The Latest
وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے صدر سید علی رضوی نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے فوجداری ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہیں۔
اپنے ایک بیان میں صوبائی صدر ایم ڈبلیو ایم کا کہنا تھا کہ ریاست کے ذمہ داروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے کسی بھی بل کو منظور کر کے قانون کا حصہ نہ بننے دیا جائے جس سے ملکی ہم آہنگی اور رواداری کی مجموعی فضا زہر آلود ہو۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری علامہ اعجاز حسین بہشتی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فوجداری ترمیمی بل 2021ء کے ذریعے 298 اے میں قومی اسمبلی سے ہونے والی ترمیم کو مسترد کرتے ہیں۔ مکتب تشیع ایسے کسی بھی بل کی حمایت نہیں کرتا جو ملک میں بدامنی اور کروڑوں مسلمانوں کی دل آزری کا سبب بنے۔
علامہ اعجاز بہشتی کا مزید کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں بیٹھے حضرات ایک دفعہ بھی اس بل پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ انہوں نے کتنی سنگین غلطی کی ہے، لیکن صد افسوس کہ ہمارے اسمبلی ممبران نے توہین صحابہ و توہین اہلیبیت ع کے نام پر بل کو پاس نہیں کیا ہے بلکہ صرف تکفیری زہنیت رکھنے والے ایک دہشتگرد تنظیم کی خواہش کو پورا کیا ہے۔یہ بل پاکستان میں امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہے میں متعلقہ فورم، سینیٹرز اور صدر مملکت سے اپیل کرتا ہوں کہ اس بل کو مسترد کریں چونکہ پاکستان کی آئین و قانون اور قائد و اقبال کے نظریات میں ایسے کسی بھی بل کی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ملک بھر میں مکتب تشیع اور ہر باشعور فرد اس بل کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ملک بھر میں علماء کرام و خطباء نے جمعہ کے خطبوں سے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے اسے لاحق خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سینٹ میں اس بل کو مسترد کریں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان بیرسٹر خالدخورشید خان نے جامعہ الولایہ کا دورہ کیااور وہاں مہتمم جامعہ وچیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصرعباس جعفری حفظہ اللہ سمیت ایم ڈبلیوایم کے دیگر رہنماؤں سے ملاقات کی۔
وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے جامعہ الولایہ کی تاریخی طرز تعمیر کا شاہکار نئی عمارت کا جائزہ بھی لیا اور اس شاندار فن تعمیر کی تعریف کی۔ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اہم قومی سیاسی مسائل اور گلگت بلتستان کےآئینی اور عوامی حقوق کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔
اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی جنرل سیکریٹری سید ناصرعباس شیرازی، ایم ڈبلیوایم کے پارلیمانی لیڈرکاظم میثم، وزیر سیاحت راجہ ناصرعلی خان، وزیر تعمیرات وزیر سلیم سمیت دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان کی گلگت بلتستان کونسل سیکرٹریٹ آمد کے موقع پر چیئرمین سیٹینڈنگ کمیٹی جی بی کونسل محمد ایوب شاہ،رکن جی بی کونسل و پولیٹیکل سیکریٹری مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان شیخ احمد علی نوری اور دیگر کونسل کے ممبران سے ملاقات کی۔
ملاقات میں گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے متعلق سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا،اس موقع پر ممبران کونسل نے اس بات پر زور دیا کہ عوامی مسائل کے حل کیلئے مضبوط بلدیاتی نظام اور اس کا تسلسل یقینی بنانا ہوگا تاکہ عوامی مسائل مقامی سطح پر حل کیے جاسکیں۔موجودہ جی بی کے مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری بلدیاتی الیکشن کرنا نا گزیر ہے۔
اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان راجہ شہباز خان نے کہا کہ ہم ایک جامع اور کار آمد بلدیاتی نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور کوشش ہے کہ فوری صوںے میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنائیں۔
