The Latest

وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری سانحہ آرمی پبلک اسکول کے زخمی طلباء کی عیادت کیلئے پشاور پہنچ گئے ہیں ،ان کے ہمراہ مرکزی رہنما علامہ شیخ اعجاز بہشتی، صوبائی رہنما ارشاد بنگش اور عدیل عباس بھی موجود ہیں ، علامہ ناصر عباس جعفری نے وفد کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زخمی طلباء کی عیادت کی اور ان کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کیئے، علامہ ناصرعباس جعفری نے سانحہ میں زخمی طلباء کے بلند حوصلوں ،جواں امنگوں اور مضبو ط ارادوں کو خراج تحسین پیش کیا، اس موقع پر زخمیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ تعلیم یافتہ معاشرہ ہی جہالت اور مذہبی انتہاپسندی کا تدارک کر سکتا ہے، تعلیم دشمن طالبان نے علم کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کی لیکن آپ کے شہید ساتھیوں نے اپنے پاکیزہ لہوسے ا س چراغ کی لو کو مذید روشن کر دیا ہے۔بعد ازاں علامہ ناصر عباس جعفری نے ورسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول کا دورہ بھی کیا جہاں سفا ک طالبان دہشت گردوں نے 142بے گناہ طلباء اور اساتذہ کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا ۔

وحدت نیوز (ٹوبہ ٹیک سنگھ)  گزشتہ روز پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے اور اُس کے نتیجے میں 100 سے زائد بچوں کی شہادت کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی اپیل پر ملک کے دیگر شہروں کی طرح ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی مرکزی مرکزی امام بارگاہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جھنگ روڈ سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی صدر بازار میں جلسے کی شکل میں تبدیل ہو گئی۔ ریلی کی قیادت ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیکرٹری جنرل چوہدری رضوان حیدر، مسئول صوبائی سیکرٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پنجاب زاہد حسین مہدوی، ٹوبہ ٹیک سنگھ سٹی کے سیکرٹری جنرل رانا نعیم عباس الحسینی اور علامہ ہدایت حسین ہدایتی نے کی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ہدایت حسین ہدایتی نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو باہم متحد ہو کراسلام اور پاکستان کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی اتحاد ہی طالبان کی موت ہے۔ پاکستان میں شیعہ سنی سمیت تمام طبقات متحد ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان میں دہشت گردی نہیں کرسکتی۔ ریلی سے زاہد حسین مہدوی، چوہدری رضوان اور دیگر نے خطاب کیا۔

وحدت نیوز (پشاور) پشاور میں سکول بچوں پر ہونے والے دھماکے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کی تعداد ایک سو تیس تک پہنچ گئی ہے، جبکہ ان شہید ہونے والوں میں سے تین کا تعلق پاراچنار جبکہ چار کا تعلق ھنگو کے علاقے کچئی سے ہے۔ ان تمام سات بچوں کی میتیں پشاور میں موجود امام بارگاہ علمدار پہنچادی گئی ہیں۔ پاراچنار سے تعلق رکھنے والے بچوں میں ابرار حسین ولد رجب حسین اور ندیم حسین ولد حسین اصغر کا تعلق شلوزان جبکہ عمران حسین کا تعلق ڈنڈر روڈ پاراچنار سے ہے۔ ساتوں بچوں کی میتیں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں موجود امام بارگاہ علمدار کربلا پہنچا دی گئی ہیں۔ جنہیں کل صبح اپنے اپنے آبائی علاقوں کی جانب منتقل کیا جائے گا۔

وحدت نیوز (ملتان)  پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے اور حملے کے نتیجے میں 100 سے زائد بچوں کی شہادت کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری اور آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر تہور حیدری کی اپیل پر ملک کے دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی اُن معصوم بچوں اور اُن کے لواحقین اظہار یکجہتی کے لیے ملتان پریس کلب کے سامنے شمعیں روشن کی گئیں۔ اس موقع پر پشاور میں شہید ہونے والے کے ساتھ اظہار یکجہتی کی گئی۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین ملتان کے قائمقام سیکرٹری جنرل محمد عباس صدیقی، علامہ قاضی نادرحسین علوی، ثقلین نقوی، آئی ایس او ملتان کے صدر قمر رضا، علی نقوی، دلاور زیدی، فخر نسیم سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔ رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے محمد عباس صدیقی کا کہنا تھا کہ سانحہ پشاور کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پشاور میں ہونے والا سانحہ حالیہ تاریخ میں بچوں کا سب سے بڑا سانحہ اور المیہ ہے۔ آپریشن ضرب عضب نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ صرف وزیرستان میں آپریشن کی بجائے پورے ملک میں ان دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ ملک میں طالبان عناصر کے سرپرستوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ اسلام آباد کی لال مسجد میں دائش کے حق میں ویڈیوز جاری کی جاتی ہیں لیکن بے غیرت حکومت اُنہیں لگام دینے کی بجائے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ وزیرداخلہ کی آنکھیں کھل جانی چاہییں حملہ کرنے والے پاکستانی نہیں تھے بلکہ عربی اور انگریزی میں بات کر رہے تھے۔

 

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ قاضی نادرحسین علوی کا کہنا تھا کہ پشاور میں سکول پر حملہ علم دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے جس کی ذمہ دار پاکستان حکومت ہے جو کہ اُن دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آج استعمار آنکھیں نہیں رکھتا یا بہرہ ہو گیا ہے آج کتنے بچوں کو شہید کیا گیا۔ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردوں کو کیا معلوم ایک ماں اپنے بچے کو کیسے پروان چڑھاتی ہے، حکومت اگر دہشت گردوں کے سرپرستوں کو حراست میں لے تو اس سانحے کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔

وحدت نیوز (لاہور) مدارس جعفریہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ مدارس جعفریہ پاکستان کا اجلاس لاہور میں ہوا جس کی صدارت علامہ سید حسین نجفی نے کی جب کہ مولانا حسنین عارف، مولانا ناظم رضا عترتی اور مولانا اقبال کامرانی نے خطاب کیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے علامہ حسنین عارف نے کہا کہ پاکستان میں داعش کے حامی میڈیا پر آ کر دہشت گردوں کی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں لیکن حکومت اور سکیورٹی ایجنسیاں ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں ہونے والا واقعہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے ڈانڈے اس روز سے ملتے ہیں جس دن پشاور میں داعش کے خیر مقدمی بینر لگائے گئے اور وال چاکنگ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ طلباء کے قتل عام کا انداز عراق میں داعش کی کارروائیوں سے ملتا جلتا ہے۔ علامہ حسنین عارف نے کہا کہ آپریشن کو ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلایا جائے اور دہشت گردوں کے حامیوں کو بھی گرفتار کر کے سزا دی جائے تاکہ دہشت گردوں کو کسی بھی جگہ پر حمایت حاصل نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس جعفریہ پاکستان پشاور میں ہونے والے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں، اور ان کے ذمہ داروں کے خلاف بھرپور کارروائی کا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو سرعام پھانسی دی جائے تاکہ وہ دوسرے دہشت گردوں کے لئے عبرت کا نشان بن سکیں۔ اجلاس کے آخر میں شہدائے پشاور کے لئے فاتحہ خوانی اور لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا کی گئی۔

وحدت نیوز (اسکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے زیراہتمام پشاور میں دہشتگردوں کی جانب سے آرمی پبلک سکول میں وحشیانہ حملے کے خلاف ایک احتجاجی ریلی حسینی چوک اسکردو سے یاد گار شہداء اسکردو تک نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی یادگارشہدا اسکردو پر ایک احتجاجی جلسے کی صورت اختیار کر گئی۔ احتجاجی جلسے سے مجلس وحدت مسلمین بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی، شیخ محمد حسن جوہری، سید طاہر موسوی اور آئی ایس او بلتستان ڈویژن کے صدر عاطف حسین موسوی نے خطاب کیا۔ مقررین نے سانحہ پشاور کی شدید مزمت کی اور اس المناک واقعہ کو سکیورٹی اداروں اور حکومت کی ناکامی قرار دیا۔ مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ سانحہ پشاور دہشتگردوں اور تکفیری مسلح جماعتوں کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر آپریشن نہ کرنے اور دہشتگرد جماعتوں کی حکومتی پشت پناہی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اس المناک اور افسوسناک سانحہ کے بعد حق حکمرانی کھو چکی ہے۔ پاکستان آرمی وطن عزیز پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہے انہیں دہشتگردوں کے خلاف ملک گھیر بے رحم آپریشن کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مٹھی بھر دہشت گرد جماعت جو نہتے بچوں پر بزدلانہ حملہ کرکے رعب جمانا چاہتی ہے حقیقت میں بہت کمزور اور بزدل ہے۔ انکا گھیرا تنگ نہ کیا گیا تو وطن عزیز پاکستان میں عراق جیسی صورتحال بن سکتی ہے۔ اگر ابتدا سے ہی ان بزدلوں، اسلام دشمنوں، پاکستان دشمنوں، انسانیت دشمنوں کے خلاف پاکستان آرمی اٹھ کھڑی ہوتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ دہشتگرد تنظیمیں آستین کے سانپ ہیں جہاں مل جائے ان کے سر کچل دینا ضروری ہے کیونکہ ڈسنا انکی فطرت ہے۔

 

مقررین نے کہا کہ تمام دہشتگرد جماعتیں ضیاء الحق کی منحوس پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور موجودہ وفاقی حکومت اسی آمر طالبان کے بانی دہشتگردوں کے بانی کی گود کا پلا ہے۔ وفاقی حکومت ان دہشتگردوں کے خلاف نہ صرف آہنی ہاتھوں سے نمٹ نہیں سکتی بلکہ ان کے خلاف بیان دیتے ہوئے بھی ہچکچاتی ہے۔ پاک فوج نے وفاقی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر آپریشن ضرب عضب کا آغاز کر کے بہت اچھا فیصلہ کیا اور نون لیگ اور ان کے ہمنوا کبھی آپریشن کرنے نہیں دیتی بلکہ مذاکرات کا مذاق کرتے رہتے۔ ان تمام دہشتگردوانہ واقعات میں ان تمام سیاسی پارٹیاں بری الذمہ نہیں جنکے سائے میں دہشتگرد جماعتیں پلتی ہیں اور انکی پشت پناہی ہوتی ہیں۔وہ تمام سیاسی جماعتیں جنہوں نے طالبان کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی انکو کوئی حق نہیں کہ آج اس سانحہ کی مزمت کریں اور ان پارٹیوں کو بھی کوئی حق بولنے کا نہیں جنہوں نے دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کی مخالفت کی اور یہ دہشتگرد ٹولے مضبوط ہوگئے۔ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں اور پاکستان کی حفاظت کے لیے ہم پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ ہیں۔ پاکستان آرمی کو دہشتگردوں کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اور ملک گھیر آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے۔

وحدت نیوز(پشاور) مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیراہتمام لیہ میں سانحہ پشاور کیخلاف ریلی نکالی گئی، جس میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنماوں، طلباء، علمائے کرام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھرپور شرکت کی، ریلی سے ایم ڈبلیوایم کے ضلعی رہنماء سید سرورحسین شاہ، علامہ آغا حسین، پاکستان عوامی تحریک کے رہنماء نذر حسین اور آئی ایس او کے ڈویژنل صدر رضوان جعفری نے خطاب کیا۔ ریلی کا آغاز کالج چوک سے ہوا، اور شرکاء نواز حکومت، دہشتگردوں اور خیبر پختونخواحکومت کیخلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے پریس کلب کے سامنے پہنچے، اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے ناسور کو ملک سے اکھاڑ پھینکنے کا وقت آگیا ہے، پوری قوم کو متحد ہوکر ان ظالمان کا مقابلہ کرنا ہوگا، اگرطالبان دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کا ڈرامہ نہ رچایا جاتا تو پشاور سانحہ رونماء نہ ہوتا، ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب کو پورے ملک تک وسعت دی جائے اور دہشتگردوں کو چن چن کر مارا جائے۔

وحدت نیوز (ٹوبہ ٹیک سنگھ) پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں جو دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہی ہیں ان پر پابندی عائد کی جائے، جو لوگ دہشت گردی میں کسی طور پر بھی ملوث پائے جائیں ان کو چوراہوں میں پھانسی پر لٹکایا جائے سکولوں پر حملے بربریت کی خوف ناک مثال ہے۔ پاکستان کا خوبصورت چہرہ خون خون کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سیکرٹری جنرل چوہدری رضوان حیدر، مسئول صوبائی سیکرٹریٹ مجلس وحدت مسلمین پنجاب زاہد حسین مہدوی، ٹوبہ ٹیک سنگھ سٹی کے سیکرٹری جنرل رانا نعیم عباس الحسینی نے مرکزی امام بارگاہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جھنگ روڈ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنمائوں کا مزید کہنا تھا کہ ہم سانحہ پشاور کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ملک بھر کی جیلوں میں موجود سزائے موت کے قیدیوں کو فی الفور پھانسی دی جائے، رہنمائوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کو پورے ملک میں پھیلایا جائے، پاکستان میں ایک مخصوص مکتب فکر کے تمام مدارس کو جو دہشت گردوں کی حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں فی الفور سیل کیا جائے۔ رہنمائوں نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملافضل اللہ کو فی الفور پاکستان کے حوالے کیا جائے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) اسلام ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ مسلمان کی جان کی حرمت کو کعبہ سے زیادہ محترم قرار دیتا ہے۔ اے خبیث شیطان نما انسانو! تم نے ثابت کیا کہ تم انسانیت کے قاتل ہو اور تم نے کعبہ سے زیادہ محترم انسانوں کی بے حرمتی کی ہے۔ کیا شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے لے پالک اسرائیل نے تمہیں اس قبیح فعل کی تربیت دی یا تم وہ ہو کہ شیطان بھی تم سے پناہ مانگے؟ ہمیں یاد ہے کہ تم نے افغانستان کے علاقے بامیان میں بھی ایک حشر اٹھایا۔ 12 سال سے بڑی عمر کے لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین اور بچوں کو قیدی بنا ڈالا۔ بامیان کے شیعہ مسلمانوں کو غلامی اور کنیزی میں لینے والے ان جانوروں کو ہم سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ اگر اس وقت انسانیت کے نام نہاد علمبردار بے غیرتی نہ کرتے تو اسی وقت طالبان کا کریا کرم اور انتم سسکار ہو جاتا لیکن طالبان کے خلاف کارروائی کا ڈرامہ کرنے والوں کو بامیان میں گوتم بدھ کے بتوں کی بے حرمتی اس کام کے لئے معقول سبب نظر آیا۔


 
16 دسمبر ویسے ہی پاکستانیوں کے لئے ایک سیاہ دن کی یاد کے ساتھ طلوع ہوتا تھا۔ اس کا سبب سقوط مشرقی پاکستان تھا۔ اس میں بھارتی ریاست کی نیابتی جنگ لڑنے والی مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے اپنے کندھے فراہم کئے تھے۔ لیکن آج سال 2014ء میں یہ دن پاکستان کی مکتی باہنی یعنی طالبان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستان کے ننھے و معصوم فرشتوں کے سفاکانہ قتل عام کی وجہ سے پاکستانیوں کو سوگوار کر گیا ہے۔ آج پشاور کے پبلک اسکول میں معصوم و نہتے بچوں کے خون کی ہولی کھیلی کر تکفیری طالبان دہشت گردوں نے آج کا دن بھی قومی سانحہ میں تبدیل کر دیا۔ اسکول میں گھس کر ان بد بخت دہشت گردوں نے جو قتل عام کیا، اس پر انسانیت شرما کر رہ گئی اور اسلام پر سوگواری طاری ہوگئی۔ 132 بچوں سمیت 141 انسان، مسلمان شہید کئے گئے ہیں۔

 

جی ہاں! دین اسلام کا نوحہ یہی ہے کہ دنیا کے خبیث افراد اپنی اسلام دشمن سرگرمیوں کو اسلام کا لبادہ اڑھانے کی مذموم کوشش کرنے میں مصروف ہیں۔ زمانہ امن کی تو بات ہی اور ہے، اسلام نے تو جنگ کے دوران بھی خواتین، بچوں، بوڑھوں، مریضوں اور معذوروں کو جنگ سے مستثنٰی قرار دیا ہے۔ کوئی مسلمان ہو اور وہ اسلام پر عمل نہ کرے تو اس کے ضد اسلام فعل سے اسلام کو کیا نسبت؟ فرض کر لیں کہ یہ دہشت گرد افواج پاکستان سے جنگ ہی لڑ رہے ہیں تو کیا بچے، بوڑھے، خواتین، مریض و معذور انسان اس جنگ سے مستثنٰی نہیں؟ اسلامی قوانین کے مطابق تو وہ مستثنٰی ہیں لیکن طالبان اور ان کے ہم فکرافراد کی نظر میں نہیں ہیں، کیونکہ ان لوگوں کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔


 
یہ بچے جو پشاور آرمی پبلک اسکول میں تحصیل علم کے لئے آئے تھے۔ یہ تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی حدیث مبارکہ پر عمل کرنے آئے تھے کہ علم حاصل کرو گہوارہ سے قبر تک۔ انہیں تو یاد تھا کہ علم حاصل کرنے کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے یعنی دور دراز کا سفر بھی کیوں نہ کرنا پڑے، تب بھی علم کا حاصل کرنا ان پر فرض ہے۔ علم و حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ یہ بچے پاکستان کا حال ہی نہیں بلکہ اس مستقبل کے معمار بھی تھے، جو حال میں تبدیل ہوکر ملت شریف پاکستان کی زندگی میں ضرور آنا تھا۔ لیکن طالبان نے پاکستان کو بھی کربلا کا میدان بنانے کی سازش کر رکھی ہے۔ ہم سے زیادہ کسے اس درد کا ادراک ہوگا؟ حضرت علی اصغر علیہ السلام و بی بی سکینہ سلام اللہ علیہا سمیت کتنے بچے تھے جو اموی ملوکیت کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے۔ ہم آج تک انہیں نہیں بھولے، ان بچوں کے والدین کا غم ہم ہی بانٹ سکتے ہیں۔


 
اسلام ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ مسلمان کی جان کی حرمت کو کعبہ سے زیادہ محترم قرار دیتا ہے۔ اے خبیث شیطان نما انسانو! تم نے ثابت کیا کہ تم انسانیت کے قاتل ہو اور تم نے کعبہ سے زیادہ محترم انسانوں کی بے حرمتی کی ہے۔ کیا شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے لے پالک اسرائیل نے تمہیں اس قبیح فعل کی تربیت دی یا تم وہ ہو کہ شیطان بھی تم سے پناہ مانگے؟ ہمیں یاد ہے کہ تم نے افغانستان کے علاقے بامیان میں بھی ایک حشر اٹھایا۔ 12 سال سے بڑی عمر کے لوگوں کا قتل عام کیا اور خواتین اور بچوں کو قیدی بنا ڈالا۔ بامیان کے شیعہ مسلمانوں کو غلامی اور کنیزی میں لینے والے ان جانوروں کو ہم سے زیادہ کون جانتا ہوگا؟ اگر اس وقت انسانیت کے نام نہاد علمبردار بے غیرتی نہ کرتے تو اسی وقت طالبان کا کریا کرم اور انتم سسکار ہو جاتا لیکن طالبان کے خلاف کارروائی کا ڈرامہ کرنے والوں کو بامیان میں گوتم بدھ کے بتوں کی بے حرمتی اس کام کے لئے معقول سبب نظر آیا۔

 

وزیراعظم صاحب! اچھا ہے کہ آپ نے پشاور جانے کا فیصلہ کیا۔ اے وزیراعلٰی پختونخواہ، خدا کا شکر ہے کہ آپ کو بھی پشاور یاد آیا۔ لیکن آپ کا وہاں ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ پاکستان کو ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے کہ جو دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دے۔ آپ کو تو مذاکرات کرنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ اب جب آپریشن ضرب عضب جاری ہے تو وزیراعلٰی پرویز خٹک اسلام آباد میں خٹک ڈانس کرتے دکھائی دیتے تھے۔ کیا ملک کی حکمران سیاسی قیادت نے آپریشن ضرب عضب کی عوامی و سیاسی حمایت کا ماحول بنایا؟ عمران خان کو الیکشن کی دھاندلی کے خلاف دھرنوں اور نواز شریف حکومت کو ان کے جوابات دینے سے فرصت ملے تو قوم کو بتائیں کہ کیا جنگ زدہ ملک کی سیاسی قیادت کی ترجیحات یہ ہوا کرتی ہیں!
 

کیا واہگہ سرحد پر خودکش دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے کوئی سنجیدہ اقدامات کئے تھے۔ یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ پاکستان میں امن دہشت گردوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہی طے کرتے ہیں کہ اگلا حملہ کب کرنا ہے۔ اور دو حملوں کے درمیانی وقفے کو امن کی بحالی سمجھا جاتا ہے۔ کتنے ہی کالعدم دہشت گرد گروہ سرگرم عمل ہیں۔ بعض جگہوں پر انہیں حفاظت کے نام پر سرکاری پروٹوکول فراہم کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر حکمران جماعتوں نے ان سے مقامی سطح کا اتحاد قائم کر رکھا ہے۔ کیا اس طرح کے سمجھوتوں سے امن قائم ہوسکتا ہے؟ یہ سبھی انتہا پسند و دہشت گرد ایک دوسرے کے اعلانیہ اتحادی تھے اور ہیں۔ پرویز مشرف کے شب خون مارنے سے پہلے اکتوبر 1999ء تک نواز لیگی مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت تسلیم کیا کرتی تھی کہ فلاں دہشت گرد گروہوں کو طالبان دور کے افغانستان سے دہشت گردی کی تربیت دے کر پاکستان میں کاروائیوں کے لئے بھیجا گیا تھا۔


 
شاید حکمرانوں سے سمجھوتے کا نتیجہ ہے کہ طالبان کے اتحادی و حامی دہشت گرد بھی اشک دروغ بہانے میں مصروف ہیں، یعنی مگر مچھ کے آنسو! لیکن کیا قوم بے وقوف بنتی رہے گی۔ آج کیا فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو دہشت گردی کر رہے ہیں؟ جب معلوم ہے کہ یہ طالبان اور ان کے اتحادی ہیں اور انہوں نے ماضی میں بھی بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا اور اب بھی کر رہے ہیں تو پھر جو کوئی ان کے لئے نرم گوشہ رکھے، اس کا بھی بائیکاٹ شروع کر دیں۔ آج یہ پشاور کے معصوم فرشتہ صفت بچے ہیں، کل کو یہ ہمارے اور آپ کے بچوں کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے۔


 
پشاور خون سے رنگین ہے اور پوری ملت سوگوار۔ غمزدہ خاندانو! ہم سبھی غمزدہ ہیں اور آپ سے شرمندہ بھی کہ مادر وطن پاکستان وہ فلاحی اسلامی مملکت نہیں بن سکا کہ جہاں انسانوں کی جان و مال و عزت محفوظ ہو، جہاں بچوں کی زندگی طالبان ذہنیت کے فروغ کا چارہ بنا دیا جائے۔ 16 دسمبر 2014ء کے سانحہ پشاور سے ثابت ہوا کہ طالبان آج کی مکتی باہنی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کی اس مکتی باہنی کو الشمس اور البدر کے بعض بزرگان بھی مکتی باہنی ماننے سے کترا رہے ہیں۔ نہیں معلوم کہ ایسا خوف کی وجہ سے ہے یا شوق کی وجہ سے! توجہ فرمائیں یہ بزرگان جن سے بندہ مخاطب ہے۔ طالبان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جو ان کی دہشت گردی کو قتال فی سبیل اللہ کی چادر ڈال رہے تھے۔ جی ہاں! آپ بھی طالبان کے ان گناہوں میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کی نظر میں بچے جنگ سے مستثنٰی ہیں اور طالبان کی راہ میں پہلی سے دسویں جماعت تک کے طالبعلم بچے بھی واجب القتل ہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار!
 

تحریر: عرفان علی
(بشکریہ اسلام ٹائمز)

سانحہ پشاور اور ہم

وحدت نیوز (آرٹیکل) پشاورکے اسکول میں معصوم بچوں پرجس طرح بہیمانہ ظلم اور ان کو ظالمانہ انداز میں قتل کیاگیااوراسکول میں بے گناہ بچوں پر فائرنگ اور بموں سے حملہ کیا گیا اور ان کے معصوم گلوں کو کاٹا گیاہے اس مذموم اور غیر انسانی عمل نے نہ صرف ہر دردمند انسان کو خون کے آنسوں رلادیئے بلکہ ایک احساس یہ بھی دلایا کہ یہ فعل شقی القلب ، ابتر اور دعی ابن دعی ہی کر سکتے ہیں ان بے نسلوں نے حرملہ ، ابن زیاد ، اور شمر جیسے ملعونوں کے ناپاک کردارپر عمل کرکے دنیا کو وہ ذلیل اور گھٹیا کردار دکھا دیئے کہ جو تاریخ انسانیت میں ہمیشہ انسان کی شرمندگی کا باعث رہے ہیں ان ناپاک نسل کے افراد نے اس عمل سے یہ بھی ثابت کردیا کہ ان کا تعلق انسان نما تاریخ کے کن غلیظ کرداروں سے ہے ۔یقیناًالفاظ ناکافی ہیں اور دل کے جذبات مکمل طور پر پیش نہیں کرپارہے ہیں ۔

 

وہ معصوم جو اس سردیوں میں صبح صبح اپنے ننھے سے فکر کے ساتھ اپنی کتابوں کے بستے لے کر اسکول گئے اور اپنی اپنی کلاسوں میں تعلیم حاصل کرنے اورچھٹی کے بعد اپنے گھرجانے اور اپنے بابا اور امی کی دل کی ٹھنڈک اور سکون میں اضافے کا باعث بننے کے انتظار میں تھے ، اور کچھ بچے تو اسکول کے بعد کا م پر بھی جاتے تھے ، تو دوسری طرف ماں باپ اپنے لخت جگر کے اسکول سے لوٹنے کے انتظار میں حسب عادت اپنے ہزاروں کاموں کے باوجود ہر وقت اسی طرف متوجہ رہے کہ کب انکے لخت جگر اسکول سے واپس آئیں اور ان کو سکون ملے۔

 

ایسے میں جب اچانک وحشی درندے کلاس روم میں خطرناک اسلحہ کے ساتھ داخل ہوئے ہونگے اور بربریت کے ساتھ ان معصومون پر فائرنگ کردی ہوگی تو نہ جانے ان معصوم بچوں پر کیا گذری ہوگی اکثر معصوم بچوں کو تو فائرنگ کی آواز کا پتہ بھی نہیں ہو گا کہ یہ کس چیز کی آواز ہے اورجب اسکول میں ہرطرف چیخ و پکار کا سمان ہوگا تو یہ ننھے فرشتے کیا سوچ رہے ہونگے کہ یہ انکل ہمیں کیوں مار رہے ہیں جبکہ ہم نے تو انھیں کچھ بھی نہیں کہا اور پھر جب بھاری اسلحہ کے زوردار دھماکے اور بڑی بڑی گولیاں ان معصوم اور ننھے ننھے جسموں میں لگی ہو نگی جسم سے روح کی پرواز کی اذیت کو کیونکر دل محسوس کر سکی ہوگی بارود اور دھوئیں کے درمیاں اس قوم کے نازک پھولوں کو کیونکر آنکھ دیکھ سکی ہوگی کیونکر انسان نے یہ سب سہن کیا ہوگا ۔

 

اور جب یہ خبر ماں باپ کوملی ہوگی توان کی پریشانی کا اندازہ ہمیں ان آنسوں بہاتی ماؤں اور روتے ہوئے باپوں کا اسکو ل اور ہسپتال کی جانب دوڑتے ہوئے اس آس میں جانا کہ خدایا سارے جہان کے بچوں کی خیر ہو اور اس کے صدقے میں میرا بچہ بھی خیریت سے ہو کی دعاؤں اور امید وں کے ساتھ جانا بتا رہا تھا کہ یہ کس قرب و اذیت سے گذر رہے ہیں۔ اور جب اسکول سے ایمبولینس کی ہولناک آوازوں میں بچوں کے زخمی جسم اور لاشوں پر نظر پڑی ہوگی تو ان کے دلوں کی کیا حالت ہوئی ہوگی یہ سب بیان سے باہر ہے۔

 

جانور بھی ایک دوسرے کے سامنے ذبح نہیں کئے جاتے خاص کر کسی جانور کے بچے کو اس کے ماں یا باپ کے سامنے ذبح نہیں کیا جاتا واقعات بتاتے ہیں کہ اونٹ کے بچے کو اونٹ کے سامنے ذبح کیا گیا تو اس کے جگر میں زخم تا حیات رہا۔پھر یہ تو انسانوں کے بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے بے دردی سے مارا گیا نہ جانے ماں باپ کے جگر میں کس قدر گہرا زخم آیا ہوگا ۔

 

سلام ہو ان شہید بچوں کی عظمت پر جنھوں نے پھر پاکستان کی سرزمین پر کربلاکی یاد تازہ کرکے اس دور کے حرملہ اور شمر جیسے ملعونوں کو شکست فاش دیکر ان غلیظ کرداروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ۔اور سلام ہو زخمی ہونے والے بچوں پر جنھوں نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ضرب عضب کا سپاہی کہا ۔سلام ہو ان ماں باپ پر جنھوں نے اپنے بچوں کی شہادت پر فخر کیا۔یہاں ان کرداروں کا ذکر اصلاح کی خاطر کررہا ہوں کہ جو اتنا بڑا انسانیت سوز واقع ہونے کے باوجود اپنے جاہلانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب ایجنسیوں کا کام ہے جو مجاہدوں کو بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

 

ایسا جملہ کہنا بتا رہا ہے کہ کچھ جاہلوں نے تعصب کے ہاتھوں اپنی انسانیت بیچ دی ہے اور آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھے ہوگئے ہیں اور عقل ہوتے ہوئے بھی فکر سے بے بہرہ ہیں اور دین نے ان کے دلوں اور عقل پر کوئی مثبت اثر نہیں کیا۔جبکہ ان کے ظالم جن کو یہ جاہل مجاہد کہتے ہیں خود اس گھناؤنے جرم کا اعتراف بھی کرلیاہے اور اس میں ملکی اور غیر ملکی دہشت گرد مارے بھی گئے ہیں جن کا تعلق انہی ظالموں سے ہے جس کو جاہل مجاہد کہتے ہیں خدا کے لئے اب تو ہوش کرو اور ان کی حمایت کرنا بند کردو ورنہ یہ ظالم آپ کے بچوں کو بھی نہیں بخشیں گے اور ان کی حمایت کے لئے راہ ہموار کرنے والوں کو بھی پہچا ن لیں کہ وہ آپ کے اور ٓپکے مذہب و ملک کے دشمن ہیں۔

 

سب سیاستدانوں نے اس واقع پر بڑے بڑے مذمتی بیان دیئے لیکن ان بیانات کے بعد یہ لوگ پھر اپنی انہی پالیسیوں پر لوٹ جائیں گے جہاں دہشتگردوں کو سیاسی پناہ بھی دیتے ہیں اور ان کو اپنا بگڑاہو بھائی بھی کہتے ہیں اور ان کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ بھی رکھتے ہیں یا پھر ان کے لئے سخت کاروائی کی مخالفت بھی کرتے ہیں یا پھر مذہبی لیڈر ان کو مذہب کی آڑ میں چھپاتے ہیں یا پھر سیاستدان دہشتگردوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال بھی کرتے ہیں ، یا پھر کرپٹ بیورو کریسی اپنے مالی مفاد اور بڑی بڑی پوسٹس پر برا جمان ہونے یا کسی عصبیت کی بنیاد پر ان کو ناجائز سپورٹ کرتے ہیں اور اپنے فرائض سے غفلت برتے ہیں اور ایسے واقعات کے موجد بنتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ سب پارٹیاں مل بیٹھ کر اس دھشتگردی کا حل سوچنے کے لئے کل کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کریں۔ کاش یہ پارٹیوں اور حکومت کو بچوں کی جانیں جانے سے پہلے ہوش آتا مگر کیا ہوگا کل سب بیٹھ کر صرف قرار داد ہی تو پاس کریں گے ۔

 

کیا جیلوں میں بند تمام دہشتگردوں کو سرعام پھانسی دی جائے گی،کیا اس مکروہ اور گھناؤنے جرم کے ارتکاب کرنے والوں اور ان کے حمایتی نظریات رکھنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا کیا ان ظالمان کو مجاہد کہنے والوں کو پاکستانی قوم کا غدار قرار دے کر سزائے موت دی جائے گی۔ کیا ایسے یا ایسے ہی بڑے بڑے فیصلے یہ چھوٹے لوگ کرپائیں گے۔کیا ضرب عضب کی طرح نظریاتی آپریشن بھی کیا جائے گا تاکہ پھرکوئی ایسی فکر فروغ نہ پاسکے اور پاکستان میں ایسے مولویوں پر پابندی لگائی جائے گی جو ہر جمعہ اور ہر نماز کے بعد کھلے عام ایسے ظالموں کی حمایت میں خطبے دیتے ہیں اور ان کے لئے چندا اکٹھا کرتے ہیں کیا ایسی مساجد و مدارس پر پابندی لگائی جائے گی جو مسلمانوں کے خون بہانے کے عذر تلاش کرکے ظالموں کی حمایت کرتے ہیں اوران کی کامیابیوں کی دعائیں مانگتے ہیں اوران سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور دین کے نام پر ایسے بیہمانہ قتل و غارت کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں اور لوگوں کو ان کا حمایتی بنانے کے لئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں ۔

 

کیا یہ کل جماعتی کانفرنس کوئی ایسی پالیسی بناپائے گی جو کہ ملک عزیز میں بجائے نفرت اور دہشت کے امن اور محبت کی طرف لوگوں کو مائل کرے کیا اس کانفرنس کے بعد حکمران ، بیوروکریٹ اور سیاستدان اپنے ذاتی مفادات سے دستبردار ہوجائیں گے اور فقط عوام الناس اور ملک کے بارے میں سوچیں گے کیا اسمبلیوں میں بیٹھنے والے اپنے مال و مفاد سے زیادہ عوام کی جان و مال کی خاطر قانون سازی کریں گے۔یا پھر وہی رسمی طور پر کمیٹیاں بنائی جائیں گی اور مذمتی قرارداد پاس ہوگی ۔اور پھر ویسا ہی سب چلتا رہے گا اور لوگ بھی آہستہ آہستہ سب بھول جائیں گے ۔

 

لیکن یاد رکھیں نہیں بھولیں گے تو صرف ان بچوں کے ماں باپ اپنے جگر کے زخموں کو نہیں بھولیں گے اور تاریخ نہیں بھولے گی حکمرانوں بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے کردار وں کو کہ ان اہل اختیار نے انہی ظالموں کے خلاف رسمی سی کاروائی کرکے اپنی حکومت کے لئے جواز ایجاد کیا اور خاموش رہ کرظالموں کی حمایت کی یا مظلوموں کی مدد کی خاطر عملی اقدامات اور قوانین بناکر اس ملک اور قوم کو اس ناسور سے نجات دلائی ۔

 

ایک اہم ذمہ داری ہم عوام پر بھی ہے کہ ہم ان حکمرانوں بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کی کارکردگی کا جواب کیا دیتے ہیں کیا وہی روایتی انداز میں انہی کو یا ان جیسوں کو حکمران بناتے ہیں یا پھر غیور اور اہل افراد کو اسمبلیوں میں بھیج کر اور کرپٹ بیورو کریٹس نا اہل حکمرانوں کو انکو ان کے عہدوں سے ہٹا کر اپنے ملک اور اپنے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچاتے ہیں ۔یاد رکھیں جب تک ہم روایتی انداز میں سوچتے رہیں گے تب تک ہمارے ساتھ روایتی واقعات پیش آتے رہیں گے۔

 

ٓتحریر:عبد اللہ مطہری

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree