The Latest
وحدت نیوز(قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ اور مجلس علماء امامیہ کے سربراہ علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کا کہنا ہے کہ آئی ایس او ایک شجرہ طیبہ ہے، جو نوجوانوں کو حیات طیبہ سکھاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز آئی ایس او پاکستان کے موجودہ اور سابقہ مرکزی صدور سے ملاقات کے دوران کیا۔
آئی ایس او پاکستان کے موجودہ مرکزی صدر زاہد مہدی، سابقہ مرکزی صدور اطہر عمران اور عارف حسین الجانی نے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امور خارجہ اور مجلس علماء امامیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی سے ملاقات کی۔ ملاقات میں قومی و ملی امور سمیت وطن عزیز کو درپیش چیلنجز اور ان میں ملت تشیع کے کردار کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے پشاور امامیہ مسجد میں دھماکہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیمتی انسانی جانوں کا غیر معمولی ضیاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وطن عزیز میں دہشت گردوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان ملت تشیع نے اٹھایا، مجلس وحدت مسلمین کے کارکنوں کو امدادی کارروائیوں میں فوری حصہ لینے کی ہدایت کی ہے۔
علامہ ناصر عباس جعفری نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، درندہ صفت عناصر ملک و قوم کے دشمن ہیں، دہشت گردوں کے ساتھ ریاست کی مفاہمتی پالیسی نے مذموم عناصر کے حوصلے بلند کر رکھے ہیں، دہشت گردوں کے ساتھ لچک آمیز رویہ ملک و قوم کے لئے خطرات پیدا کر رہا ہے، دہشت گرد عناصر کو سختی سے کچلے جانے کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ پر مجلس وحدت مسلمین کا شدید ردعمل۔سربراہ ایم ڈبلیوایم علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ فاطمہ جناح روڈ کوئٹہ پر دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ تشیع کے خلاف سرگرم عناصر کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیوں بے بس ہیں،دہشت گردی کا مکمل خاتمہ تکفیری دہشت گردوں کے خاتمے سے مشروط ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کے نام پر کلمہ گوہوں کو ذبح کرنے والے دین اسلام کے چہرے پر بدنما داغ ہیں، دہشت گردی میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری اور سخت سزاؤں کا مطالبہ کرتا ہوں۔
وحدت نیوز (لاہور) وزیراعظم عمران خان کی چوہدری برادران سے ہونیوالی ملاقات سے سیاسی بحران تھم گیا ہے۔ عمران خان لاہور سے مطمئن گئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے لاہور میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے استحکام کا تقاضا ہے کہ حکومت کو اس کی مدت پوری کرنے دی جائے، اپوزیشن جماعتیں بلاوجہ سیاسی بحران پیدا کرکے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں امن اور سیاسی استحکام ترقی کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخ کم کرکے عوام کو ریلیف دیا ہے، مگر مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی موثر میکانزم بنایا جائے تاکہ ذخیرہ اندوزوں کی سرکوبی کی جا سکے۔ انہوں ںے کہا کہ حکومت ایسے اقدامات کرے کہ جس سے عوام کو ریلیف ملے، مہنگائی کے سیلاب نے ہر شہری کو متاثر کیا ہے۔
علامہ اسدی کا کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم بلدیاتی الیکشن میں اپنے ایسے امیدوار سامنے لائے گی جو عوامی خدمت میں اپنی مثال آپ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو بھی چاہیئے کہ ایسی سیاسی قیادت کا انتخاب کریں جو کرپٹ نہ ہو اور عوام کو ہر وقت میسر بھی ہو۔ علامہ اسدی کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے پالیسیاں مرتب کرے، صنعتی پیکیج اپنی مثال آپ ہے، اس سے صنعتکاری کو فروغ ملے گا۔
وحدت نیوز(جامشورو)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان مقصود علی ڈومکی نے اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی دفتر المہدی سینٹر جامشورو پہنچ کر اے او پی کے مرکزی رہنما برادر احسان علی اصغری اور اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی رہنما منتظر مہدی سے ملاقات کی اور انہیں 12 مارچ کو اسلام آباد میں متنازعہ نصاب تعلیم کے حوالے سے ہونے والی شیعہ قومی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نصاب تعلیم اہم قومی مسئلہ ہے اس لئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک گیر شیعہ قومی کانفرنس طلب کی ہے تاکہ ملک بھر کے شیعہ علماء خطباء ذاکرین مسولین مدارس ماہرین تعلیم اور تنظیمی نمائندے مل بیٹھ کر نصاب پر مشاورت کریں اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں۔انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ملت کی نمائندہ قومی جماعت کی حیثیت سے ملت کے حقوق کے حصول کے لئے مسلسل میدان عمل میں ہے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے رہنما احسان علی اصغری نے کہا کہ نصاب تعلیم حساس مسئلہ ہے۔ نصاب کے سلسلے میں ایم ڈبلیو ایم کی کاوشیں قابل تعریف ہیں۔اس موقع پر اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے رہنما منتظر مہدی نے کہا کہ نصاب تعلیم سے قوم کا مستقبل وابستہ ہے تعلیمی نصاب میں ملت جعفریہ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ افسوس ناک ہے۔
وحدت نیوز(منڈی بہاؤالدین)مجلس وحدت مسلمین مونا سیداں یونٹ کی جانب سے تنظیمی تربیتی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ اس نشست میں مولانا ظہیر کربلائی مرکزی کوآرڈینیٹر شعبہ تربیت اور آصف رضا ایڈووکیٹ مرکزی معاون سیکریٹری تنظیم سازی نے شرکت کی ۔مونا سیداں یونٹ کے برادر وجیہ شاہ صاحب نے مونا سیداں یونٹ کی فعالیت اور تنظیمی مشکلات بیان کیں اور تربیتی فقدان اور مرکز کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ مرکزی شعبہ تربیت اس حوالے سے اس علاقے میں ورک کرے ۔نوجوان نسل کے لئے کوئی پروگرام ترتیب دے ۔جس سے نوجوانوں کو جذب کیا جاسکے ۔ مثال کے طور پر یہاں اس علاقے میں سوالنامہ تیار کرے اور انعامات رکھے ۔ ایک ماہ بعد وہ سوالنامہ پر کر کے بچے اور جوان شعبہ تربیت کو ارسال کریں اور شعبہ تربیت اس کے بعد نقدی اور غیر نقدی انعامات کا اعلان کرے ۔ اس سے جوان جذب ہوں گے ان شاءاللہ ۔
مولانا ظہیر الحسن کربلائی نے اخلاقی درس دیا اور وجیہ شاہ کی تجاویز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مرکزی سیکریٹری تربیت کو اس موضوع سے آگاہ کریں گے ۔ آخر میں آصف رضا ایڈووکیٹ مرکزی معاون سیکریٹری تنظیم سازی نے تنظیمی فعالیت اور مونا سیدان یونٹ کی دلچسپی پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں ۔ صوبہ اور مرکز آپ کے ساتھ ہے ۔ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بھی برادر آصف رضا نے یونٹ کے برادران کو بریف کیا ۔اور کہا کہ اگلی میٹنگ ضلعی سیکریٹری جنرل کے ساتھ ہو گی ۔ میں صوبائی سیکریٹری جنرل اور مرکز سے ایک شخصیت کے ہمراہ حاضر ہوں ۔ آخر میں مونا سیداں کے برادران کا مرکزی وفد کے ہمراہ گروپ فوٹو سیشن ہوا ۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) عالمی سیاسی منظر نامہ پر تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان بڑی تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی دنیا میں یک قطبی اجارہ داری نظام کا خاتمہ ہے۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد دنیا پر یک قطبی اجارہ داری نظام واضح طور پر قوی ہو گیا تھا۔ آج وقت گزرتے ساتھ ساتھ دنیا میں اس قدر تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ اب یہ اجارہ دارانہ نظام جس کی قیادت امریکی استعمار کر رہا تھا اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ کو ایک بے وفا ساتھی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔یہ بات صرف امریکہ سے بلا جواز نفرت کی بنیادپر نہیں ہے بلکہ امریکہ کی دو سو سالہ تاریخ اس بات کی عکا س ہے کہ امریکہ ایک قابل اعتماد دوست نہیں ہے۔ ماضی میں راقم نے پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کو لکھے گئے اپنے ایک خط نما مضمون میں یہی گذارشات تفصیل اور دلائل کے ساتھ پیش کی تھیں کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے۔
امریکہ کی بے وفائی ناقابل اعتمادی فقط پاکستان کے لئے ہی نہیں بلکہ لاطینی امریکہ کے ممالک بھی اس بے وفائی کا مزہ چکھ چکے ہیں۔غرب ایشیائی ممالک کے سربراہان مملکت جن میں سرفہرست سابق عراقی حکمران صدام حسین کا نام شامل ہے انہوں نے بھی امریکہ کی بے وفائی کا مزہ چکھا ہے۔اسی طرح لیبیا کے معمر قذافی کو انجام تک پہنچانے میں بھی ان کے عزیز دوست امریکہ نے بھرپور کرداد ادا کیا تھا۔ پاکستان جو کہ آزادی کے بعد سے اس کشمکش میں تھا کہ روس کی دوستی قبول کرے یا امریکہ کی، تو ا س زمانے میں امریکی یاروں کا پلڑا بھاری رہا اور پاکستان امریکی دوستی کی لائن میں کھڑا ہو گیا۔
بطور سیاسیات کا طالب علم جب آنے والے وقت میں دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کیاجن میں سے صدی کی ایک بڑی تبدیلی ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی تھا۔اس انقلاب کے بانی امام خمینی ؒ کے مکتوبات اور خطابات کا مطالعہ کیا تو ایک بات بہت واضح طور پر عیاں رہی کہ انہوں نے اپنی قوم کو خبر دار کرتے ہوئے ہمیشہ اس بات کی تلقین کی کہ امریکہ کی دشمنی زیادہ بہتر ہے بہ نسبت کہ امریکہ ہمارا دوست بن جائے۔ بعد ازاں جب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتا ہوں تو امام خمینی کی یہ باتیں جو انہوں نے اپنی قوم کے لئے بطور سبق سکھائی تھیں سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہیں۔کاش کہ دنیا کی دیگر اقوام اور انکے حکمران بھی کہ جنہوں نے امریکہ کو اپنا ناخدا سمجھ لیا ہے وہ بھی امام خمینی کی باتوں سے کچھ سبق حاصل کر لیتے۔
پاکستان کے ساتھ امریکہ کی بے وفائیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ پہلے پہل پاکستان تو خوشی خوشی امریکہ کی دوستی کے جھانسے میں آ گیا تھا اور خارجہ پالیسی مرتب کرنے والوں کا خیال تھا کہ پاکستان کی ترقی صرف اور صرف امریکہ کو آئیڈیل رکھ کر ہی کی جا سکتی ہے۔ ا سکا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے بعد ایک گروہ امریکی دوستی کی طرف جھک گیا
جبکہ دوسرا برطانوی سرکار کے ساتھ مربوط رہا۔آج بھی پاکستان کے نامور سیاستدانوں کا قبلہ یا تو امریکہ ہے یا پھر برطانیہ ہے۔جہاں تک امریکہ کی بے وفائیوں کی بات ہے تو پاکستان کا ہر شہری آج اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ مشکل ترین وقت میں کہ جب پاکستان سنہ 1965اور سنہ1971ء میں بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کر رہا تھا تو امریکہ کی حمایت واضح طور پر بھارت کے ساتھ یعنی پاکستان کے دشمن کے ساتھ تھی۔اسی طرح جب بھارت نے پاکستان کو دبانے اور دھمکانے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے تو امریکہ نے بھارت پر پابندیاں لگانے کی بجائے پاکستان کو دھمکانا شروع کیا تا کہ پاکستان ایٹمی دھماکوں کا جواب نہ دے اور بعد میں پاکستان پر پابندیوں کی حمایت کر دی۔یہ سب کچھ امریکی دوستی کا تحفہ تھا جو پاکستان کو ملتا رہا۔ بات یہاں تک نہیں رکی بلکہ اس سے آگے اس دوست نے ڈرون حملوں میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قتل کیا۔
اس سے بڑھ کر پاکستان کے عوام کبھی بھی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم سی آئی اے سے تعلق رکھنے والے ریمنڈ ڈیوس کو نہیں بھول سکتے کہ جس نے دن دیہاڑے پاکستانی شہریوں کو قتل کیا۔یہ سب کارنامے امریکہ کی دوستی کا انجام رہے ہیں۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔آج بھی امریکہ پاکستان کو دوستی کا جھانسہ دے کر بہت کچھ کروانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے امریکہ کو اس قابل نہیں رکھا کہ اب وہ پہلے کی طر ح دباؤ میں لا کر دوستی کے جھوٹے دعووں کی بنیاد پر اپنے مفادات حاصل کرتا رہے۔ آج پاکستان چین کی ضرورت اور چین پاکستان کی ضرورت ہے، آج پاکستان ایران کی ضرورت اور ایران پاکستان کی ضرورت ہے، اسی طرح آج افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، روس کا حالیہ دورہ بھی پاکستان اور روس دونوں کی آپسی ضرورت اور دوستی کی کھلی مثال ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان نے چوہتر سال میں امریکی بے وفائیوں سے کافی کچھ سیکھنے کے بعد ”absolutly not“تک سفر کیا ہے۔
حال ہی میں یوکرائن کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔جس کے لئے امریکہ نے بھرپور واویلا کیا کہ امریکہ یوکرائن کو نہ صرف نیٹو میں شامل کرے گا بلکہ نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر روس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔روس کو بھی یہ خطرہ لاحق تھا کہ امریکی اجارہ داری از سر نو جارجیا، پولینڈ اور یوکرائن جیسے ممالک کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر خطے کا رخ کر رہی ہے تاہم روسی صدر پیوٹن نے بر وقت کاروائی کرتے ہوئے امریکی اجارہ داری کو لگام دی ہے۔لیکن دوسری طرف یوکرائن اور ان جیسے دیگر ممالک اور ان کے حکمرانوں کو اگر امریکی تاریخ سے سبق حاصل نہیں ہو اہے تو کم سے کم اب تو امریکہ کی یوکرائن کے ساتھ بے وفائی سے سبق حاصل کرنا چاہئیے۔
ماہرین سیاسیات نے کہا ہے کہ حقیقت میں روس نے امریکی اجارہ داری کو ایک مرتبہ پھر خطے میں پنپنے سے روک دیاہے۔یہ جنگ بظاہر یوکرائن کی فوج کے ساتھ لڑی جا رہی ہے لیکن یوکرائن کی پشت پناہ قوتوں میں امریکہ اور اسرائیل سمیت ہر وہ طاقت ملوث ہے جو اس خطے میں امن و امان کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔اس کا مقصد صرف اور صرف خطے کو ایک مرتبہ پھر امریکی اجارہ دارانہ نظام تلے لانا ہے لیکن امریکہ اب اس قابل نہیں رہا ہے کہ ماضی کی طرح اپنی اجارہ داری کو قائم کر سکے۔امریکہ افغانستان سے فرار کر چکا ہے، عرا ق میں بھی امریکہ کو شکست کا سامنا ہے، یمن میں امریکہ ایک ایسی جنگ کی قیادت کر رہا ہے جو سات سالوں سے جاری ہے لیکن امریکی آج تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں لہذا یہاں بھی شکست کھا چکا ہے، شام اور عراق میں داعش کے ذریعہ قائم کی جانے والی اجارہ داری کے لئے امریکہ نے سات ٹریلین ڈالرز تندور میں جھونک دئیے لیکن نتیجہ میں آج بھی امریکہ کو وہاں کچھ حاصل نہ ہوا اور شکست رہی، اس سے بڑھ کر امریکہ جس اسرائیل کے تحفظ اور پھیلاؤ کے لئے یہ سب کچھ انجام دے رہا تھا آج وہ اسرائیل بھی غیر محفوظ ہو چکا ہے اور جنگ مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کے اندر پہنچ چکی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ یہاں بھی ذلت آمیز شکست سے دوچار ہے۔ایسے حالات میں امریکہ کے پاس یوکرائن کیلئے بے وفائی کا تحفہ ہی رہ جاتا ہے جو امریکی اجارہ دارانہ نظام کی تاریخ میں ہمیشہ سے ثبت رہا ہے۔دنیاکی اقوام کے لئے ان تبدیلوں میں ایک اہم ترین سبق یہ ہے کہ امریکہ کی دوستی نقصان دہ ہے اور امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے بلکہ بے وفا ہے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین 27 مارچ کو نشتر پارک میں "عظمت قرآن واہل بیتؑ کانفرنس" کا انعقاد کرے گی۔جس میں صوبے بھر سے مختلف مکاتب فکر کے علماء اور کارکنان شریک ہوں گے۔ایم ڈبلیو ایم سندھ کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ باقر زیدی نے مرکزی رہنما علامہ مختار امامی،علامہ صادق جعفری، علامہ علی انور، علامہ مبشر حسن و دیگر رہنماؤں کے ہمراہ صوبائی دفتر وحدت ہاوس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وطن عزیز پاکستان جس کے قیام کے لیے شیعہ سنی محبان وطن نے جان ومال کی قربانیاں پیش کیں آج تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں سے مادر وطن اندرونی و بیرونی دشمن قوتوں کے نرغے میں ہے۔ عالمی استکباری واستعماری گماشتوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور شیعہ سنی عوام کے قتل عام کے لیے اس سرزمین پر کھربوں ڈالرز اور ریالز کی سرمایہ گذاری کی۔ کچھ ناعاقبت اندیش حکمران دنیاوی منفعت کی خاطر اس مذموم سازش میں شریک رہے۔ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز، انجینئرز،تاجر، طلباء ، اساتذہ،علماء ، ذاکرین ، صحافی اور بیووکریٹس وطن کے وہ باوفا بیٹے ہیں جنہوں نے وطن کی محبت کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دی اور اپنے ملک و قوم کے ساتھ کوئی غداری نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوان ابھی تک کئی کئی سال سےجبری لاپتہ ہیں ، ان کے پیارے ان کی واپسی کی آس میں اس دنیا سے رخصت ہورہے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒکے مسلم پاکستان کو مسلکی پاکستان بنانے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں، پہلے شیعیان پاکستان کی منظم نسل کشی کی گئی ۔قوم کا درد محسوس کرنے والے متحرک افراد کو لاپتہ کیا گیا اور اب یکساں قومی نصاب تعلیم کے نام پرایسا مسلکی نصاب نافذ کیا جارہا ہے۔جس میں اہل بیت اطہار علیہم السلام سے دشمنی واضح ہے ۔اس نصاب میں شیعہ عقائد کا کسی طور خیال نہیں رکھا گیا۔متنازع قومی یکساں نصاب تعلیم کی آڑ میں دین اسلام کی خاطر عظیم قربانیاں دینے والے آل رسول ؐ کے ذکر خیر کو حذف کیا گیا ہے ۔
بغض اہل بیت ؑ کی بدترین مثال تو یہ ہے کہ اسلام کی عظیم غزوات کا ذکر کیا گیا لیکن ان واقعات سے شیر خدا حضرت علی المرتضیٰؑ کے عظیم کارنامے حذف کردیئے گئے ۔ واقعہ کربلا کو فراموش کردیا گیا۔ جہاں کہیں اہل بیتؑ کے اسمائےگرامی لکھے بھی گئے تو ان کے ساتھ علیہ السلام یا رضی اللہ تو کجا رحمتہ اللہ علیہ لکھا گیا ہے۔اسی طرح ملک بھرمیں عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کو روکنے اور اسے محدود کرنے کیلئے بانیان مجالس و جلوس ہائے عزا پر بلاجواز ایف آئی آرز کے اندراج میں مصروف ہیں۔ انہیں شیڈول فور میں ڈال کر پریشان کیا جارہاہے۔ملک دشمن تکفیری وناصبی دہشت گرد عناصر کی خوشنودی کی خاطر شیعہ علماء ، خطباء اور عزاداروں کے خلاف توہین رسالتؐ، توہین صحابہ ؓ اور توہین اہل بیتؑ کے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات درج کیئے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے پاکستان کے خلاف اتحاد کرلیا ہے اور مختلف سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کا مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے۔ان تمام چیلنجز سے نمٹنے اور اپنے قومی وجود کےبھرپور اظہار کے لیے شیعیان حیدر کرارؑ نے 27 مارچ 2022 بروز اتوار نشتر پارک کراچی میں ایک بھرپور کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے ملت جعفریہ پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد، ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں، جوانوں ، بزرگوں اور بچوں کی شرکت دشمنانِ مکتب اہل بیتؑ و دشمنان پاکستان کی بدترین شکست کا باعث قرار پائے گی لہٰذا ملت تشیع اپنے قومی وملی وجود کے اظہار کیلئے ضرور شریک ہو اور اپنے پرشکوہ اجتماع سے حق کی آواز کو بلند کریں۔
وحدت نیوز (حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان مقصود علی ڈومکی نے حیدرآباد مدرسہ مشارع العلوم پہنچ کر مدرسہ کے سرپرست بزرگ عالم دین علامہ سید محمد عباس زیدی اور امام جمعہ حیدر آباد اور قدم گاہ مولا علی جامع مسجد کے خطیب علامہ سید حیدر عباس زیدی سے ملاقات کی اور انہیں 12 مارچ کو اسلام آباد میں متنازعہ نصاب تعلیم کے حوالے سے ہونے والی شیعہ قومی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ نصاب تعلیم اہم قومی مسئلہ ہے اس لئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک گیر شیعہ قومی کانفرنس طلب کی ہے تاکہ ملک بھر کے شیعہ علماء ،خطباء، ذاکرین ،مسولین ِمدارس، ماہرین تعلیم اور تنظیمی نمائندے مل بیٹھ کر نصاب پر مشاورت کریں اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں۔
اس موقع پر سید وقار حسین زیدی سیکرٹری تنظیم سازی مجلس وحدت مسلمین ضلع حیدرآباد ،مولانا گل حسن مرتضوی ضلعی ترجمان، سید صفدر عباس زیدی ڈپٹی سیکرٹری جنرل، سید شکیل حیدر کاظمی ضلعی نشر واشاعت سیکرٹری، عابد علی قریشی ضلعی سیکریٹری وحدت یوتھ، غلام علی ابڑو معاون میڈیا سیکریٹری مجلسِ وحدت مسلمین حیدرآباد بھی ہمراہ تھے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے یکساں نصاب تعلیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک پہلے ہی لاتعداد بحرانوں کی زد میں ہے یہاں کوئی نیا پینڈورا بکس کھولنے کی کوشش نہ کی جائے۔یکساں نصاب کے نام پر ایسا نصاب متعارف کرایا جا رہا ہے جو متعصب ذہن کی تخلیق ہے اور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ماضی کی غلط منصوبہ بندیوں کی سزا پوری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔نفرتوں کی آبیاری کے نتیجے میں ہمیں ہزاروں جنازے اٹھانے پڑے۔
انہوں نے کہا کہ آج متنازع نصاب کے ذریعے مسلکی اختلافات کو اچھال کر گلی کوچوں اور تعلیمی اداروں تک منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ان عناصر کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے جو وطن عزیز کو ہر وقت اضطراب کا شکار رکھنا چاہتے ہیں۔کسی ایک کا عقیدہ کسی دوسرے پر ٹھونسنے کی قطعاً اجازت نہیں ۔غیر مسلم کو بھی جبری طور پر مسلمان نہیں کیا جا سکتا۔نفرتوں کو رواج دینے کے اس سلسلے کو اب رکنا چاہئیے۔یہ ملک ایسی کسی نئی شرپسندی کا متحمل نہیں ہے۔جس طرح ملک میں بسنے والی مختلف قومیں اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہیں اسی طرح شیعہ سنی بھی اپنے اپنے مختلف مذہبی نظریات رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اختلافات میں الجھانے کی بجائے مشترکات پر باہم رکھنے کے لیے ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔نصاب کمیٹی متعصب افراد کی جگہ معتدل، بابصیرت اور دور اندیش علمی شخصیات پر مشتمل ہو۔انہوں نے وزیراعظم اور وزیر تعلیم سے مطالبہ کیا کہ اس سنگین صورتحال کا درک کرتے ہوئے اسے روکا جائے۔ اختیارات کی آڑ میں کیے گئے کسی بھی ایسے فیصلے کو عوام قبول نہیں کریں گے جس سے کسی کے بنیادی عقائد کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہو۔