وحدت نیوز(پشاور)صوبائی صدر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا علامہ جہانزیب علی جعفری نے میڈیا کو جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے فوجداری ترمیمی ایکٹ 2021ء کو مسترد کرتے ہیں، جس قانون کے اندر ترمیم کر کے اسمبلی سے منظور کروایا گیا ہے اس میں توہین کی تعریف اور حدود و قیود کی کوئی شرعی حیثیت واضح نہیں کی گئی ہے جس کی کوئی بھی متعصب سوچ رکھنے والا شخص اپنی مرضی سے تعریف کر کے اسے عام عوام کے خلاف استعمال کرسکتا ہے، جس کی ایک ذمہ دار ملک کے اندر ذرا بھی گنجائش نہیں ہے۔ دین اسلام کسی کی بھی توہین کرنے کی اجازت نہیں دیتا جس پر سب متفق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت اور سیاست کا تو دھڑن تختہ ہو چکا، امن و امان کی مجموعی صورتحال بھی کوئی حوصلہ افزاء نہیں ہے اور ساتھ ہی اس طرح کے فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی بل کو منظور کروایا جانا انتہائی افسوس ناک اور غیر منصفانہ عمل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس متنازعہ قانون کی مبہم تشریحات کے تحت بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا جائے گا، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا، یہ ملک اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ مختلف مسالک اور فرقوں کی من پسند اور تشدد آمیز سوچ کو پروان چڑھانے اور پنپنے کا موقع فراہم کیا جائے گا بلکہ ہر شہری کو اس کے عقائد و نظریات کے مطابق عبادات اور زندگی گزارنے کا پورا پورا حق دیا گیا تھا، جس پر آج مختلف جزوی قوانین کی آڑ میں قدغن لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لہذا ایوان بالا کے اراکین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس غیر واضح اور مبہم تشریحات والے قانون کو منظور نہ کریں۔
وحدت نیوز(قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین قم کی جانب سے حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا میں جشن میلاد حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی محفل منعقد ہوئی۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواھران قم کی جانب سے حرم بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا میں منعقد ہونیوالی محفل میلاد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا میں ڈھائی سو سے زائد خواتین نے شرکت کی۔ حرم معصومہ سلام اللہ علیہا میں منعقد ہونیوالی محفل جشن میلاد کوثر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان امور خواتین کی مرکزی سیکرٹری جنرل محترمہ سیدہ معصومہ نقوی نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی۔ جشن میلاد کے پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ بعد ازاں سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ نعت پیش کیا گیا اور سیدہ دوجہاں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے حضور منقبت کی صورت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے گئے۔
اہلبیت علیہم السلام کی شان میں قصیدہ کے اشعار پیش کیے گئے۔ علاوہ ازیں محفل میلاد میں بچیوں نے موقع کی مناسبت سے خوبصورت ٹیبلو پیش کیا اور سوالات کے جوابات کا مقابلہ ہوا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری جنرل محترمہ سیدہ معصومہ نقوی نے محفل میلاد کی شریک خواتین سے خطاب کیا۔ پروگرام کی نقابت کے فرائض محترمہ تحریم فاطمہ نے انجام دیئے۔ ولادت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے پروگرام میں شریک 14 خواتین اور بچیوں کو جن کا نام فاطمہ تھا، نفیس انعامات دیئے گئے۔ اسی طرح کوئز مقابلے میں کامیاب ہونیوالی 6 خواتین کو بھی انعامات سے نوازا گیا۔ پروگرام کے آخر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین قم المقدس کی مسئول سیدہ زہراء نقوی نے تمام شرکاء اور بالخصوص پاکستان سے تشریف لانے والی مرکزی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم پاکستان شعبہ خواتین محترمہ سیدہ معصومہ نقوی کا شکریہ ادا کیا۔
وحدت نیوز(تبصرہ) پاکستان آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس ملک کے شہریوں کی اکثریت مذہبی اعتبار سے اہل سنت ہیں۔ جبکہ شیعہ مذہب کے شہریوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ شیعہ کی تعداد کسی لحاظ سے کم نہیں اور یہ غیر موثر نہیں ہیں۔ پاکستان میں شیعہ مذہب کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ عرب ممالک میں مصر کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے عرب ملک کی کل آبادی پاکستانی شیعہ شہریوں سے زیادہ نہیں ہے اور سب خلیجی ممالک کہ جن میں سعودی عرب، کویت، امارات، بحرین، قطر اور سلطنت عمان شامل ہیں، انکی کل آبادی 5 کروڑ کے قریب ہے، جبکہ ہمارے ملک میں تقریباً ساڑھے 6 کروڑ سے زیادہ شہریوں کا تعلق مذہب شیعہ سے ہے۔ انہیں دنیا کی کوئی طاقت بھی ختم نہیں کرسکتی اور نہ ہجرت پر مجبور کرسکتی ہے۔ ان کا تعلق مکتب کربلا اور امام حسین علیہ السلام سے ہے، یہ کبھی بھی ذلت کی زندگی قبول نہیں کرسکتے۔ یہ ہمیشہ ظلم و نانصافی سے ٹکرانے والے لوگ ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کو دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا۔ انہیں احساس محرومی سے دوچار کرنا درحقیقت 30% سے زیادہ اس ملک کی آبادی کو محرومیوں کا طوق پہنانا ہے۔ ایسا سوچنا ایک خطرناک کھیل اور سازش ہوسکتی ہے۔
شیعہ و سنی اسلام کے دو بازو ہیں، ایک بازو کو قلم کرنا یا مفلوج کرنا اس ملک کے اسلامی جسم کو اپاہچ کرنا ہے۔ ہمارے بزرگوں کی روایت یہی رہی ہے اور وہ ہمیشہ یہی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ اپنے مذہب کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مذہب کو چھیڑو نہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں قدیمی مذہب ہیں۔ جہاں ان کے مشترکات بہت زیادہ ہیں، وہاں بعض نظریات و عقائد و احکام شرعیہ میں ان کے مابین اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ جو لوگ وحدت و اتحاد کے علمبردار ہوتے ہیں، وہ مشترکات تلاش کرتے ہیں اور اختلافی مسائل کے حل کے لئے رواداری کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں، کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ أُمِرْتُ بِمُدَارَاةِ النَّاسِ كَمَا أُمِرْتُ بِتَبْلِيغِ الرِّسَالَةِ کہ مجھے لوگوں سے رواداری سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس طرح مجھے رسالت کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے اور اس فکر اور سوچ کے مدمقابل جن کا ایجنڈا فتنہ و فساد ہوتا ہے، وہ شیعہ و سنی کے مابین پائے جانے والے بعض اختلافی نظریات و افکار اور عقائد و احکام جیسے مسائل کو ہوا دیتے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق سنی مذہب سے ہو یا شیعہ مذہب سے، دراصل وہ دشمنوں کے شعوری یا لاشعوری طور پر آلہ کار ہوتے ہیں۔
ماضی میں مذہبی اختلافات کو محراب و ممبر، کتاب و رسالے، خطاب و مناظرے اور وعظ و تبليغ کے ذریعے بیان کیا جاتا تھا۔ اہل علم و دانش علمی دلائل پیش کرتے تھے اور ہر ایک آزادانہ اپنی سوچ اور فکر کی ترویج کرتا تھا۔ اس درمیان ریاست کا کردار ایک شفیق باپ کا ہوتا تھا۔ ریاست یا حکومت کسی خاص مذہب کی ترجمان نہیں ہوتی تھی، جس سے یہ مسائل قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں بنتے تھے۔ لیکن کچھ عرصے سے ریاست کا بھی ایک خاص مذہب بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ گذشتہ چار دہائیوں سے انتہاء پسند اور متعصب مزاج لوگوں کے اقتدار کے ایوانوں پر پہنچنے اور ان کے نفوذ کے بعد یہ کام ریاستی مشینری کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں اور اب قانون کی طاقت سے ایک مخصوص مسلک باقی مسالک کے پیروکاروں کو دبانا اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتا ہے۔ مسلکی تسلط کی سوچ کے حامل افراد اور گروہ ایک تسلسل کے ساتھ اپنے مخالف مذہب و مسلک کے خلاف سازشیں کرنے اور فتنوں کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف ملک تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران میں مبتلا ہے اور دوسری طرف یہ انتہاء پسند امن و امان کی فضاء کو مزید گھاؤ لگانے پر تلے ہیں۔
بدقسمتی سے حکمرانوں کی نااہلی و نالائقی سے ہمارے ملک میں بیرونی عناصر کو سیاہ و سفید ہر دھندہ کرنے کی اجازت ہے۔ ہمارے ملک کے اہم فیصلے اسلام آباد کی بجائے واشنگٹن، لندن اور ریاض میں ہونے لگے ہیں۔ ملی اور قومی مفادات کو پس طاق رکھ کر ہمارے حکمران طبقے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو ترجیح حاصل ہوچکی ہے۔ سیاسی عدم توازن اور خطے میں ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں ہمارے ملک میں نیشنل و انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں دہشتگردی اور مذہبی انتہاء پسندی اور علاقائی فتنوں اور تعصبات کو تقویت ملی ہے۔ پاکستان پر اس ملک کے سب شہریوں کا برابر کا حق ہے۔ ان کا جو بھی مذہب و مسلک اور دین ہو۔ تحریک پاکستان میں شیعہ مذہب کے پیروکاروں کا بہت کلیدی کردار تھا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بانی پاکستان کا تعلق بھی شیعہ مذہب سے تھا۔ یہ ملک اسلام کی حاکمیت کے لئے حاصل کیا گیا تھا اور اس بات پر اتفاق تھا کہ یہاں ہر مذہب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی حاصل ہوگی اور کسی خاص مذہب و مسلک کو مسلط ہونے کا حق نہیں ہوگا۔
1973ء کا آئین پاکستان بھی اسی بات کا ضامن ہے۔ کسی مسلک اور فرقے کے غلبے کی سوچ کو تمام شہریوں پر مسلط کرنا ملک میں خانہ جنگی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں اقلیت و اکثریت کی جنگ ملک دشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے۔ یہ خطرناک سوچ گذشتہ چار دہائیوں سے ہمارے ملک کے طول و عرض میں زیر قاتل کی طرح سرایت کر رہی ہے۔ جسے غافل اکثریت اور اقلیت کو سمجھنا ہوگا۔ اس ملک میں جو بھی قانون سازیاں ہوئیں اور ہوں گی، عددی اکثریتی مذہب کے لئے تو فی الحال کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ وہ ہر فورم پر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن خدشہ اور خطرہ ہمیشہ عددی لحاظ سے اقلیتی مذہب کے پیروکاروں کو رہا ہے کہ کہیں اقتدار کے ایوانوں میں نفوذ کرکے یا پہنچ کر مذہبی انتہاء پسند اور تنگ نظری کا شکار عناصر اپنے مسموم نظریات و افکار کو مسلط کرنے کے لئے اس زہر قاتل کو کیپسول میں ڈال کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل نہ کریں۔
اس کی تازہ مثال توہین صحابہ ترمیمی بل ہے۔ توہین کے قوانین پر عملدرآمد کی گذشتہ تین دہائیوں کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ان قوانین کو ہمیشہ عددی لحاظ سے اقلیت کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخی مذہبی اختلافات کو توہین و تنقیص کا جامہ پہنا کر شرانگیزی پھیلائی گئی ہے۔ توہین کے نام پر جعلی اور جھوٹے مقدمات گویا ایک پوری داستان ہے، جس کے خلاف مذہبی و دینی اقلیتیں عرصہ دراز سے سراپا احتجاج ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر قتل و کشتار کی داستان بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ایسے میں آئین پاکستان میں دی گئی مذہی آزادیوں کے تحفظ کی ٹھوس ضمانت فراہم کیے بغیر قوانین میں ترمیم اور مزید سخت گیری فتنے کا ایک نیا باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ایک کثیر اور متنوع سوچ، فکر اور مذاہب کے حامل معاشرے میں خاص مسلک کی شرعی تعبیر کو نافذ کرنے کا جو آغاز ہوا ہے، وہ کسی بھیانک خانہ جنگی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ ہوش کے ناخن لیں اور ایسے قابل مذمت مسلکی قوانین بنا کر مذہبی انتہاء پسندی کو مزید ایندھن فراہم نہ کریں۔ ایسے قوانین ہر ذی شعور کے نزدیک ہمیشہ مسترد ہیں۔
تبصرہ: ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(پشاور)مجلس وحدت مسلمین خیبرپختونخواہ کے صوبائی جنرل سیکرٹری شبیر ساجدی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت وقت نے قومی اسمبلی سے توہین صحابہ بل پاس کیاہے اس سے ملک میں افراتفری پھیلے گی۔حکومت وقت نے اس سلسلے میں اہل تشیع و دیگر مذہبی جماعتو ں سے مشاورت نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس بل فلفور واپس کرائے کیونکہ قران کریم اور احادیث میں اس حوالے سے سزا وجزا کے واضح احکامات موجود ہیں تاہم اس عمل درامد کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ سینٹ اس بل کو فوری طور پر رد کرکے ملک کو انتشار سے بچائے ۔انہوں نے گذشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کی بھرپور مذمت کیں ۔شبیر حسین ساجدی نے کہا کہ اگر حکومت وقت نے اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ بند نہ کی تو پورے ملک کو جام کردیںگے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)مرکزی شوری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اہم اجلاس جامعہ ولایہ میں مرکزی چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظ اللہ کی صدارت میں منعقد ہوا۔مرکزی جنرل سیکرٹری مجلس وحدت مسلمین پاکستان سید ناصر عباس شیرازی نے اجلاس کی مدیریت کی جبکہ مرکزی کابینہ کے معزز اراکین سمیت تمام صوبوں سے بھرپور شرکت ہوئی۔آئندہ 4 ماہ کا شعبہ جاتی پروگرام ڈسکس ہوا ۔مرکزی اجلاس کو ماہ مئی میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا جبکہ اہم سیاسی فیصلہ جات بھی کئے گئے ۔شوری عالی کی نمائندگی صدر مجلس علما شیعہ علامہ سید حسنین عباس گردیزی نے کی ۔قبل ازیں مرکزی کابینہ کا بھرپور اجلاس بھی جامعہ ولایہ میں مرکزی چیئرمین کی زیر صدارت منعقد ہوا جسمیں اہم فیصلہ جات کئے گئے ۔
وحدت نیوز(لاہور) صوبائی صدر مجلس وحدت مسلمین پنجاب علامہ علی اکبر کاظمی کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں پاس ہونیوالے فوجداری ترمیمی بل 2021ء کو مسترد کرتے ہیں اور ریاست کے ذمہ داران سے مطالبہ کرتے ہیں ایسے کسی بھی بل کو منظور کر کے قانون کا حصہ نہ بننے دیا جائے۔ لاہور میں عہدیداروں سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ علی اکبر کاظمی کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان ملک میں بسنے والے تمام تر مسالک و مذاہب کے مقدسات کی تکریم و احترام کو یقینی بنانے کی ضمانت دیتا ہے، اور ملک میں بسنے والے تمام تر ذمہ دار شہری اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ کسی کے عقائد و نظریات اور مقدسات کی توہین نہ کریں، لیکن اس طرح کی قانون سازی ملک میں متعصبانہ رویوں اور سوچ کو مزید تقویت پہنچانے کا باعث بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئین پاکستان سے متصادم ہے جس میں ہر مسلک و مذہب کو اس کے مسلمہ عقائد کے مطابق عبادت کا حق حاصل ہے اسے ہرگز قانون کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔
علامہ علی اکبر کاظمی کا کہنا تھا کہ نوے کی دہائی سے اس طرح کے تفریق و مذہبی انتہا پسندی کی سوچ پر مبنی بل پاس کروانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جسے قومی اسمبلی میں موجود باشعور اور ملکی حساسیت کو درک کرنیوالے سپیکر اور اراکین نے منظور نہ کر تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملت جعفریہ اس قانون کو اب بھی سختی سے مسترد کرتی ہے، جس سے رواداری کی مجموعی فضاء خراب ہونے کا شدید خدشہ ہو. انہوں نے کہا کہ اس قسم کے نئے قانون بنانے کی بالکل ضرورت نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور ان قوانین کے ناجائز استعمال کو روکنے کیلئے سدباب کیا جائے۔ ملاقات میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات سابق معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب سید اسد عباس نقوی، معاون خصوصی چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان ملک اقرار حسین، علامہ سید حسن رضا ہمدانی، سید حسن کاظمی، اسد علی بلتستانی اور سید حسین زیدی بھی موجود تھے۔