یہ عبادت ہے اور ہم اس میں کسی بھی قسم کے خلل کو بنیادی آئینی حقوق سے متصادم سمجھتے ہوئے مسترد کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیرت معصومینؑ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں باہمی وحدت اخوت اور امن و محبت کی فضا کر برقرار رکھنا ہے تاکہ دشمن اپنے مذموم عزائم میں کا میاب نہ ہو سکے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی جانب سے اسلام آباد میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا، جس میں صحافی حضرات، مختلف تنظیمیں، ماتمی سنگتیں اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ حکمرانوں کا بیس کمیپ دبئی اور جدہ ہے، مضبوط خارجہ پالیسی ان کے بس کی بات نہیں ہے، انڈین اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی دشمن ہے، دشمن کی شناخت میں پس و پیش تشویشناک امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے، وطن عزیز میں کرپشن اور فساد کو روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ سیاستدان دن بدن امیر اور پاکستان غریب ہوتا جا رہا رہے۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے درست سمت میں کام کیا تو یہ ملک سے کرپشن کے خاتمہ کا نقطہ آغاز ہوگا، تاجر طبقے نے ملکی سیاست پر قبضہ جمایا ہوا ہے، جن کے اپنے مفادات ہیں۔

ایم ڈبلیو ایم نے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عوام کو تقسیم ہونے کی بجائے قوم بننے کی ضرورت ہے، خطے کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ امریکہ اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے مختلف ممالک میں انتشار پیدا کر رہا ہے، سعودی عرب مشرق وسطٰی میں تفرقہ پھیلا رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ ملکر مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ عرب ممالک سے پیسے بٹورنا چاہتا ہے جبکہ عرب ممالک بےوقوف بن کر اس کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں، اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ یمن میں بےگناہوں پر تین سال سے جنگ مسلط کی گئی ہے، ہزاروں لوگوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ عرب کے ہاتھوں عرب اور مسلمان کے ہاتھوں مسلمان مر رہے ہیں۔ علامہ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے حواری مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں۔

وحدت نیوز(ڈی جی خان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری تنظیم سازی سید عدیل عباس زیدی نے کہا ہے کہ آل سعود اپنی سازشوں کے پے در پے ناکامیوں کے بعد بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں، پاکستان کے غیور شیعہ، سنی عوام کسی صورت پاکستان کو امام زمانہ (ع) کے دشمن سفیانی لشکر میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل کوٹ چھٹہ میں خیر العمل فاونڈیشن کی جانب سے دی جانے والے افطار ڈنر کے موقع پر علاقہ عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم ضلع ڈی جی خان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید انعام حیدر زیدی بھی موجود تھے۔

 عدیل عباس زیدی کا کہنا تھا کہ یہ اعزاز مجلس وحدت مسلمین کو حاصل ہوا ہے کہ اس کی اعلیٰ قیادت نے جنرل راحیل شریف کے سعودی فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی مخالفت کی اور آج تمام ملکی سنجیدہ حلقہ یہ ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پاکستان کو کسی طور پر بھی سعودی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہئے، آج صورتحال یہ پیدا ہوچکی ہے کہ راحیل شریف واپسی کا محفوظ راستہ ڈھونڈنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کو پنجاب حکومت نے یکسر نظرانداز کیا ہے، ڈیرہ غازی خان کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں لوگوں کو پینے کا میٹھا پانی بھی دستیاب نہیں جبکہ حکمران غیر ضروری پراجیکٹس پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔

فزت و رب الکعبہ

وحدت نیوز(آرٹیکل)  ایک آواز،ایک پکار،ایک ندا اب بھی فضا میں گونج رہی ہے اوروہ آواز ہے ایک ایسی ہستی کا جس نے انسانیت کو عدل کا تعارف کرایا۔وہ ہستی جس نے عدل کے موضوع کو جلا بخشی،وہ ہستی جس نے عدل کے حقیقی مفہوم کو مجسم کر کے سب کو  سمجھا دیا ،وہ ہستی جس نے ظالم کے ظلم  کرنے سے پہلے اسے ظالم نہیں کہا،وہ ہستی جس کے شہید ہونے کی وجہ سے شاعر نے اس طرح بیان کی: قتل فی محرابہ لشدۃ عدلہ ۔ آپ اپنے انتہائی عدل کی وجہ سے محراب میں شہید کر دئے گئے۔

