وحدت نیوز(آرٹیکل) ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے، دنیا میں ہر جگہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں دشمن کا دوست ہمارا بھی دوست ہوتا ہے، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے،  بھارت ہمارے پہلو سے اٹھا اوراس نے  عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب پر کمندیں ڈال لیں،  نہرو کے زمانے سے لے کر آج تک، بھارت سعودی عرب کو مسلسل  اپنے جال میں پھنساتا گیا اور ہم سعودی عرب کی دوستی  کے جال میں جکڑتے گئے۔ ہمارے  حکمرانوں نے  کبھی ٹھہرکر یہ دیکھا ہی نہیں کہ ہم کن راہوں پر چل رہے ہیں!

جماعت الدعوۃ نامی تنظیم کے سربراہ حافظ محمد سعید اور ان کے چار قریبی ساتھیوں کی نظر بندی  کو  ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے،  یہ پابندی بھارت کی ضرورت تھی جو وہ براہ راست نہیں لگوا سکتا تھا ، یہ پابندی سعودی عرب کے ساتھ بھارت کے   ان معائدوں کا نتیجہ ہے جن کی رو سے ۲۰۱۲ میں سعودی عرب نے  سید ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو ملک بدر کر کے بھارت کے حوالے کردیا تھا۔  یاد رہے کہ بھارت  نے ابوجندل کو  ۲۰۰۸ کے بمبئی حملوں اور  بعد ازاں پونا میں ہونے والے دھماکوں  کا ماسٹر مائنڈ  اور دیگر متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

بعد ازاں  چند سالوں کے اندر سعودی اور بھارتی ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے  سے  سعودی حکومت نے محمد اسداللہ خان عرف ابو سفیان،  اور  محمد عبدالعزیز کو بھی  گرفتار کیا تھا۔  قابل ذکر ہے کہ مذکورہ افراد کئی سالوں سے بھارت کو مطلوب تھے۔ بھارت کو مطلوب افراد میں سے ایک بڑا نام حافظ سعید صاحب کا ہے جن  کو ہماری سعودی نواز حکومت نے  پاکستان میں ہی نظر بند کر دیا ہے۔

ہمارے حکمرانوں نے بھارت کا دیرینہ مطالبہ تو پورا کردیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس سے  تحریک آزادی کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور دہشت گردوں کو کیا پیغام پہنچے گا!؟

دہشت گرد اچھی طرح جان چکے ہیں حکومت کی طرف سے ان پر کوئی دباو نہیں، کسی کو فیس بک پیجز  سے اٹھا کر سزا دی جاتی ہے اور کسی کو کشمیر کاز پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے،  لیکن خود دہشت گرد چونکہ  بھارت کے بجائے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں اس لئے ان کے لئے کسی قسم کی نظر بندی نہیں ہے۔

اس وقت   تقریباً پچیس لاکھ بھارتی  باشندےسعودی عرب میں  اور ستر لاکھ دیگر خلیجی ممالک میں  مشغول کار ہیں۔ سعودی عرب کے لئے ایشا کی منڈی میں بھارت سے بڑی مارکیٹ کوئی اور نہیں چنانچہ   سعودی آرامکو جو کہ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ہے، اس نے  بھارتی آئل ریفائنریوں میں  بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

اس وقت بھارت اور سعودی عرب کے تعلقات فقط اقتصاد اور مشیشت تک محدود نہیں ہیں بلکہ    ان کے تعلقات کا دائرہ پالیسی افئیرز تک پھیل چکا ہے۔ بھارت سعودی پالیسیسز  کے اشتراک کی وجہ سے اب بھارت براہ راست بھی ہمارے حکمرانوں کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے ، جیسا کہ  نریندر مودی کے قریبی دوست سجن جندال نے  وزیراعظم سے  مری میں خفیہ ملاقات کی۔

دوسری طرف  ہماری موجودہ حکومت نے سینٹ کو اعتماد  میں لئے بغیر جنر ل راحیل شریف کو سعودی اتحاد کی کمان سنبھالنے کے لئے بھیج دیا۔ بھیجنا تو آسان تھا لیکن  اس وقت سعودی اتحاد کا یہ حال ہے کہ    خود وزیراعظم نواز شریف سعودی قیادت سے ملاقات کر کے ان کے باہمی اختلافات کو حل کرنے کے چکر میں ہیں۔ اس موقع پر  سیانے کہتے ہیں کہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔

ہماری سعودی عرب کے نزدیک کیا اہمیت ہے،  اس کا اندازہ ،ریاض کانفرنس میں ہی سب کو ہوچکا ہے۔ البتہ یہ دورہ خلیجی ممالک کے اختلافات سے ہٹ کر بھی ،   اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ریاض  کانفرنس میں   ہونے والی بے عزتی کو دھویا جاسکے اور عوام کو یہ کہا جا سکے  کہ دیکھو! دیکھو!  اب کی بار تو ہمیں  اچھی طرح لفٹ کرائی گئی ہے۔

اسلامی اتحاد کی آڑ میں  جنرل راحیل کو  سعودی عرب کی بارگاہ میں پیش کرنے والے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس اتحاد کے نزدیک اب تو قطر بھی دہشت گرد ہے۔ یعنی جو بھی اسرائیل اور امریکہ کی غلامی سے انکار کرے وہ اس سعودی  اتحاد کی نگاہ میں دہشت گرد ہے اوراس کا سارا منفی  کریڈٹ پاکستان کو جا رہا ہے  چونکہ اس شرمناک اتحاد کی کمان ایک  پاکستانی ریٹائڑڈ جنرل کے پاس ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے  ایٹمی قوت ہونے اور پاکستان کی  بہادرآرمی کی وجہ سے پاکستان کا پوری دنیا میں ایک وقار تھا جو نا اہل حکمرانوں نے اس سعودی اتحاد پر قربان کردیا ۔

 اس وقت سعودی عرب کی حالت یہ ہے کہ  آج  سعودی عرب کی حکومت نے قطری حمایت یافتہ عالم دین یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر سعودی عرب میں مکمل طورپر پابندی عاید کردی ہے۔  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر قرضاوی کا کیا قصور ہے ؟ کیا قرضاوی  اب نعوذ باللہ کافر ہو گئے ہیں؟ کیا  کسی ملک کی مخالفت یا حمایت سے علما کا علم اور دین  بھی تبدیل ہوجاتاہے ؟

 یہ پابندی سراسر ،  ایک بزرگ  عالم دین اور علم دین کی توہین ہے۔  آخر ملکی و قومی  تعصب کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ،  عرب ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کے وزیر تعلیم احمد بن محمد العیسیٰ نے تصدیق کی ہے کہ  معروف مصری  عالم دین  یوسف القرضاوی کی تمام کتب پر پابندی  لگا دی گئی ہے  اور اسکولوں اور جامعات کے نصاب سے ان کی تمام کتابیں  نکال دی گئی ہیں۔  نیز اس کے بعد ان کی کتب کی سعودی عرب میں طباعت و اشاعت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

یہ کونسا اسلام ہے؟ کل تک  ایک عالم دین کی  کتابیں سعودی عرب کے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل تھیں ۔ آج سعودی وزارت تعلیم  کی طرف سے  ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے جس میں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یوسف القرضاوی کی کتب کو نصاب سے نکالیں اور لائبریریوں میں موجود ان کی کتب کو وہاں سے ہٹایا جائے۔

ممالک کے درمیان اختلافات ہوتے رہتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی سعودی عرب کی مخالفت کرے تو وہ اسلامی اتحاد سے بھی نکلے گا اور اسلام سے بھی نکل جائے گا۔

پاکستان کی موجودہ نااہل اور کرپٹ حکومت ، ایک طرف سے قطری خطوط کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب کی کھودی ہوئی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔

ایسے میں پوری پاکستانی عوام اور پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ لاتعلق ہو کر نہ بیٹھیں اور  اس ملک کو حکمرانوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے سے روکیں،  موجودہ  صورتحال   میں بین الاقوامی سطح پر عالمی لیڈروں کے  چہرے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان چہروں کو بحیثیت قوم اچھی طرح پہچان کر اپنی  ملکی و قومی پالیسیاں بنائیں اور حقائق کے مطابق فیصلے کریں۔

