The Latest
وحدت نیوز(سکردو) جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن کے شہید اول ماسٹر شہید رضا کے نام پہ شہید ماسٹر رضا ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کے قیام کی منظوری پورے علاقے پر احسان، روح شہید کی خوشنودی کا باعث کا باعث اور ہنر مند جوانوں کی تربیت کے لیے تعلیم یافتہ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماسٹر شہید رضا کے وارثین نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ماسٹر شہید رضا پرتاب سنگھ کالج کے گریجویٹ تھے اور بلتستان میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ خطے میں جنگ چھڑ گئی تو قلم چھوڑ کر بندوق اٹھا کر محاذ جنگ پر گئے جہاں مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ بعض مورخین انہیں جنگ آزادی کا پہلا شہید نہیں قرار دیتے تاہم انکے ساتھ محاز پر موجود غازیوں کی تحریر موجود ہے جنہوں نے گواہی کے طور پر تحریر لکھ دی ہے کہ شہید ماسٹر رضا جنگ آزادی بلتستان کے پہلے شہید تھے۔ شہادت کو چوہتر سال گزر گئے کسی کو توفیق نہیں ملی کہ انکی شہادت اور خدمات کو سراہیں پہلی دفعہ وزیر زراعت گلگت بلتستان محمد کاظم میثم کی گزارش پر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے ٹیکنیکل انسٹیوٹ کی منظوری دیکر نہ صرف خانودہ شہید کے حوصلے بلند کیے بلکہ شہید کے مشن کو زندہ و تابندہ کرنے کے ساتھ ساتھ بلتستان ریجن بلخصوص حلقے کے نوجوانوں کو باہنر بنانے کے عزم کا عملی مظاہرہ کیا۔
خانودہ شہید وزیراعلیٰ خالد خورشید اور وزیر زراعت کاظم میثم کے شکرگزار ہیں۔ انجینئر محمد رضا ، اشرف حسین، رستم علی، مظاہر حسین اور فدا علی سمیت دیگر خانودہ شہید نے مزید کہا کہ شہید کے مشن کو زندہ رکھنا نہایت اہم ہے تاکہ نئی نسل کو معلوم ہوجائے کہ آزادی کے لیے کیا قیمت ادا کی گئی ہے اور وطن عزیز پاکستان کی حصولیابی کے لیے کتنی قیمتی جانیں لٹائی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کے تمام شہداء اور غازیوں کے قوم پر احسانات ہیں لیکن ماسٹر رضا کو امتیاز حاصل تھے کہ وہ مدرس تھے اور ٹیچنگ کے شعبے سے مربوط تھے۔ انکی شہادت سے تاحال حکومتوں کی طرف سے خانوادہ شہید کو قسم کی آنر نہیں دی گئی۔ یہ پہلی دفعہ شہید کے خانوادہ کو سراہا جا رہا ہے جسکو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ پاکستان شیعہ اور سنی نے مل کر بنایا تھا، اور اس کے تحفظ کیلئے بھی دونوں مکاتب فکر نے قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ اور سنی پاکستان میں اکثریت ہیں، لیکن ایک چھوٹا سا ناصبی گروہ ان دونوں مکاتب فکر پر اپنی فکر مسلط کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ لاہور میں کابینہ کے عہدیداروں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یکساں قومی نصاب کے نام پر ناصبیت کو فروغ دینے کی سازش کی جا رہی ہے، اس کیلئے ایک کالعدم تنظیم فعالیت دکھا رہی ہے اور ناصبیت اور متنازع شخصیات کو نصاب کا حصہ بنا کر اپنے عقائد شیعہ اور سنی پر مسلط کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکساں قومی نصاب اپنے ہدف کی بجائے دو قومی نظریہ کو محو کر رہا ہے، اس میں معاشرتی علوم، اردو اور اسلامیات میں دین اسلام کے مسلمہ عقائد کو تبدیل کیا گیا اور یہ مکتب تشیع کے عقائد سے متصادم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں، مگر حکومت نے اس معاملے کی حساسیت کو نظرانداز کیا ہے، وزارت مذہبی امور نے عجلت میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور صدیوں سے رائج دورد شریف کو تبدیل کر دیا گیا، اسی نوٹیفکیشن کے تحت نصاب میں بھی دورد ابراہیمی کو بھی تبدیل کر دیا گیا، یہ دورد ابراہیمی دنیا کے تمام مسلم مسالک کے درمیان متفق علیہ دورد ہے، اس میں ترمیم برداشت نہیں کی جائے گی، حکومت یہ نوٹیفکیشن فوری واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ اہلبیت علیہ السلام کے مخالفین کو ہیرو بنا کر نصاب میں پیش کیا جا رہا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ان شخصیات کو نصاب میں شامل کیا جائے جو تمام فرقوں کی مشترکات ہیں، اور جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ زکوۃ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، مگر بعض موارد پر اختلاف ہے، اس میں شیعہ طلبہ پر وہ نظریات نہ مسلط کئے جائیں،صوفیاء کی تاریخ میں اہل تشیع فلاسفر اور فقہاء کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان شخصیات کو بھی اسلامیات میں شامل کیا جائے، نصاب میں خاندان بنو اُمیہ تو شامل ہیں لیکن اہلبیت اطہارؑ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دعائے کمیل اور صحیفہ سجادیہ سے دعاوں کو نصاب میں شامل کیا جائے، امام مہدیؑ کی شخصیت کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے پیکا آرڈیننس کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کسی بھی ایسے آرڈیننس کو مکمل طور پر مسترد کرتی جس سے آزادی اظہار رائے سلب ہوتی ہو ۔مذکورہ آرڈیننس سے یہ تاثر ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصد غیر حقیقی خبروں کی روک تھام نہیں بلکہ حقیقی خبروں تک عوام کی رسائی میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔غیر مصدقہ خبروں کی اشاعت پر ناقابل ضمانت گرفتاری کا قانون انصاف کے تقاضوں کی نفی ہے۔دنیا کے مہذب ترین ممالک میں بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ قانون کی رو سے لاکھوں مجرم بچ جانے سے زیادہ سنگین غلطی کسی بے گناہ کو سزا ملنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقدمات کے اندراج کا عمل اگر اتنا سادہ ہو کہ جس کا جب جی چاہے وہ صحافیوں پر ایف آئی آر کٹوا دے تو پھر معاشرتی بدعنوانیوں کا پردہ کون چاک کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ فیک نیوز اور فیک ویوز دونوں کی الگ حیثیت ہے۔آس آرڈیننس سے وہ تجزیہ کار بھی قابل گرفت ہو جائیں گے جو کسی خبر پر اپنا تبصرہ کریں گے۔اختلاف رائے کا دروازہ بند کرنے کی یہ کوشش کسی صورت قابل قبول نہیں۔آزادی اظہار رائے کا تعین کرنے کی بجائے صحافت کو پابند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس سے پاکستان کو عالمی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سمیت دیگر عالمی ادارے پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر پابندی کے کسی بھی اقدام کی قطعاً حمایت نہیں کریں گے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما، سابق وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ مرحوم کے انتقال پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری سمیت علامہ احمد اقبال رضوی، سید ناصرعباس شیرازی، اسدعباس نقوی و دیگر مرکزی قائدین نے دلی افسوس اور رنج کا اظہار کیا ہے ۔
ایم ڈبلیوایم قائدین نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما،سابق وزیرداخلہ رحمان ملک کے انتقال پر اہلخانہ اورپارٹی اراکین کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔مرحوم ایک دوراندیش اور نڈر سیاستدان تھے۔انہوں نے ہمیشہ تکفیری دہشتگردگروہوں کے خلاف ایوان کے اندر اور باہر کھل کر بات کی، ملک دشمن قوتوں کے خلاف مرحوم نے ہمیشہ ایم ڈبلیوایم کے موقف کو سپورٹ کیا ۔
علامہ راجہ ناصرعباس نے کہا کہ رحمان ملک ہمیشہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل کے حل کے لئےکوشاں رہے ،مرحوم رحمان ملک فلسطین و کشمیر اور یمن کے مظلوموں کی توانا آواز تھے ۔خدا وند متعال کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور سوگواران کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔
وحدت نیوز(دبئی) عرب امارات میں ورٹیکل آرگینک فارمنگ کی سب سے بڑی کمپنی جی سی سی رائلز کیپیٹل کے ایم ڈی فواد احمد، نتالیہ تریشچنکو اور ایگریکٹیو ڈائریکٹر مسعود ہاشم اور ٹیم کے ساتھ وزیر زراعت گلگت بلتستان و صوبائی رہنما ایم ڈبلیو ایم محمد کاظم میثم اور سیکرٹری ایگریکلچر خادم حسین سلیم نے وفد کے ہمراہ فارم کا دورہ کیا۔
وزٹ میں آرگینک ورٹیکل فارمنگ کی سکوپ، ٹیکنالوجی اور ٹکنیکلٹیز سمیت تمام پہلووں پر تفصیلی گفتگو جائزہ لیا۔ عرب امارات کی سب سے بڑی آرگینک ورٹیکل فارمینگ کی مجموعی پیداواریت اور کاردگی کو سراہا گیا اور دوطرفہ تعاون سے گلگت بلتستان میں بھی سرمایہ کاری پر رضامندی کا اظہار کیا گیا۔
اس سلسلے میں رائل کیپیٹلز کی ٹیم بہت جلد گلگت بلتستان کا دورہ کرے گی اور متعدد مقامات پر ورٹیکل آرگینک فارمنگ کے مواقع کی سروے کرنے کے بعد کام شروع کیا جائے گا۔
وزیر زراعت گلگت بلتستان نے کہا کہ صوبائی حکومت کی اولین ترجیح سوپر فوڈ اور آرگینک فوڈ کی پیداواریت کو بڑھانا سرٹیفکیشن کے بعد ویلیو ایڈیشن کے بعد ہائی پرائز مارکیٹ تک پہنچانا ہے۔ جس کے نتیجے میں عام زمینداروں اور کسانوں کا نہ صرف معاشی فائدہ ہوسکتا ہے بلکہ زرمبادلہ میں بھی اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں ورٹیکل فارمینگ پر سرمایہ کاری کے بعد زرعی میدان میں نیا باب کھلے گا اور اس ٹیکنالوجی کے ساتھ پیداواری استعداد کو دس گنا بڑھانے کے ساتھ پانی کا استعمال بھی کم ہوگا۔
وحدت نیوز(اسلام آباد) سنٹرل سیکریٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اسلام آباد میں آج نصاب سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا ہے ۔ راولپنڈی اسلام آباد کے آئمہ جمعہ وجماعت کے مختلف تنظیموں ،انجمنوں اور ٹرسٹیز کے نمائند اس اہم اجلاس میں شریک ہو ئے ۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی گئی ۔ پریس کانفرنس کے بعد مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سے مکتب اہلبیت علیہم السلام سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ملاقات کی اور نصاب کے حوالے سے اپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا ۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے تمام شرکاء اجلاس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم عنقریب ایک بڑی سطح کی کانفرنس بلائیں گے ان شاءاللہ ، مکتب اہلبیت علیہم السلام کے مجودہ نئے نصاب کے حوالے سے تحفظات اور خدشات ہیں ہم نے بارہا متوجہ کیا ہے ۔ ہمارے ساتھ نصاب کے نام پر ظلم کیا جارہا ہے ۔ پاکستان ہم سب نے ملکر بنایا تھا ۔ وطن عزیز کے اندرونی اور بیرونی دشمن ملکر ہمیں تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ ان شاءاللہ ہماری کوشش ہوگی کہ نصاب کے معاملے کو بات چیت سے حل کر لیں ۔
اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی مرکزی ترجمان ایم ڈبلیوایم پاکستان ،نثار علی فیضی مرکزی سیکریٹری تعلیم ایم ڈبلیوایم ،علامہ محمد حسنین گردیزی رکن شوری عالی ایم ڈبلیو ایم پاکستان ،علامہ علامہ افتخارالدین مرزا امام جمعہ مورگاہ راولپنڈی، علامہ علی اکبر کاظمی امام جماعت ڈھوک رتہ راولپنڈی ،علامہ سید یاسر شاہ امام جمعہ وجماعت خیابان سرسید راولپنڈی، علامہ سید سجاد نقوی امام جمعہ بری امام ، علامہ سید مھدی شیرازی پرنسپل جامعہ القائم ٹیکسلا ،علامہ سید سبطین حسینی پرنسپل اداہ ایتام ڈی 17 اسلام آباد ،امتیاز حسین رضوی پرنسپل ایمز کالج ،برادر فداحسین امامیہ ڈیزاسٹر سیل برادر غلام اصغر عابدی انجمن دعائے زہراء مولانا ظہیر کربلائی ،مولانا علی شیر انصاری اور برادر خاور انجمن اثنا عشری اسلام آباد کے علاوہ دیگر شخصیات بھی موجودتھیں۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) یکساں نصاب کے متنازع نکات کے خلاف مختلف شیعہ جماعتوں کے رہنماؤں،اکابرین اور سکالرز کی اہم پریس کانفرنس کا انعقاد مجلس وحدت مسلمین مرکزی سیکرٹریٹ میں ہوا۔جس سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ رہنماؤں نے یکساں نصاب کو مذہبی ہم آہنگی کے خلاف ان عناصر کی سازش قرار دیا جو مذہب کی آڑ میں فرقہ واریت پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
مقررین نے کہا کہ وطن عزیز پاکستان لا الٰہ الاللہ کے نام پر معرض وجود میں آیا جس کے حصول کے لیے سنی و شیعہ مسلمانوں نے مل کر قربانیاں دیں ۔ وطن عزیز کا قیام کسی مسلک اور فرقے کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ شیعہ سنی مسلمانوں نے متحد ہوکر پاکستان کو حاصل کیا اور ملک دشمن طاقتوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود الحمد للہ آج بھی ہمارے درمیان اسلامی اخوت اور بھائی چارہ موجود ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے پاکستان میں اسلامی رواداری، اخوت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے کے لیے قوم کے اکابرین نے کاوشیں کیں اورقرآن و سنت کی روشنی میں ایک ایسا آئین بنایا گیا جس میں ان تمام پہلووں کا خیال رکھا گیا جو ایک نظریاتی ریاست کو اسلامی سرزمین بنانے کے لیے ضروری تھا۔
کسی ملک میں قوم کی تشکیل کے مراحل اور اس کے رشد و تکامل کے لیے اس قوم کا تعلیمی نصاب و ہ سانچہ ہے جس میں اس کی نسلیں تیار ہوتی ہیں۔ اس تعلیمی نصاب کوجہاں تکنیکی و علمی اعتبار سے دورحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے وہاں آئین میں بیان کی گئیں اسلامی اخوت اور دینی رواداری کے زریں اصولوں پر مبنی اسلامی تصور حیات کا آئینہ دار بھی ہونا چاہیے۔ پاکستان بننے کے بعد ہم نے انگریزوں سے چھٹکارا تو حاصل کیا لیکن بدقسمتی سے ان کے بنائے ہوئے طبقاتی نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے۔ تعلیم کے میدان پر یہ فرسودہ نظام بے حد اثر انداز رہا۔ نتیجتاًغریب، امیر،مدرسوں ،سرکاری و نجی سکولوں سب نے الگ الگ نظام تعلیم متعارف کرایا اور اس کے نتیجے میں سوچ و افکار کے فرق کی بلند دیواروں کے ساتھ معاشرہ استعداد اور تفکر کے کئی درجوں میں بٹنا شروع ہو گیا۔ یہ تقسیم اور معاشرتی ناہمواری اس بات کی متقاضی رہی کہ ان دوریوں کو ختم کیا جائے اور اس راہ کو ہموار کرکے قوم کی تشکیل کے لوازمات فراہم کیے جائیں۔
یکساں قومی نصاب اس حوالے سے اہم اور دیرینہ ہدف کو انجام دینے کے ارادے کے ساتھ شروع کیا گیا جو بظاہر ان نقائص کو دور کرنے اور پبلک، پرائیوٹ اور مدرسہ تعلیم کے درمیان موجود خلاء کو کم کرنے پر منتج ہونا تھا لیکن یہ کام بھی سازشوں کے نتیجے میں اپنی اصل منزل سے کوسوں دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔یہ یکساں قومی نصاب اپنے پہلے بیان کردہ ہدف کو حاصل کرنے کی بجائے اپنے اصل آئینی اور نظریاتی ہدف جیسے مذہبی رواداری اور قومی یکجہتی کے اعلیٰ اہداف کو بھی محو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔اس نصاب کی تدوین میں بالخصوص اسلامیات، اردو اور معاشرتی علوم میں بعض ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو عقیدتی، فقہی اور تاریخی اعتبار سےدین اسلام کے مسلمہ اصولوں سے متصادم اور آئین پاکستان میں مذکور شہری حقوق اوراہل تشیع کی مذہبی آزادی سے متصادم ہیں۔ اس لئے یہ مکتب تشیع کے نزدیک ناقابل قبول نصاب ہے۔
آج کی پریس کانفرنس کا مقصد اس بے چینی اور شدید اضطراب کے اہم نکات کو آپ کے سامنے لانا ہے تاکہ حکام بالا ان کے فوری حل کے لئےاقدام کریں ۔حالانکہ اس سے قبل بھی وزیر اعظم ، وزیر تعلیم اور ڈائریکٹریکسا ں نصاب تعلیم کو اس سلسلے میں خطوط لکھے گئے، مگر وزارت تعلیم اور نصاب کمیٹی کی جانب سےاس مسئلے کی اہمیت اورحساسیت کو نظر انداز کیا گیا۔ قومی اسمبلی کی ایک قرارداد مورخہ 21اگست2020 کو بنیاد بنا کر وزارت مذہبی امور نے عجلت میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا اور صدیوں سے امت مسلمہ میں رائج درود پاک کو بدلنے کی کوشش کی۔ اسی نوٹیفکیشن کی رو سے صدیوں سے رائج درود ابراہیمی کواسی یکساں قومی نصاب کے لیے دفتری و غیر دفتری تحریروں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس نوٹیفکیشن کو فورا منسوخ کیا جائے اور تمام مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ مسنون درود کو دفتری و غیر دفتری طباعت پر لاگو کیا جائے۔ یہ درود ابراہیمی دنیا کے تمام مسلمانوں اور تمام مکاتب فکر کے درمیان متفق علیہ درود ہے ۔اس متفق علیہ درود شریف کی جگہ ایک ایسی عبارت کو درود ابراہیمی کی جگہ پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے جو خود اہل سنت کے ہاں بھی ثابت نہیں، اہل سنت کی کسی معتبر کتاب میں یہ درود موجود نہیں تو ایسی بدعت کو آپ کس طرح شیعہ مسلمانوں پر لازم قرار دیں گے، جو خود آپ کے ہاں ثابت نہیں۔لہذا درود ابراہیمی کو ہی شامل نصاب رکھا جائے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق رائے موجود ہے اور گزشتہ نصاب میں بھی وہی درود شامل نصاب رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دینی اکابرین کی ہم آہنگی کے بغیر ایسی بڑی تبدیلی عجلت کی قانون سازی پر سوالیہ نشان ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ آئندہ ایسی کسی بھی قانون سازی سے اجتناب کرے جو قرآن و سنت سے متصادم ہے اور جو دینی احکام میں دخالت پر مبنی ہو۔تمام ایسے موارد جن پر مسلمانوں کے فرقوں میں اختلاف رائے موجود ہے ، نصاب میں ان اختلافی موارد کو اچھالنا ملی یکجہتی کے منافی ہو گا۔ ایسے موضوعات پر مسلمانوں کی متفقہ رائے کو ہی شامل نصاب کیا جائے۔ مثلا درود کی تبدیلی ، اہل بیت رسول ﷺ کے مخالفین ، جنہوں نے خلیفہ راشد حضرت امیرالمومنین امام علی ؑ سے جنگ کی ان کے خلاف تلوار اٹھائی ان کو ہیرو بنا کر پیش کرنا کہاں کی اسلامیات ہے؟ لہذا وہی شخصیات یکساں قومی نصاب میں شامل کی جائیں جو مسلمانوں کے درمیان یکساں طور پر قابل احترام ہیں کم از کم متنازعہ شخصیات کونصاب میں شامل کرنے سے احتراز کیا جائے۔ ایسے تصورات جو تمام فرقوں کا مشترکہ اثاثہ نہیں ہیں انہیں قومی نصاب کا حصہ بنانے کی بجائے حضرت حمزہ سیدالشہداؓ ، حضرت مصعب بن عمیرؓ ، عاشق رسول ﷺ حضرت اویس قرنیؓ، حضرت عمار یاسرؓ، حضرت مقداد ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام ؓ کو شامل نصاب کیا جائے، جن کی عظمت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
مقررین نے کہا کہ زکوۃ کی اہمیت و فضیلت کے موضوع پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے مگر بعض جزئی احکام اور فقہی مسائل میں مسلمان فقہی مکاتب میں اختلاف نظر موجود ہے۔ ایسے اختلافی موارد میں شیعہ طلبہ پر دوسرے مسلک کی تعلیمات مسلط کرنے کی بجائے اس کی تفصیل کا حصول طلباء کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔صوفیا ء و اولیاء اور فاتحین کے باب میں شیعہ مکتبہ فکر کو مکمل نظر انداز کرانا متعصبانہ طرز عمل ہے۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اہل تشیع میں ایسےسینکڑوں عالم ،محدث، مفسر، مورخ، فلاسفر ، عارف، فقیہ گذرے ہیں جنہوں نے دین اسلام اور امت مسلمہ کے لئے قابل قدر اور قابل فخر خدمات انجام دیں۔ جن کو نظر انداز کرنا افسوس ناک ہے۔ نصاب تعلیم میں خاندان بنو امیہ و بنو عباس اور فاتحین کا تذکرہ تو شامل کیا گیا ہے مگر خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے آئمہ اہل البیت علیہم السلام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
نصاب میں خاندان رسالت ﷺو آئمہ اہل بیت کا تعارف، تعلیمات اور سیرت و کردار کو نصاب میں مثالی نمونہ بنا کر پیش نہیں کیا گیا۔جس سے نئی نسل، اسلام کے ایک بڑے ذخیرہ سے محروم ہو جائے گی۔نصاب میں مزید بہتری کے لیے ضروری ہے کہ دعا کے موضوع پر حاصلات ِ تعلم میں ’’دعائوں کی کتب، مثلاصحیفہ سجادیہ، دعائے کمیل وغیرہ کا تعارف‘‘ بھی شامل کیا جائے بچوں کی طبعی عمر، ذہنی سطح اور دلچسپی کی پیش نظر، اہل بیت کی تعلیم کردہ ’’والدین کے حق میں بچوں کی دعا‘‘کا تعارف اور ’’اولاد کے حق میں والدین کی دعا‘‘ کا تعارف بھی اس موضوع میں شامل کیا جائے۔
’’مسلمانوں کی عظمت کی بحالی کا شعور اُجاگر ہو سکے‘‘ جیسے اہم مقصدِ تدریس کو مسلمانوں کے مشترکہ اور متفقہ عقیدہ ِ امام مہدی اور ان کے ہاتھوں عالمی اسلامی حکومت کے نفاذ کے تصور سے کاٹ کر پیش کیا گیاہے۔ جو مطلوبہ مقصد سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہے۔ اس مقصدِ تدریس کی خاطر، حضرت امام مہدی اور ان کے ساتھ حضرت عیسیٰ کی تشریف آوری کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ کیونکہ امام مہدی پر عقیدہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے.اسی طرح اسلام میں علم( دینی و سائنسی علوم) کے موضوع کے حاصلات ِ تعلم میں امام جعفر صادق کے سائنسی انکشافات اور ان کے شاگردوں کی سائنسی خدمات سے واقفیت کو شامل کیا جائے۔
حضرت امام حسینؑ کے موضوع پر بھی سانحہ کربلا کے عوامل، واقعات اور اثرات سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس موضوع کے حاصلات ِ تعلم میں ان کو شامل کی جائے۔ اتحاد ملی کے موضوع کے حاصلات تعلم میں ’’مسلمان‘‘ کی تعریف،مسلمانوں کے مشترکات سے آگاہی اور کسی مسلمان کو کافر کہنے یا تفرقہ و نفرت پیدا کرنے کی مذمت شامل کی جائیں۔
مقررین نے مطالبہ کیا کہ نصاب میں خلافت کے ساتھ ملت تشیع کے عقیدے کے مطابق امامت بھی پڑھائی جائے۔ نیز صحاح ستہ کے ساتھ ساتھ شیعہ کتب اربعہ (حدیث)کا تعارف بھی کروایا جائے۔ خلفاء کا شامل ہونا لیکن آئمہ اثنا عشر کا بطور امام شامل نہ کیا جانا اس نصاب کو یکساں نہیں رہنے دیتا بلکہ یہ ایک مسلک کا نصاب بن جاتا ہے۔ عبادات کے باب میں بھی تراویح جیسی غیر متفقہ عبادات شامل ہیں جبکہ اس مرحلے پر بھی شیعہ کی امتیازی عبادات کا ذکر نہیں ہے۔ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ پر باقی ہے کہ جب یہ عقیدے اور ایمان کی کتاب ہے تو اس میں شیعہ بچوں کے عقیدے اور ایمان کے مطابق کیا چیز شامل کی گئی ہے؟ نصاب میں آئمہ اہل بیت علیہم السلام کی جو شخصیات شامل کی گئی ہیں وہ بھی اہل سنت کے عقیدے کے مطابق شامل کی گئی ہیں۔نصاب میں اہل بیت ِ اطہار کے اسمائِ مبارکہ کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ لکھنے سے احتراز کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری جیسی مستند کتب کے مطابق اہل بیت ِ اطہار کے اسمائِ مبارکہ کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘لکھا جائے اور محبان اہل بیت کی دل آزاری سے اجتناب کیا جائے۔ پاکستان میں بسنے والے سات کروڑ شیعہ اپنے عقائد اور دینی تعلیمات کو شدید خطرے میں دیکھ رہے ہیں۔لہذا اپنےعقیدے کی حفاظت ہمارا آئینی حق ہے۔ پاکستان کے آئین کی شق نمبر 22 میں واضح طور پر لکھا ہے۔ "کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا "آئین پاکستان ہمیں حق دیتا ہے کہ ہم دینیات سمیت تمام تر نصاب دین اسلام اور فقہ جعفریہ کی روشنی میں حاصل کریں لہذا نصاب مرتب کرتے وقت ہمارے مسلمہ عقائد اور تعلیمات کو مدنظر رکھاجائے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب نصاب تحریر اور نظر ثانی کی تمام کمیٹیوں میں ہمارے علماء اور دانشور شامل ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اس قابل اعتراض نصاب کے نتیجے میں معاشرے میں مزید شدت پسندی، مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو پنپنے کا موقع ملے گا۔ یکساں قومی نصاب میں مشترکات کو شامل کرتے ہوئے تمام مسلمہ مکاتب فکر کے تعارف کو شامل کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل تمام مکاتب فکر کے بارے میں درست معلومات اور تفہیم پیدا کرسکیں۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ موجودہ یکساں قومی نصاب اپنی موجودہ حالت میں ہمارے لیے قابل قبول نہیں اور ملک کو مزید انتشار اور تفریق کی جانب دھکیلنے کا باعث بنے گا۔ قومی اتفاق رائے کے بغیر اس یکساں قومی نصاب پر عمل درآمد مناسب عمل نہیں ہوگا۔ ملت جعفریہ یہ سمجھتی ہے کہ یکساں نصاب کو حقیقی معنوں میں مشترک ہونا چاہیے۔ اسے کسی ایک فرقے کا نصاب نہیں ہونا چاہیے۔ اگر مشترکہ دینیات کے نام پر مسلکی دینیات نافذ ہوگئی جیسا کہ موجودہ دینیات کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے، تو اس سے مذہبی منافرت پھیلے گی ہم مشترکہ دینیات کے سلسلے میں حکومت سے مکمل تعاون کریں گے۔
یکساں قومی نصاب کے سلسلے میں اہل تشیع کے اعتراضات سننے کے لئے چند روز قبل متعلقہ حکام نے ایک نشست منعقد کی ہے جس میں ان اعتراضات کو دور کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے ہم اس نشست کا خیر مقدم کرتے ہوئے پر امید ہیں کہ فوری طور پر اس سلسلے میں اقدامات کئے جائیں کیونکہ پہلے ہی اس سلسلے میں بہت دیر ہوچکی ہے، اس میں مزید تاخیر کسی صورت مناسب نہیں ہوگی۔ نصاب پر نظر ثانی کا عمل فوری مکمل کیا جائے۔ ہم مشترکہ اسلامیات کے حق میں ہیں لیکن اگر قرآن کریم اور سنت رسول اللہ ﷺ کی مسلمہ اسلامی تعلیمات کی بجائے ایک مسلک کی تعلیمات یا متنازعہ تعلیمات پر اصرار کیا گیا تو پھر شیعہ بچوں کے لئے ہم علیحدہ اسلامیات کا مطالبہ کریں گے۔یعنی ایسی دینیات شائع ہو جس کے نصاب سے لیکر کتاب بنانے تک شیعہ ماہرین تعلیم اور علماء شامل ہوں اور سکولوں میں شیعہ طلبہ کو دینیات پڑھانے کے لیے بھی شیعہ اساتذہ بھرتی کئے جائیں اور اسی کے مطابق امتحانی نظام ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ بھٹو دور میں حکومت نے منظوری دی اور علیحدہ شیعہ دینیات نافذ رہی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی دینیات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے ایک حصہ شیعہ سنی کے درمیان مشترک اور دو حصے شیعہ سنی بچوں کے لیے علیحدہ ترتیب دئیے جائیں۔ یہ تینوں حصے ایک ہی کتاب میں شائع ہوں، ہر حصے کو بنانے والے ماہرین تعلیم اور علماء مختلف ہوں اور امتحانی نظام بھی اسی کے مطابق ترتیب دیا جائے۔ جیسا کہ 1975 کی اسلامیات کے ذریعے ملک میں نافذ رہا۔ تو کم از کم یہ دینیات ایسی ہو جسے شیعہ بچے اطمینان سے پڑھ اور اپنے امتیازی عقائد و نظریات پر فخر کرسکیں وگرنہ نوجوان نسل کو عقیدے و ایمان کے لحاظ سے ایک ایسا احساس کمتری دامن گیر ہوجائے گا کہ وہ پھر کبھی ایک باوقار دیندار شخصیت نہیں بن سکیں گے۔
پریس کانفرنس کے شرکاء میں علامہ مقصود علی ڈومکی مرکزی ترجمان ایم ڈبلیوایم پاکستان ، علامہ محمد حسنین گردیزی رکن شوری عالی ایم ڈبلیوایم پاکستان ، علامہ افتخار الدین مرزا امام جمعہ مورگاہ راولپنڈی، علامہ علی اکبر کاظمی امام جماعت ڈھوک رتہ راولپنڈی ، علامہ سید یاسر شاہ امام جمعہ وجماعت خیابان سرسید راولپنڈی، علامہ سید سجاد نقوی، امام جمعہ بری امام ، علامہ سید مھدی شیرازی پرنسپل جامعہ القائم ٹیکسلا ، علامہ سید سبطین حسینی پرنسپل اداہ ایتام ڈی 17 اسلام آباد ، امتیاز حسین رضوی پرنسپل ایمز کالج ، برادر فداحسین امامیہ ڈیزاسٹر سیل برادر غلام اصغر عابدی انجمن دعائے زہراؑ، مولانا ظہیر کربلائی، مولانا علی شیر انصاری اور برادر خاور انجمن اثنا عشری اسلام آباد کے علاوہ دیگر شخصیات بھی شامل تھے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ترجمان اور کنوینئر نصاب کمیٹی علامہ مقصود علی ڈومکی نے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر سے ملاقات کی۔ ملاقات میں یکساں قومی نصاب کے متنازعہ نکات کی اصلاح اور نظر ثانی پر مشاورت کی گئی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ متنازعہ نصاب کی اصلاح فوری ضرورت ہے اس سلسلے میں ملت جعفریہ کے علما و اکابرین سب ایک پیج پر ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین نے نصاب کے قابل اعتراض نکات کے حوالے سے وائٹ پیپر شائع کیا ہے جبکہ ہم جلد ہی اس موضوع پر شیعہ قومی کانفرنس بلا رہے ہیں۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کہا کہ متنازعہ نصاب کے قابل اعتراض نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے ہم نے مجوزہ تبدیلی کا ڈرافٹ تیار کرکے متعلقہ شخصیات اور حکومتی اداروں کو دیا ہے۔ امت مسلمہ کے درمیان صدیوں سے رائج مسنون درود شریف کو کیوں تبدیل کیا گیا ؟کیا قومی اسمبلی کی ایک متنازعہ قرارداد کے ذریعے احکام دین کو بدلا جاسکتا ہے؟
وحدت نیوز (سکردو) وزیر زراعت گلگت بلتستان محمد کاظم میثم نے اسلام آباد ائیر پورٹ سے دبئی روانگی سے قبل محمکہ برقیات کے حکام کا عمائدین گمبہ سکردو کیساتھ کیے گئے وعدہ پر عملدرآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر لوڈشیڈنگ کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے احکامات دئیے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی بحران کے حل کے لیے ایک مہینہ قبل ڈی جی سیٹ کو گمبہ تنصیب کرنے کی ہدایات کی تھی جس میں ناقابل برداشت حد تک تاخیر ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا محکمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن اس میں مسلسل کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ عوام کی شکایات مبنی بر حقیقت ہے۔ محکمہ عوام کے ساتھ کبھی ایسا وعدہ نہ کرے جو پورا نہ کرسکے۔
انہوں نے کہا بجلی بحران کا مستقل حل میگاپاور ہاوسز کی تعمیر ہے جس پہ کام جاری ہے لیکن پاور ہاوسز کی تعمیر وقت طلب کام ہے۔ شغرتھنگ، غواڑی، ہرپو پور ہاوسز جب تک مکمل نہ ہو بجلی کی فراوانی مشکل ہے لیکن وقتی حل کے لیے ڈی جی سیٹس تنصیب کرنے کے باوجود شکایات نہیں آنی چاہیے تھیں۔ گزشتہ بارہ سالوں میں ایک میگاواٹ بھی سسٹم میں شامل نہیں ہوسکا دوسری طرف صارف کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
وزیر زراعت بے عوام کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف گلگت بلتستان اہم تاریخی موڑ پر ہے اور عبوری صوبہ کے لیے جدوجہد چل رہی ہے۔ ٹیکس فری ہونے اور سبسڈی برقرار رکھنے کے ساتھ سینٹ قومی اسمبلی اور دیگر اداروں میں بھرپور نمائندگی ملے اور عوام کو بڑی خوشخبری ملے گی۔ دوسری طرف دبئی انوسٹمنٹ کانفرنس میں شرکت اور مختلف سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے جس کے بعد خطے میں سرمایہ کاری ہوگی۔ ہماری کوشش ہے کہ پاور سیکٹر میں سرمایہ کاروں کو راغب کرسکیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے نجات کے ساتھ ساتھ سیاحت کو فروغ ملے اور معیشت بہتر ہو۔
واضح رہے کہ وزیر زراعت دبئی میں انوسٹمنٹ کانفرنس میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید اور متعلقہ محکموں کے وزرا کے ہمراہ شرکت کے لیے روانہ ہوں گے اور مختلف سرمایہ کاری کاری پر فیصلے ہوں گے۔
وحدت نیوز (اسلام آباد) امامیہ آرگنائزیشن پاکستان شعبہ خواتین کے زیر اہتمام امامیہ سنٹر میںنور ولایت سمینار منعقد ہوا مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے محترمہ نرگس سجاد جعفری مرکزی سیکریٹری سیاسیات ، محترمہ بینا شاہ مرکزی مسئول آفس اور محترمہ صدیقہ کائنات ضلعی سیکریٹری ضلع اسلام آباد نے شرکت کی ۔
محترمہ نرگس سجاد جعفری نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے عدل امام علی علیہ السلام پر روشنی ڈالتے ہوئے سمینار میں موجود خواتین کی توجہ ایک واقعہ کی جانب مبذول کرائی جو کوفہ امام علی علیہ السلام میں پیش آیا کہ’’ جارج جرداق اس واقعے کا کو یوں ذکر کرتا ہے، جب امام علی (ع) نے ایک بوڑھے یہودی کو کوفے میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تھا۔ امام نے سوال کیا کہ یہ میری حکومت میں بھیک کیوں مانگ رہا ہے۔ اس نے کہا یاعلی! کل تک مجھ میں قوت تھی، میں کام کرتا تھا، لیکن اب مجھ میں قوت نہیں رہی۔ امام نے فرمایا اسکی تمام ضرورتوں کو بیت المال کے ذریعہ پورا کیا جائے اور اسے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ کسی نے کہا یاعلی! یہ یہودی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ایک انسان ہے، جب تک اسکے جسم میں قوت تھی، اس نے معاشرے کی خدمت کی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اسکی ضرورتوں کو پورا کرے۔ یہ علی بن ابی طالب (ع) ہیں، جنہوں نے انسانی بنیادوں پر تقسیم اموال کیا ہے۔ یہ عدالت انسانی کی آواز ہے اور عدالت کی حدود عالمی حدود ہیں۔ اس پر غور و فکر ہونا چاہیئے، اس پر گفتگو اور کام ہونا چاہیئے‘‘
محترمہ نرگس سجاد نے خواتین کے مقام ومنزلت کو بیان کرتے ہوے کہا کہ آج جو لوگ آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر عورت کی آبرو کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں ۔ 8 مارچ آزادی نسواں کی بجائےیوم حجاب کی تجویز کا خیر مقد م کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کسی ملک یا قوم کی ترقی اور فلاح و بہبود ميں برابر کردار ادا کر سکتی ہيں ۔کسی بھی ملک کی تعمير و ترقی ميں عورتوں کا مردوں کے برابر حصہ ہوتا ہے ، مردوں کے ساتھ عورتيں بھی سماجی اور اقتصادی ميدان ميں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے آگے بڑھ سکتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا۔