یہ آواز اب بھی فضاوں میں گونج رہی ہے ۔یہ آواز انیس رمضان المبارک کو مسجد کوفہ سے بلند ہوئی اورآج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ گونج رہی ہے۔وہ آواز یہ تھی فزت و رب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا۔یہ اس سورما کے الفاظ ہیں جس نے بدر و احد میں لشکر اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا ،جس نے جنگ خندق کے دن کل ایمان کی شکل میں کل کفر عمرو بن عبدود کو واصل جہنم کر کے اسلام کو ایک اورفتح سے سرفراز کیا،جس نے در خیبر کو اکھاڑا  اورمرحب و عنتر کو خاک وخون میں ملا کر فتح خیبر کی زرین تاریخ رقم کی،جس کی تلوار نے ہر معرکہ میں دین حق کی وہ لاج رکھی کہ اس کا ثانی کوئی نہیں بن سکا۔لیکن عجیب بات ہے کہ کہیں اس نے یہ جملہ نہیں کہا اور یہ منفرد نعرہ نہیں لگایا جو آج اپنے ہی خون میں غلطاں ہونے پر لگا رہا ہے۔اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اس کی نظر میں حقیقی کامیابی صراط مستقیم پر حاصل ہونے والی موت ہے  نہ کہ فتوحات اور ملک گیری۔

ہاں یہ اس کی آواز ہے جس کا زچہ خانہ کعبہ بنا  اوریہ ولادت اس مولود اور اس کے والدین کی طہارت و پاکیزگی کی دلیل بنی۔وہ اب ایک دفعہ پھر خدا کے گھر میں اس کا مہمان ٹھہرا ہے تا کہ واپسی  کاسفر بھی اللہ کے گھر سے ہی شروع کرے۔آج علی ابن ابی طالب  علیہ السلام اپنے اس حسن ختام پر کامیابی کا نعرہ لگا رہے ہیں اورپوری انسانیت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو حقیقی کامیابی کا معیار راہ حق میں مرنا ہے۔یہاں ہم  انسان کامل علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی فضیلت بیان اور رقم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسے ہم جیسے ناقص انسان بیان اوررقم نہیں کر سکتے ۔

کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست
 کہ تر کنم سر انگشت و صفحہ بشمارم

یعنی فضائل علی ابن ابی طالب کی صفحہ شماری کے لئے انگی تر کرتے کرتے سمندر ختم ہو سکتے ہیں لیکن علی کی فضیلت ختم نہیں ہو سکتی۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام  انسان کامل ہیں ۔علی جب دنیا میں تشریف لائے تو مدینۃ العلم نے اس  نومولود کو اپنی زبان مبارک چوسائی اور اسے باب العلم  قرار دیا ۔رسول خدا نے فرمایا: انا مدینۃ العلم و علی بابہا ،نیز فرمایا: یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی، اے علی آپ کو مجھ سے وہی نسبت حاصل ہے جو ہارون کو موسی سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔علی ابن طالب علیہ السلام نے پیغمبر خدا کے حکم پر دعوت ذوا لعشیرہ میں سب سے پہلے لبیک کہی تو رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی ،وزیر اور خلیفہ قرار دیا لیکن آپ نے فزت اور کامیابی کا نعرہ نہیں لگایا۔اسی طرح ایسے ایسے واقعات پیش آئے جو اسلام کو سرے سے ختم کر سکتے تھے لیکن علی نے نہایت بہادری سے نہ صرف رسول خدا کو بلکہ اسلام کو  بچا لیا اور سفینہ اسلام کو ساحل تک پہنچا دیا لیکن  پھرکبھی کامیابی کا دعوی نہیں کیا۔جب واقعہ مواخات میں رسول خدا نے آپ کو اپنا بھائی بنایا اس وقت بھی آپ نے کامیابی کا دعوی نہیں کیا اسی طرح جب وسیع و عریض اسلامی مملکت کا قتدار آپ کے ہاتھوں آیا اورخلیفۃ المسلمین کہلائے تب بھی آپ نےکامیابی کا دعوی نہیں کیا لیکن جب انیس رمضان المبارک کو ابن ملجم کے ہاتھوں جان لیوا ضربت کھائے تب علی ابن ابی طالب  علیہ السلام نے کامیاب ہونے کی قسم کھائی۔