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی نے امجد صابری شہید کی برسی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امجد صابری شہید عاشق محمد و آل محمد (ص) اور دنیا میں سبز ہلالی پرچم کے سفیر تھے، امجد صابری قوال نے معاشرے میں صوفیانہ کلام کے زریعے محبت کا پیغام اور اسلام کے حقیقی چہرے کو متعارف کروایا، ان کے خدمات کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں صوفیانہ کلام اور صوفیانہ طرز زندگی اور صوفیانہ افکار کی ترویج کے ذریعے ہی انتہاپسندی کا خاتمہ ممکن ہے، مٹھی بھر تکفیری سوچ کے حامل ملاوں نے پورے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے، طالبان، لشکر جھنگوی، القاعدہ، داعش ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں، آج بھی حکمران اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے انہی منفی سوچ رکھنے والوں کے سامنے بے بس ہیں، ہمارے نااہل حکمرانوں کے سیاسی مفادات اور مصلحت پسندی کے سبب امجد صابری شہید جیسے ہیروز ہم سے جدا ہوئے، ہم ان شاء اللہ شہداء کے وارث ہیں اور شہیدوں کے اس پاکیزہ لہو کو رائیگان نہیں جانے دینگے، ان شاءاللہ امجد صابری شہید و دیگر شہدائے پاکستان کا لہو ملک سے تکفیریت اور انتہا پسندی کے سوچ کے حامل ملک دشمنوں کے خاتمے اور ہلاکت کا سبب بنے گا، صوبائی سیکرٹریٹ میں شہید امجد صابری کیلئے فاتحہ خوانی اور ان کی درجات کی بلندی کیلئے دعائیہ محفل کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) پاکستان کے اندر اسلام کے دو بازوں شیعہ سنی مسالک کو لڑانے کیلئے توہین اور تکفیر والے پیدا کئے گئے اور اس کی آڑ میں دونوں طرف اسلام پسند نظریات رکھنے والے علماء، شخصیات اور عوام کا قتل عام کرایا گیا۔دوسری طرف سے دہشتگردوں کے خلاف ممکنہ مشترکہ عوامی رد عمل کیلئے بعض نام نہاد قوم پرست لبرل پارٹیاں بنا کر دہشتگردوں کو بعض اسلامی ممالک کے پراکسی وار کا نام دیا گیا۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رکن شوری عالی و ممبر بلوچستان اسمبلی ایم پی اے آغا رضا نے ملک میں جاری دہشتگردی اور لبرل ازم کا تذکرہ کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ لبرل طاقتوں نے دنیا پر ناجائز تسلط حاصل کرنے اور کمزور اقوام و ممالک خصوصاً اسلامی ممالک کے وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے شدت پسندی اور انتہا پسند نظریات کا اختراع اور اپنے استعماری منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تکفیریت اور دہشتگردی کو نام نہاد جہاد و اسلامی رنگ دے کر اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سازش کی۔نادان مسلمان جوانوں کو جہاد کے نام پر درندہ صفت بناکر خود مسلمانوں کا قتل عام کرایا گیا۔ تمام لبرل مغربی دنیا نے روس کو افغانستان میں شکست دینے کیلئے وطن عزیز کے اس وقت کے آمر ضیاالحق اور بعض اسلامی ممالک کا استعمال کرکے طالبان کی صورت میں دہشتگرد گروہ بنائے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کے بعد وطن عزیز میں طالبان مخالف اور افغان پالیسی کے مخالف مسالک کو دبانے کی خاطر بے رحم دہشتگرد کاروائیوں کا نشانہ بنایا گیادہشتگردی کے جواز کی خاطر انتہائی خطرناک سٹریٹسٹی اپنائی گئی۔ اسلام کے دو بازوں شیعہ سنی مسالک کو لڑانے کیلئے توہین اور تکفیر والے پیدا کئے گئے اور اس کی آڑ میں دونوں طرف اسلام پسند نظریات رکھنے والے علماء، شخصیات اور عوام کا قتل عام کرایا گیا۔دوسری طرف سے دہشتگردوں کے خلاف ممکنہ مشترکہ عوامی رد عمل کیلئے بعض نام نہاد قوم پرست لبرل پارٹیاں بنا کر دہشتگردوں کو بعض اسلامی ممالک کے پراکسی وار کا نام دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو کنفیوز، دہشتگردوں کی وکالت اور نادیدہ قوتوں کو خوش کرنے کیلئے پراکسی وار کا شوشہ چھوڑا گیا جس کے ذریعے شہیدوں ، زخمیوں اور متاثرہ اقوام کی مظلومیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔آج بھی عالمی لبرل قوتیں اسلامی ممالک میں داعش و دیگر دہشتگرد گروہوں کی سرپرستی کرکے محکوم اقوام کو غلام بنا کر عالمی استعماری واستکباری حکومت قائم کرنے کے منصوبے کو کامیاب بنانے کی کوش کررہے ہیں۔دوسری جانب وطن عزیز السامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل و سیکولر بنانے کے تباہ کن نعرے بلند ہو رہے ہیں۔جو عوامی خواہشات اور آئین کے منافی ہے۔لبرل ازم اور شدت پسندی دونوں ہی وطن عزیز کیلئے نقصان دہ ہیں۔ملک کو تکفیریت کی ضرورت نہ ہی لبرل ازم کی بلکہ وطن عزیز کو معتدل اسلامی جمہوری نظریات کی ضرورت ہے جو نظریہ پاکستان اور عوامی خواہشات سے ہم آہنگ نظریہ ہے۔معتدل اسلامی نظام جمہوری نظریات رکھنے والوں کو سیاسی، سماجی، علمی، اقتصادی غرض تمام میدانوں میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔

وحدت نیوز(لاہور) یوم ولادت امام حسن علیہ السلام پر منعقدہ جشن کی محفل سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ ملازم حسین نقوی نے کہا کہ سیرت حضرت امام حسن علیہ السلام مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ عمل و مشعل راہ ہے،انہوں نے کہا کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت 15رمضان المبارک 3ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ مشہور تاریخ دان جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ آپ کی صورت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت ملتی تھی،حضرت امام حسن علیہ السلام کی پرورش آپ کے والدین اور نانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ ہوئی اور آپ وحی کے نزول کے مرکز میں پروان چڑھے خدا کی عطا کردہ عظمت اور افضلیت کے نور سے ہمیشہ آپ کی سیرت منور رہی،فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام انسانی کمالات میں اپنے والد گرامی کا کامل نمونہ اور اپنے نانا کی نشانی تھے،جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم با حیات رہے اپ اور آپ کے بھائی امام حسین علیہ السلام ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس رہتے تھے،سیرت امام حسن علیہ السلام پر روشنی ڈالتے ہوئے ۔

علامہ ملازم نقوی نے کہا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے امام ہیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آپ کے والد بزرگوار کی خلافت کے بعد آپ کی جانشینی کے بارے میں بھی بہت زیادہ احادیث موجود ہیں،مسلم امہ کو سیرت حضرت امام حسن پر عمل کرتے ہوئے معاشرے سے ناانصافی ،ظلم اور لادینیت کیخلاف قیام کرنا ہوگا،تاکہ اسلام دین محمدیﷺ کے حقیقی نظام سے انسانی معاشرے روشناس کرایا جا سکے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) غیر معیاری تعلیم کے فروغ کی وجہ سے جو افراد قابلیت رکھتے ہیںانہیں انکے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہ صوبے کی ترقی کو روکھنے والا عمل ہے جس سے صوبے میں ترقی کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح سرکاری دفاتر میں نا اہل افراد جگہ پاتے ہیں اور سارا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ سرکاری نظام کے خرابی سے صوبے میں کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی اور دیگر برے افعال میں اضافہ ہوگا، آئیندہ اگر ہم ان چیزوں پر قابو پا لے تو شاید بلوچستان ، پاکستان کا اہم ترین صوبہ بن جائے گا اور وطن عزیز پاکستان کے لئے ترقی کی ایسی راہ ہموار ہوگا جسکی پورے تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے ، پاکستان بالخصوص کوئٹہ شہر کو تعلیم کے شعبے میں ترقی دینا ہمارا شعار ہے۔ان خیالات کااظہار مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل عباس علی نے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہر عام و خاص بالخصوص نوجوان نسل کی ترقی کیلئے ہم شروع ہی سے کوشاں ہیں۔ ہم صوبے بھر میں تعلیم کو عوام الناس کیلئے عام کرنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اچھی اور معیاری تعلیم ہر ایک کے دسترس میں ہو۔ ہمارے نوجوانوں میں تعلیم کے حصول کا ایک غیر معمولی جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے موجودہ نوجوان نسل تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں جو ہمارے مستقبل اور قوم کی ترقی کیلئے ایک نیک شگن ہے۔

انہوں نے وفد سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ غیر معیاری تعلیم کے فروغ کی وجہ سے جو افراد قابلیت رکھتے ہیںانہیں انکے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ یہ صوبے کی ترقی کو روکھنے والا عمل ہے جس سے صوبے میں ترقی کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے اور اسی طرح سرکاری دفاتر میں نا اہل افراد جگہ پاتے ہیں اور سارا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ سرکاری نظام کے خرابی سے صوبے میں کرپشن، بدعنوانی، رشوت ستانی اور دیگر برے افعال میں اضافہ ہوگا، آئیندہ اگر ہم ان چیزوں پر قابو پا لے تو شاید بلوچستان ، پاکستان کا اہم ترین صوبہ بن جائے گا اور وطن عزیز پاکستان کے لئے ترقی کی ایسی راہ ہموار ہوگا جسکی پورے تاریخ میں شاید ہی کوئی مثال ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صوبہ بلوچستان میں میرٹ کی پامالی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور حقدار کی حق تلفی سے ادارے میں مزید خرابیوں کا آغاز ہوگا اور یہی بات کل کو صوبے کی پسماندگی کا باعث بنی گی۔ ایسے اسکولز کے رپورٹ بھی سامنے آئے جن میں تین ،چار اور درجن کے قریب اساتذہ ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں اور ابھی تک ان کی جگہ نئے اساتذہ بھرتی نہیں کیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں اسکولز میں معلم قرآن کا نہ ہونا یا تعینات نہ کیاجانا قابل تشویش ہے۔


     وحدت نیوز(کوئٹہ) صوبے میں اکثر عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد چائلڈ لیبر کا شکار ہے،ان بچوں کو جس عمر میں اسکول میں تعلیم حاصل کرنا چاہئے اور دیگر سرگرمیوں میں مبتلاء ہونا چاہئے اس عمر میں ہمارے بعض بچے مختلف وسائل سے پیسے کمانے کے چکر میں لگے ہوتے ہیں ۔ان خیالات کا ااظہار مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے ڈپٹی سیکرٹیری جنرل کیپٹن حسرت اللہ نے صوبہ بلوچستان میں غربت زدہ افراد کا تذکرہ کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ غربت کے باعث عوام کا معاشرے میں زندگی گزارنا مشکل ہو رہا ہے، مہنگائی کے خلاف حکومت کے اقدامات صرف کاغذی کاروائیوں تک ہی محدود ہیں،صوبے میں اکثر و بیشتر افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، روزگار کے مواقع نہیں اور حکومت اس معاملے پر ساکن ہے، صوبے میں لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد زندگی بسر کرتے ہیں ، ہر فرد کو اسی معاشرے میں زندگی گزارنا ہے اور غربت عوام کی زندگی مشکل بنا رہی ہے۔ گزشتہ کہی سالوں سے سطح غربت میں کوئی خاص کمی نظر نہیں آئی، یوں لگتا ہے جیسے اس مسئلے کے حل کیلئے کوئی کام کیا ہی نہیں گیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ غربت سے دوچار افراد کو صرف پیسے فراہم کرنے سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ مختلف حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے دیئے گئے چند روپیوں کی بدولت غریب افراد صرف چند مہینے یا چند دن ہی سکون سے گزار سکتے ہیں، اس کے بعد انہیں پھر اسی غربت اور اسی پریشانی کا سامنا ہوگا۔صوبے میں ٹیکسس اور کرپشن کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بھی آسمانوں کا سفر طے کر رہی ہے۔ حکومت اعلان کرتی ہے کہ ان اشیاء کے قیمتوں میں کمی کی جائے تاکہ یہ سب عوام کے دسترس تک پہنچ سکے مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ اقدامات کاغذ کے ٹکڑوں سے شروع ہوکر وہی ختم ہو جاتے ہیں اور کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جاتا۔ مہنگائی کے اعتبار سے حکومت کے اقدامات کاغذی کاروائیوں تک ہی محدود ہے۔

انہوں نے کہاکہ صوبے میں اکثر عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد چائلڈ لیبر کا شکار ہے،ان بچوں کو جس عمر میں اسکول میں تعلیم حاصل کرنا چاہئے اور دیگر سرگرمیوں میں مبتلاء ہونا چاہئے اس عمر میں ہمارے بعض بچے مختلف وسائل سے پیسے کمانے کے چکر میں لگے ہوتے ہیں ۔ یہ نہ صرف قوم کے مستقبل کے ساتھ ایک مذاق ہے بلکہ ہمارے ملک کی ترقی کیلئے ایک بڑے خطرے کی علامت ہے۔حکومت کو چاہئے کہ صوبے میں ان تمام افراد کی مدد کرے جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔مختلف اقدامات کے توسط سے ان لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے ۔

 انہوں نے مزید کہا کہ بعض اطلاعات اور دعووں کے مطابق حکومت غربت کے لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کو مہینہ وار پیسہ ادا کرتی ہے اور اس طرح انکی مدد کرتی ہے، اس سے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ حکومت ان لوگوں کیلئے کمائی کا وسیلہ بنائے اور انہیں اس قابل بنائے کہ وہ خود دوسروں کے مدد کے بغیر ہی اپنے اخراجات آپ برداشت کرے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے ملک سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree