The Latest
وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین شعبہ امورِ خارجہ میں دو نئے مسئولین کا اضافہ کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایم ڈبلیو ایم پاکستان شعبہ امورِ خارجہ کے سیکرٹری حجۃ الاسلام ڈاکٹر شفقت شیرازی نے قم المقدس، مشہد مقدس اور اصفہان کے مسئولین کے ایک مشترکہ اجلاس میں شعبہ امورِ خارجہ میں دو نئے مسئولین کو نامزد کیا ہے۔ انہوں نے مختلف شعبہ جات کے مسئولین کے اجلاس سے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا شعبہ امورِ خارجہ اپنے نظریاتی و تنظیمی دوستوں کو صلاحیتوں کے اظہار کیلئے بھرپور مواقع فراہم کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے حجۃ الاسلام مولانا محمد عادل علوی صاحب کو شعبہ امور خارجہ کے مسئول روابط کے طور پر نامزدگی کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس موقع پر قبلہ عادل علوی صاحب کی سابقہ تنظیمی خدمات اور تنظیم کیلئے جدوجہد کو بھی سراہا۔
یاد رہے کہ حجۃ الاسلام عادل علوی صاحب مجلس وحدِت مسلمین شعبہ قم کے سابق مسئول بھی رہ چکے ہیں اور تنظیمی حلقوں میں تمام احباب ان کی خدمات اور خلوص کے معترف ہیں۔ ان کے بعد ایم ڈبلیو ایم شعبہ امورِ خارجہ کے شعبہ ابلاغ (میڈیا) کے مسئول کے طور پر حجة الاسلام مولانا نذر حافی کی نامزدگی کا بھی اعلان کیا۔ آقای نذر حافی کو بھی تنظیمی و نظریاتی حلقوں میں دوست احباب اچھے طریقے سے جانتے ہیں اور وہ بھی مختلف صورتوں میں اس سے پہلے شعبہ قم میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ شرکاء نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور دعا کی کہ خداوند عالم مذکورہ بالا مسئولین کو کامیابی نصیب فرمائے۔
وحدت نیوز(کراچی)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ جس معاشرے میں عدالت نہ ہو وہ معاشرہ خوشحالی کے باوجود بدحالی کا شکار ہوجاتا ہے اور اچھی سے اچھی قوم تباہی سے دوچار ہو جاتی ہے آج ہم مارشل لاء سے بھی زیادہ سخت دور کا سامنا کر رہے ہیں۔ کراچی میں عہدیداران کی تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی عدل و انصاف کے لئے ترس رہا ہے، کرپشن نے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکلا کردیا ہے، عدالتیں غریبوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں، طاقتور اپنی مرضی کے فیصلے کروالیتے ہیں۔
علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اسی عدالت کے قیام کی راہ میں شہید ہوگئے، اسلام کی بنیاد عدالت پر ہے، اگر حکمران طبقہ عدالتوں کو اپنے اقتدار بچانے اور مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال کرے تو معاشرہ آگے بڑھنے کے بجائے زوال کا شکار ہو جاتا ہے، پاکستان میں گزشتہ 75 سالوں کی یہی داستان ہے کہ طاقتوروں کو ان کی مرضی کا انصاف مل جاتا ہے اور غریب آدمی کو اس کا حق بھی نہیں ملتا۔ اس موقع پر علامہ صادق جعفری، رضی رضوی، زین رضوی سمیت دیگر ذمہ داران موجود تھے۔
وحدت نیوز(جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان اور انجمن حسینیہ خواجگان نارووال کے زیر اہتمام مدرسہ المصطفی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیکب آباد میں متاثرین سیلاب کے مکانات کی تعمیر کے سلسلے میں ایک پر وقار تقریب منعقد ہوئی تقریب میں متاثرین سیلاب بیوہ مستحقین اور سادات شریک ہوئے۔ اس موقع پر گیارہ متاثرین سیلاب کو تعمیر مکان کی پہلی قسط دی گئی جبکہ دو سو مستحقین میں رضائیاں تقسیم کی گئیں۔
تقریب سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تنظیم سازی علامہ مقصود علی ڈومکی ،مجلس علمائے شیعہ کے رہنما علامہ ارشاد علی سولنگی، ایم ڈبلیو ایم بلوچستان کے رہنما سید رضوان علی شمسی ،برادر عبدالرشید ،مولانا عبد الخالق منگی، مولانا منور حسین سولنگی ،حافظ غلام عباس بھٹی نے خطاب کیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ انجمن حسینیہ خواجگان نارووال اور مجلس وحدت مسلمین کے باہمی تعاون سے متاثرین سیلاب کی خدمت اور تعمیرات کا سلسلہ قابل ستائش ہے۔ خدمت خلق اور دکھی انسانیت کی خدمت پر اللہ تعالیٰ کی توفیق پر ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ سیلاب نے ہزاروں گھر اجاڑ دیئے کھڑی فصلیں اور زراعت تباہ ہوئی مگر اہل خیر نے جس ہمت اور خلوص کے ساتھ متاثرین سیلاب کا ساتھ دیا وہ لائق صد تحسین ہے۔ بدقسمتی سے اس مصیبت میں حکومت کہیں نظر نہیں آئی اور حکومتی کارکردگی صفر رہی انہوں نے متاثرین سیلاب کی مدد پر انجمن حسینیہ خواجگان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین روز اول سے اب تک متاثرین سیلاب کے ساتھ رہی اور ہم ان کی مکمل بحالی تک حسب استطاعت ان کی مدد کریں گے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل مجلس وحدت مسلمین بلوچستان اور انجمن حسینیہ خواجگان نارووال کی جانب سے ڈیرہ غازی خان کے سیلاب متاثرہ گھروں کی تعمیر نو کا آغاز بھی کیا جاچکا ہے۔
وحدت نیوز(لاہور) صدر مجلس وحدت مسلمین پنجاب علامہ سید علی اکبر کاظمی نے ہالینڈ کے بعد سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی شدید مذمت کرتے ہوئے آج بعد نماز جمعہ پنجاب بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں کے باہر پر امن احتجاج کی اپیل کی ہے۔
علامہ علی اکبر کاظمی نے کہا کہ عالمی برادری انتہا پسندی کی جانب بڑھتے ہوئے قدم روکے، مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے دین کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔
انہوں نے اپیل کی کہ ملک گیر سطح پر زیادہ سے زیادہ پرامن احتجاج کے ذریعے عالمی برادری پر اپنا اتحاد اور اتفاق ظاہر کیا جائے اور انہیں مجبور کیاجائے کہ وہ مسلمانوں کے مقدسات کی توہین سے باز رہیں ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس علماء شیعہ پاکستان کے مرکزی صدر علامہ سید حسنین گردیزی نے دیگر علمائے کرام کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے مقدس شخصیات کی توہین کے بل پر ملت جعفریہ پاکستان کو شدید تحفظات ہیں جسے ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ہم پرامن لوگ ہیں کسی کے مقدسات کی توہین کو جائز نہیں سمجھتے ہمارے فقہاء کے نزدیک یہ حرام ہے ہم بھی امید کرتے ہیں کہ ہمارے مقدسات وعقائد کا بھی احترام کیا جائے۔ مقدس شخصیات کی توہین کے حوالے سے منظور کیا گیا بل پہلے بھی موجود تھا لیکن کیا وجہ بنی کہ اسے پھر ترمیم کر کے پاس کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ متنازعہ بل کو اسمبلی میں پیش کرنے اور منظور کروانے کا طریقہ کار ہی سرے سے Bad intention پر مبنی ہے جس کی تصدیق پیش کرنے والے رکن نے چینل پر یہ کہا کہ ہم تو اسے مخفی رکھنا چاہتے تھے۔اس بل کی نوعیت مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر ہے تو اسلامی مکاتب فکر کو کیوں اعتماد نہیں لیا گیا اور اسلامی نظریاتی کونسل و ملی یکجہتی کونسل میں پیش کر کے بحث کیوں نہیں ہوئی جبکہ جماعت اسلامی کے تو دیگر مکاتب فکر سے گہرے روابط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں اسے منظور کروانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، جونہی موجودہ حکومت آئی اس بل کو اپوزیشن بنچوں سے خالی معذور اسمبلی سے منظور کر لیا گیا۔ ہوتا تو یہ کہ فوجداری ترمیمی بل کے ماضی میں استعمال کو دیکھا جاتا کہ اس کا زیادہ استعمال کس کے خلاف ہوا، مسلمانوں کے یا غیر مسلم کے خلاف، میرٹ پر یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر؟اور اگر کسی بے گناہ شہری پر توہین کا غلط الزام لگے, تو الزام لگانے والے پر بھی کوئی حد مقرر ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس متنازعہ ترمیمی بل کو منظور کروانے میں تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں ذمہ دار ہیں کیونکہ کسی نے بھی منظور ہوتے وقت اس پر نقطہ اعتراض نہیں اٹھایا، نہ بحث ہوئی کالعدم جماعتوں کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بل ہم نے جماعت اسلامی کو دیا ہے، گزشتہ تیس سالوں میں جسے کالعدم جماعتیں منظور نہ کر سکیں، یہ کام جماعت اسلامی کے کندھے استعمال کرتے ہوئے کیا گیا، لہذا جماعت اسلامی بھی زیر سوال ہے۔ اس بل کا زیادہ تر شکار مسلمان ہی ہوئے ہیں اور اگر اس بل کی اصلاح نہ کی گئی تو یہ تعصب کی آگ میں بھڑکے ہوئے متشدد تکفیری گروہ کے ہاتھوں میں آگ دینے کے مترادف ہوگا جس کی زد میں کئی معصوم لوگ آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ توہین رسالت ص کے قانون کا استعمال اپنے ذاتی عناد کے تحت ہوا اور بے گناہ لوگوں کی جانیں لی گئیں جبکہ غلط استعمال کرنے والے کے خلاف کسی قسم کی کیپیٹل سزا کا تعین نہیں کیا گیا حالانکہ اس میں اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نام پر غلط الزام لگا کر کسی کی زندگی لینے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی سزا تو دوگنا ہو۔صحابی کی بھی تعریف کی جائے،توہین کی جامع و مانع تعریف کی جائے۔ کیا علم و ادب کے دائرے میں تاریخی حقائق لکھنا و بیان کرنا اور تجزیہ و تحلیل کرنا توہین ہے یا نہیں یا پھر غیر علمی و غیر مودّبانہ گالی گلوچ کو توہین کہتے ہیں۔؟
انہوں نے کہا کہ اسی طرح صحابہ کرام کی تعریف میں بھی مشخص کیا جائے، رسول اکرمؐ، اُن کے والدینِ گرامی اور اُن کے چچا حضرت ابو طالبؑ کی توہین کی سزا کو شامل کیا جائے۔ رسول خداؐ کو نعوذ باللہ کوئی گنہگار اور فاسق انسان اگر اپنے جیسا کہے اور لکھے تو یہ سرورِ دو عالم کی توہین ہے، اس طرح سرکار کے عظیم الشّان والدین کو اور عظیم محسن و چچا حضرت ابو طالبؑ ع کو نعوذ باللہ اگر کوئی مشرک و کافر جیسی گالیاں لکھے یا کہے تو اُسے بھی توہینِ پیغمبرؐ کی پاداش میں سزا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ بل کی منظوری پر زیادہ تکفیری گروہ خوش ہیں جس سے صاف ظاہر ہے انکے اہداف اور مقاصد خطرناک ہیں لہذا ریاست میں مسلکی بنیادوں پر قانون سازی ہرگز قبول نہیں کیونکہ معاشرے پر اس کے انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ سزا کے قوانین بنانے سے کوئی بھی جرم نہیں رکتا بلکہ قانون کی بالادستی اور سختی سے عملداری سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ورنہ قتل کی سزا متعین ہونے کے باوجود بھی قتل نہیں رکے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں تین دن کے اندر دوسرے جوان کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کیا گیا۔
لہذا سینیٹ اس متنازعہ ترمیمی بل کو مسترد کرے اور تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کی آراء کی روشنی میں ترامیم کر کے قومی اسمبلی کے فل کورم سیشن میں پیش کرتے ہوئے اس پر سنجیدہ بحث کی جائے اور متفقہ طور پر اسے آگے بڑھایا جائے، اس شکل میں یہ بل کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے اور ہم اسے نہ صرف مسترد کرتے ہیں بلکہ پورے ملک میں احتجاج کا پلان بھی رکھتے ہیں۔
وحدت نیوز(ڈیرہ اسماعیل خان)ایک ہفتے کےدوران ایک ہی خاندان سے دوسرے شیعہ نوجوان کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ڈی آئی خان میں لواحقینِ شہداء کی جانب سے جاری دھرنے کا دوسرا روز ڈی آئی خان کے مختلف مقامات پر مومنین و مومنات کی جانب سے دھرنے دئیے گئے ہیں۔
اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ خیبر پختون خواہ کے صدر علامہ جہانزیب جعفری اور صوبائی جنرل سیکرٹری برادر شبیر ساجدی ضلعی صدر مولانا سید غضنفر نقوی سمیت دیگر مقامی علماء کرام نے بھی دھرنے میں شرکت کی اور خانوادہ شہداء سے اظہار یکجہتی کیا۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز تحصیل پروا میں عامر عباس بلوچ کو دن دہاڑے تکفیری دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا، جبکہ چند روز قبل ہی عامر کے کزن ثقلین عباس کوبھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
آخری اطلاعات آنے تک خانوادہ شہداء نےتحصیل پروا میں دو روز سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے، دھرنا کمیٹی کے انتظامیہ کیساتھ مزاکرات کامیاب ہوگئے ہیں ، شرکا نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا، انڈس ہائیوے روڈ ٹریفک کیلے کھول دیا گیا، پاک فوج کے کرنل ملک شعیب، ڈپٹی کمشنر ڈیرہ قیصر خان، ڈی پی او ڈیرہ شعیب خان نے دھرنا کمیٹی کیساتھ مزاکرات کیئے اور کمیٹی کے تمام مطالبات تسلیم کر لیئے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری سید ناصرعباس شیرازی ایڈوکیٹ نے اپنے ایک مذمتی بیان میں کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروا میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں شہید ہونے والے عامر عباس بلوچ کی مظلومانہ شہادت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور خانوادہ گرامی سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ۔
انہوں نے حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات تشویشناک ہیں جسے ہر صورت روکا جائے اور ملوث قاتلوں کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ ہم اس بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے شرکاء کے ساتھ ہیں اور صوبائی مسؤلین سے کہہ دیا ہے کہ وہ بھی اس میں شامل ہوں اور ہر اتوار اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائیں۔
وحدت نیوز(مقالہ) مقدمہ:سیرت امام علی النقی علیہ السلام کے درخشاں پہلوؤں میں سے دو اہم پہلو آپکا نظام وکالت اور مختلف ممالک میں تشیع سے رابطہ ہے ہم ذیل میں ان دو اہم پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
نظام وکالت:
اگرچہ آئمۂ شیعہ کا آخری دور عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا لیکن اس کے باوجود اسی دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے۔ عراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعوں اور امام نقی ؑکے درمیان رابطہ برقرار تھا۔ وکالت کا نظام اس رابطے کے قیام، دوام اور استحکام کی وجہ تھا۔ وکلا ایک طرف سے خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے تھے اور دوسری طرف سے لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے اور اپنے علاقوں میں اگلے امام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔
ڈاکٹر جاسم حسین کے بقول: تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وکلا کے تعین کے لئے مطلوبہ شہروں کو چار علاقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا:
بغداد، مدائن، سواد اور کوفہ؛
بصرہ اور اہواز؛
قم اور ہمدان؛
حجاز، یمن اور مصر۔
آئمہ کے وکلا قابل اعتماد افراد کے توسط سے خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ ان بزرگواروں کے فقہی اور کلامی معارف کا ایک بڑا حصہ خطوط و مکاتیب کے ذریعے ان کے پیروکاروں تک پہنچتا تھا۔
امام ہادی ؑ کے وکلا میں سے ایک علی بن جعفر تھے جن کا تعلق بغداد کے قریبی گاؤں ہمینیا سے تھا۔
ان کے بارے میں متوکل کو بعض خبریں ملیں جن کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے تک قید و بند میں رکھا گیا اور رہائی کے بعد امام ہادیؑ کی ہدایت پر وہ مکہ چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں سکونت پذیر رہے
حسن بن عبد ربہ یا بعض روایات کے مطابق ان کے فرزند علی بن حسن بن عبد ربہ بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے جن کے بعد امام ہادیؑ نے ان کا جانشین ابو علی بن راشد کو مقرر کیا۔
اسماعیل بن اسحق نیشاپوری کے بارے میں کشی کی منقولہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ احتمال ہے کہ احمد بن اسحق رازی بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے۔
شیعیانِ ایران
پہلی صدی میں زیادہ تر شیعیان اہل بیتؑ کا تعلق شہر کوفہ سے تھا کیونکہ ان افراد کا کوفی سے ملقب ہونا حقیقت میں ان کے شیعہ ہونے کی علامت تھی۔
امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور سے بعض اصحاب آئمہ کے نام کے ساتھ قمی کا عنوان دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ عرب نژاد اشعری خاندان ہے جس نے قم میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
امام ہادیؑ کے زمانے میں قم شیعیان ایران کا اہم ترین مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کے عوام اور علما اور آئمہؑ کے درمیان گہرا اور قریبی رابطہ پایا جاتا تھا؛ جس قدر شیعیان کوفہ کے درمیان غلو آمیز اعتقادات رائج تھے اسی قدر قم میں اعتدال اور غلو کی مخالف فضا حاکم تھی۔ ایرانی اور قمی شیعیان اس مسئلے میں اعتدال پر اصرار رکھتے اور غلو سے دوری کرتے تھے۔
قم کے ساتھ ساتھ شہر آبہ یا آوہ اور کاشان کے عوام بھی شیعہ معارف و تعلیمات کے زیر اثر اور قم کے شیعہ تفکرات کے تابع تھے۔ بعض روایات میں محمد بن علی کاشانی کا نام مذکور ہے جنہوں نے توحید کے باب میں امام ہادیؑ سے ایک سوال پوچھا تھا۔
قم کے عوام کا امام ہادیؑ سے مالی حوالے سے بھی رابطہ تھا۔ اس حوالے سے محمد بن داؤد قمی اور محمد طلحی کا نام لیا گیا ہے جو قم اور نواحی شہروں کے عوام کا خمس اور ان کے عطیات امامؑ تک پہنچا دیتے تھے اور ان کے فقہی اور کلامی سوالات بھی آپؑ کو منتقل کرتے تھے۔
قم اور آوہ کے عوام امام رضاؑ کے مرقد منور کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر اختیار کرتے اور امام ہادیؑ نے انہیں اسی بنا پر "مغفور لہم" کی صفت سے نوازا ہے۔
ایران کے دوسرے شہروں کے عوام کا رابطہ بھی آئمہؑ کے ساتھ برقرار رہتا تھا؛ حالانکہ امویوں اور عباسیوں کے قہر آمیز غلبے کی وجہ سے ایرانیوں کی اکثریت کا رجحان سنی مسلک کی جانب تھا اور شیعہ اقلیت سمجھے جاتے تھے۔
امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ابو مقاتل دیلمی نے امامت کے موضوع پر حدیث اور کلام پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی۔[دیلم دوسری صدی ہجری کے اواخر سے بہت سے شیعیان اہل بیتؑ کا مسکن و ماوٰی تھا؛ علاوہ ازیں عراق میں سکونت پذیر دیلمی بھی مذہب تشیع اختیار کر چکے تھے۔
امام ہادیؑ کے اصحاب کی مقامی نسبتوں کو واضح کرنے والے شہری القاب کسی حد تک شیعہ مراکز اور مساکن کی علامت بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں. مثال کے طور پر بشر بن بشار نیشاپوری، فتح بن یزید جرجانی، احمد بن اسحق رازی، حسین بن سعید اہوازی، حمدان بن اسحق خراسانی اور علی بن ابراہیم طالقانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جو ایران کے مختلف شہروں میں سکونت پذیر تھے. جرجان اور نیشاپور چوتھی صدی ہجری میں شیعہ فعالیتوں کی بنا پر شیعہ مراکز میں تبدیل ہوگئے.
بعض دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ہادیؑ کے بعض اصحاب قزوین میں سکونت پذیر تھے۔
اصفہان ـ کہ جن کے متعلق متعصب سنیوں حنبلی ہونے کی خبر معروف تھی اور اس شہر کی اکثریت کا تعلق اہل سنت سے ہی تھاـ میں امام ہادیؑ کے بعض اصحاب سکونت پذیر تھے جن میں سے بطور نمونہ ابراہیم بن شیبہ اصفہانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ اگرچہ کاشانی کے تھے لیکن ظاہرا طویل مدت تک اصفہان میں قیام پذیر ہونے کے وجہ سے اصفہانی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔ اس کا برعکس بھی صحیح ہے جیسا کہ امام ہادیؑ کے ایک صحابی علی بن محمد کاشانی کاشانی کے لقب سے معروف ہوئے اگرچہ انکا تعلق اصفہان سے تھا؛ نیز ایک روایت میں عبد الرحمن نامی شخص کا ذکر آیا ہے جن کا تعلق اصفہان سے تھا۔ وہ سامرا میں امام ہادیؑ کی ایک کرامت دیکھ کر مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے. ہمدان میں امام ہادی علیہ السلام اپنے وکیل کے نام خط پر مشتمل روایت میں آپ اس طرح فرماتے ہیں: میں نے ہمدان میں اپنے دوستوں سے تمہاری سفارش کی ہے۔
منابع و مآخذ:
ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص، قم، لیلی، 1426ہجری.
ابن حجر ہیثمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقہ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقہ، مکتبہالقاہره، بیتا
ابن شہرآشوب، ابی جعفر محمدبن علی بن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، بیروت، دارالاضواء، 1421ہجری.
ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1987عیسوی.
اربلی، ابی الحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، قم، مجمع جہانی اہل بیت، 1426 ہجری..
اشعری قمی، سعدبن عبدالله ابی خلف اشعری قمی، المقالات و الفرق، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1361ہجری شمسی.
خصیبی، حسین بن حمدان خصیبی الہدایہ الکبرای، لبنان، موسسہ بلاغ، 1991عیسوی.
دخیل، علی محمدعلی دخیل، ائمتناسیرةالائمہ اثنی عشر، قم، انتشارات ستار، 1429 ہجری..
سید مرتضی، علی بن حسین بن موسیٰ، مسائل الناصریات، تہران، موسسہ الہدی، 1417 ہجری..
طوسی، محمد بن حسن طوسی، الغیبہ، دارالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1411ہجری..
صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1389ہجری.
صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، عیون اخبارالرضاعلیہ السلام، تہران، نشر جہان، چاپ اول 1378ہجری شمسی.
الطبرسي، الفضل بن الحسن، إعلام الورى بأعلام الہدى، تحقيق مؤسسہ ال البيت لإحياء التراث - قم: الطبعہ: الأولى - ربيع الأول - 1417ہجری.
طوسی، محمد بن حسن طوسی، رجال کشی، قم جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1415ہجری.
طوسی، محمدبن الحسن بن علی، اختیار معرفہ الرجال، مشہد، دانشگاه مشہد، 1348 ہجری شمسی.
عطاردی، عزیزالله، مسند الامام الہادی علیہ السلام، قم: المؤتمر العالمی للامام الرضاؑ، 1410ہجری.
مسعودی، علی بن الحسین بن علی مسعودی، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب، قم، منشورات رضی، بیتا.
مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج4، قم: منشورات دار الہجرة، 1404ہجری قمری/1363ہجری شمسی/1984 عیسوی.
مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، ترجمہ ساعدی خراسانی،تہران، انتشاراتاسلامیہ، 1380 ہجری شمسی.
نوبختی، حسن بن موسی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، ترجمہ محمد جواد مشکور،تہران، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی 1361ہجری شمسی.
جزائري، سيد نعمت الله بن عبد الله موسوي، رياض الأبرار في مناقب الأئمہ الأطہار، مؤسسہ التاريخ العربي، بیروت، 2006 عیسوی.
حسینى عاملى، سید تاج الدین، التتمہ فی تواریخ الأئمہ ؑ، نشر بعثت، قم، چاپ اول، 1412ہجری.
الخطیب البغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق: مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1417ہجری /1997عیسوی.
الصفار، الشیخ ابو جعفر محمد بن الحسن بن فروخ ، بصائر الدرجات ناشر: منشورات مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، الطبعہ: الاولى 2010 عیسوی.
أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي بن محمود بن محمد ابن عمر بن شاہنشاه بن أيوب، الملك المؤيد، صاحب حماة، (المتوفى: 732هـ)، کتاب: المختصر في أخبار البشر، المطبعہ الحسينيہ المصريہ الطبعہ: الأولى.
شوشتری، شہید سید نور اللہ، احقاق الحق.
شيخ صدوق محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، عيون أخبار الرضاؑ، تصحيح و مقدمہ و تعلیق، الشيخ حسين الاعلمي، مؤسسہ الاعلمي للمطبوعات بيروت – 1404ہجری. 1984عیسوی.
شيخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسي، الامالي، تحقيق: قسم - مؤسسہ البعثہ للطباعہ والنشر والتوزيع دار الثقافہ - قم، الطبعہ الاولى: 1414ہجری.
النوري الطبرسي، الحاج ميرزا حسين، مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل، تحقيق موسسہ آل البيت عليهم السلام لاحياء التراث بيروت، الطبعہ الثانية 1308 ہجری 1988عیسوی.
الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي، صححه وقابلہ وعلق عليہ على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميہ ـتہران، طبع سوم، بہار 1367ہجری شمسی.
الديلمي، الشيخ الحسن بن أبي الحسن، أعلام الدين في صفات المؤمنين، المحقق: موسسہ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قم.
ابن شعبہ الحرانى، حسن بن على، "تحف العقول عن آل الرسولؐ"،تصحيح و تعليق، على اكبر الغفاري، جماعہ المدرسين بقم المشرفة (ايران)، الطبعہ الثانيہ 1363ہجری شمسی/1404ہجری قمری.
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
وحدت نیوز(کندھکوٹ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام ملک گیر توسیع تنظیم مہم کے سلسلے میں مختلف اضلاع اور یونٹس میں پروگرام منعقد ہوئے۔ ایم ڈبلیو ایم ضلع جھل مگسی کی جانب سے یونٹ آرائیں محلہ اور یونٹ سپرہ محلہ کا دورہ کیا گیا اس موقع پر یونٹ کابینہ کو یونٹس کا نو 9 نکاتی پروگرام دیا گیا۔
کندھ کوٹ: " توسیع تنظیم مہم "
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع کشمور ایٹ کندھ کوٹ کے ضلعی صدر میر فائق علی جکھرانی، تحصیل کندھ کوٹ کے صدر زوار بابر علی ملک اور ضلعی نائب صدر صابر حسین کربلائی کے ہمراہ مختلف علاقوں کا تنظیمی دورہ۔
ایم ڈبلیو ایم تحصیل کندھ کوٹ کے دو یونٹس کی تنظیم نو کی گئی"
1. ستائیس میل سٹی
کثرت رائے سے صدر علی وارث صدر ، زوار کرم خان جکھرانی جنرل سیکریٹری و دیگر کابینہ کے اراکینِ منتخب ۔
2. رسالدار سٹی
کثرت رائے سے محمد سلیمان گولاٹو صدر ، اسد علی سومرو جنرل سیکریٹری اور سید صفر شاہ نائب صدر منتخب ۔
مجلس وحدت مسلمین تحصیل کندھ کوٹ کے صدر زوار بابر علی ملک نے برادران سے اپنے عہدے کا حلف لیا ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان ضلع کشمور ایٹ کندھ کوٹ کے ضلعی صدر میر فائق علی جکھرانی نے خصوصی شرکت کی۔
اس موقع پر MWM ضلع کشمور کے نائب صدر صابر حسین کربلائی ، تحصیل کندھ کوٹ کے سیکریٹری روابط نادر علی بلوچ ، میر عبدالغفار جکھرانی اور میر عبدالغفور جکھرانی بھی ہمراہ تھے ۔
وحدت نیوز(کشمور) مرکزی سیکرٹری تنظیم علامہ مقصود علی ڈومکی نے دوداپور اور داؤ جہان پور میں مومنین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ملت کی نمائندہ جماعت ہے جو ہر محاذ پر ملت کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ مضبوط تنظیم ہی ملت کے حقوق کی بہتر نگہبانی کر سکتی ہے۔ ملت کے افراد اور اکابرین کو آگے بڑہ کر اس جدوجہد میں مجلس وحدت مسلمین کا دست و بازو بننا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ماہ رجب اللہ کا مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اعتکاف کا مہینہ ہے ماہ رجب کو ملک بھر میں توسیع تنظیم کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ پندرہ روزہ اسٹڈی سرکل اور درسی پروگرام کا مقصد کارکنوں کی دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ انہیں سیرت آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے آشنا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرآن کریم کتاب ھدایت اور کلام خدا ہے کلام اللہ کی توہین کرنے والے دنیا اور آخرت میں رسوا ہوں گے۔ سوئیڈن میں توہین قرآن مجید کے مرتکب مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ قرآن کریم اور پیغمبر رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کے تسلسل سے واقعات اسلام دشمن استکباری قوتوں کے شیطانی ایجنڈا کی تکمیل ہے۔