ایک غیر مسلم دانشور کے بقول: علی ابن ابی طالب واقعی مظلوم ہیں کیونکہ ان کے فضائل ان کے دوستوں اور دشمنوں دونوں نے چھپا رکھیں۔دوستوں  نے دشمنوں کے  خوف  سےجب کہ دشمنوں نے حسد اور کینہ کے باعث۔

علی ابن ابی طالب کی پرورش خاتم الرسل نے خود کی تھی ۔رسول خدا آپ کو ہمیشہ اپنے پاس رکھتے اپنے سینے سے لگاتے اور اپنے منہ سے غذا چپا کر لقمے کھلاتے تھے۔ہر روز ان کو علم کا ایک نیا باب سکھاتے اورعلی ابن ابی طالب ان پر عمل کرتے تھے۔

عرب کے اس ماحول میں جہاں انسانیت اورشرافت نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور بھائی بھائی کا گلہ کاٹتا تھا،ایک آواز ابھری ۔یہ ہمارے نبی کی آواز تھی ۔وہ لوگوں کو بت پرستی چھوڑنے اوراسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔جاہل اوراحمق عربوں نےا پنے دل کے کان بند کر رکھے تھے لیکن یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے آپ کی تصدیق کی اور سب سے پہلے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔

کفار  قریش نے جب شب ہجرت شمع رسالت کو گل کرنے کی ناکام کوشش کی تو فرزند ابو طالب  ہی تھے جنہوں نے جان خطرے میں ڈال کر شمع رسالت کو بچا لیا۔یہ جان نثاری خالق الہی کو اتنی پسند آئی کہ آپ کی شان میں یہ آیت نازل کی: و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔۔۔۔ یعنی کچھ لوگ ایسے  بھی ہے جو خدا کی خشنودی کے لئے اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں ۔آپ کی صرف ایک وار کے متعلق رسول خدا نے فرمایا تھا: خندق کے دن علی کی ایک وار تمام جن و انس کی عبادت سے بہتر ہے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اگرچہ اپنے عدل کی وجہ سے شہید کئے گئے لیکن آج وہ اپنے عدل کی ہی وجہ سے زندہ و پائندہ ہے ۔جب تک دنیا میں عدل و انصاف  کا نام رہے گا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر بھی تابندہ رہے گا۔ایک دفعہ کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کنے لگے: آپ بڑے لوگوں کو بیت المال سے بڑا حصہ دیا کریں اگر ایسا نہ ہوا تو وہ آپ کے دشمنوں سے جاملیں گے۔ آپ نے فرمایا: ہمیں چاہئے کہ ہم حق و انصاف کا ساتھ دیں اورلوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنااطرف دار نہ بنائیں ۔یہ بات تھی کہ رسول خدا نے فرمایا :علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ۔حق و انصاف کے اسوہ کامل کا  یہ جملہ عدل علی کی تصویر کشی کے لئے کافی ہے:اگر تم کہو کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں اور اس کے بدلے سارے دنیا میری قدموں میں ڈال دو تب بھی میں ایسا کرنے سے انکار کر دوں گا۔

محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ  کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے۔اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا  سکتا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں  پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما}اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے  ۔
جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے  اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئک ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ}۔

حق  اورعدل و انصاف کے معاملہ میں آپ کی سخت گیری کے سبب  سے جاہل،تنگ نظراورمفاد پرست لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔جہل و عناد اورتنگ نظری کی شیطانی تلوار انیس رمضان المبارک چالیس ہجری کو نیام سے نکلی۔تنگ نظر دہشت گرد نے لا حکم لالا للہ کا نعرہ لگا کر مسجد کوفہ کو نفس رسول خدا کے خون سے رنگین کر دیا۔یہ دہشت گرد بھی علی ابن ابی طالب کو مسجد میں اورحالت سجدہ میں مار کر خدا کی رضا مندی مول لینا چاہتا تھا ۔عجیب بات ہے کہ آج کے دہشت گرد اورتکفیری گروہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں جس کی ابتدا ابن ملجم نے چالیس ہجری میں  کی تھی۔وہ علی جس ایک ضربت بقول رسول خدا ثقلین کی عبادت سے بہتر تھی آج اشقی الاولین و الاخرین کی زہر آلود تلوار کی ضربت سے لہولہاں تھے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب کل ایمان کی زبان سے  یہ نعرہ بلند ہوا فزت و رب الکعبہ۔۔۔

پورے کوفہ میں اس حملے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔وہ علی جس کی زندگی کا ہر لمحہ کافروں اور منافقوں کا مقابلہ کرنے اوراسلام کا پرچم سر بلند رکھنے میں  گزرا تھا اب لمزور جسم لیکن روح کی طاقت کے ساتھ بستر شہادت پر آرام کر رہے تھے۔اصحاب علی بے چین تھے لیکن علی ابن   ابی طالب علیہ السلام پر سکون۔آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے: میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو، سنت رسول خدا پر عمل کرو اورامر بالمعروف اورنہی از منکر کو ترک نہ کرو ورنہ ظالم لوگ تم پر مسلط ہو جائیں گے۔اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: قاتل پر صرف ایک وار کرنا۔جب آپ کے لئے دودھ لایا گیا تو اسے قاتل کو پلانے کا حکم دیا۔

امام کی شہادت کے بعد عدی بن حاتم نے آپ کی اس طرح سے تعریف کی: علی بڑے دانا،بینا،بہت طاقتور اورنڈر تھے۔وہ حق بات کہتے اورصحیح فیصلہ دیتے تھے۔وہ حق و دانائی کا سر چشمہ تھے،وہ دنیا کی رنگینیوں سے دور رہتے تھے،وہ راتوں کو جاگتے اور تنہائی میں اپنا محاسبہ کرتے تھے۔وہ سادہ زندگی کو پسند کرتے تھے وہ ہمارے درمیان ہماری طرح رہتے لیکن اس کے دبدبے کا عالم یہ تھا کہ ہم ان سے انکھ نہیں ملا سکتے تھے۔جب وہ مسکراتے تھے تو ان کی
دانت موتی کی طرح چمکتے تھے ۔وہ دیانت داروں اور پرہیزگاروں کی عزت کرتے،محتاجوں ، غریبوں اور یتیموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے تھے۔نہ طاقتور کو ان کی طرف سے دھڑکا لگا رہتا ،اورنہ کمزور ان کے انصاف سے نامید ہوتے تھے۔

علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی منزلت کا ذکر اس شخص کی زبانی سنے جس نے امیر شام کی خصوصی فرمایش پر اپنی جان کی امان لے کر علی کی فضائل بیان کئے۔یہ ضرار نامی شخص ہے جو امیر شام اوردرباریوں کے سامنے کہتا ہے : علی ایسا شخص تھا جس کے ارادے بلند ، قوی اور مضبوط تھے۔اس کی پہلووں سے علم کے چشمے پھوٹتے تھے۔اس کی زبان پر حکمت کا پہرہ تھا۔وہ دنیا اور اس کی بہاروں اورلذتوں سے غیر مانوس تھے۔خوف خدا سے آنسو بہاتے  تھے۔ضرارکہتا ہے خدا کی قسم میں نے بعض حالات میں دیکھا ہے کہ رات کی تاریکی میں علی محراب عبادت میں اپنی ریش کو پکڑتے ہوئے سانپ کے ڈسے ہوئے کی مانند تڑپ رہے ہیں اور اس طرح رو رہے ہیں جس طرح کوئی غم کا  مارا۔ضرار فضائل بیان کرتا گیا یہاں تک کہ امیر شام سمیت تمام دربار اس حقیقت بیانی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اوران کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔

علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک خطیب،ایک عالم ،ایک مومن، ایک مفتی،ایک عادل ،ایک قاضی ،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئ۔

 

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree