وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکرٹری جنرل حسن ہاشمی نے کہا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے کراچی میں 10 اکتوبر کو عظیم الشان ”وارثان ولایت کانفرنس“ منعقد کی جائے گی۔ اس بات کا اعلان انہوں نے ضلع ملیر میں منعقدہ ڈویژنل و ضلعی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کیا، اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم ڈسٹرکٹ ملیر کے سیکرٹری جنرل احسن عباس، ثمر عباس، عارف علی، حسن عباس سمیت یونٹ سیکرٹریز بھی موجود تھے۔ حسن ہاشمی نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی، ایم ڈبلیو ایم کے رہنماﺅں و کارکنان کی بلا جواز گرفتاری، شیعہ افراد کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ، عمائدین کے قاتلوں کی عدم گرفتاری، ملک و اسلام دشمن دہشتگردوں کے ساتھ حکومتی گٹھ جوڑ کے خلاف اور اٹھارہ ذی الحجہ کو ”18 تا 24 ذوالحجہ“ ہفتہ ولایت کو شایان شان سطح پر منانے کیلئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان 10 اکتوبر کو مرکزی امام بارگاہ روڈ جعفر طیار سوسائٹی کراچی میں سالانہ ”وارثان ولایت کانفرنس“ منعقد کرے گی۔

حسن ہاشمی نے کہا کہ وارثان ولایت کانفرنس میں سندھ بھر سے لاکھوں عاشقان ولایت شریک ہوں گے، ملیر میں منعقد ہونے والی ”وارثان ولایت کانفرنس“ میں سندھ بھر سے علماء، ماتمی انجمنوں، ذاکرین، خطباء، نوحہ خوانوں، منقبت خوانوں سمیت ملت جعفریہ کے تمام اہم اداروں اور عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانفرنس کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کیلئے تمام تر ذمہ داری ضلعی اور ڈویژنل کابینہ کے مختلف افراد کو سونپ دی گئی ہے، اسی عنوان سے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں، جو جلسہ کے انتظامات میں اپنا کردار ادا کریں گی، اور اس حوالے سے بہت جلد دوسرا اجلاس وحدت ہاﺅس کراچی میں منعقد کیا جائے گا۔ حسن ہاشمی کا کہنا تھا کہ انشاءاللہ دس اکتوبر کو ہونے والی ”وارثان ولایت کانفرنس“ میں لاکھوں فرزندان اسلام کی آمد متوقع ہے، جو ملت جعفریہ کی تاریخ کا عظیم الشان اور تاریخی اجتماع ہوگا۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے جوانوں نے قومی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، اگر یہ نوجوان نہ ہوتے تو پاکستان میں ولایت کا صراط مستقیم گم ہو جاتا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئی ایس او کے سالانہ مرکزی 44ویں ولایت نور ہدایت کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ صرف اور صرف اللہ کی جماعت غالب آنے والی ہے۔ اللہ کی جماعت بننے کیلئے اللہ، رسول (ص) اور آئمہ طاہرین (ع) کے پرچم تلے جانا ہوگا۔ سلسلہ ولایت سے منسلک ہوئے بغیر اللہ کی جماعت نہیں بن سکتے اور کبھی غالب نہیں آسکتے۔ غبیت کبریٰ میں ولایت فقیہ باب ولایت معصومین (ع) ہے۔ غیبت کبریٰ میں غالب آنے کیلئے نظام ولایت فقیہ کے پرچم تلے آنا ہوگا۔ جو بھی حزب نظام ولایت فقیہ سے منسلک نہیں ہوگی، وہ حزب شیطان ہوگی۔ آئی ایس او ایسا شجرہ طیبہ ہے، کہ جس کا تعلق نظام ولایت کے ساتھ ہے۔ انتہائی نشیب و فراز آنے کے باوجود آئی ایس او نے نظام ولایت فقیہ کے صراط مستقیم سے انحراف نہیں کیا۔ آئی ایس او کے جوانوں نے اس ولایت کے راستے کو زندہ رکھا، اور راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لایا۔ ان نوجوانوں کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ یہاں تک کہ ان کے مقابلے میں جماعتیں بنائی گئیں، تاہم ان نوجوانوں نے ولایت فقیہ سے وفا کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس او انبیاء(ع)، معصومین (ع) سے وفا کرنے والی جماعت ہے۔ آئی ایس او نے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے قربانیاں دی ہیں۔ یہی وہ جوان ہیں، جنہوں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے، شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے لہو سے وفا کی ہے۔ ان کی فکر کو زندہ رکھا ہے۔ آئی ایس او نے شہیدوں کے راستے کو اپنایا ہے۔ شہید قائد اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سرزمین پاکستان پر صراط مستقیم کے علمبردار تھے۔ انہوں نے اپنے خون سے اس راستے کو سرخ کیا ہے۔ دنیا کا ہر رنگ مٹ جاتا ہے، تاہم شہیدوں کا سرخ لہو نہیں مٹ سکتا۔ یہ کارواں یونہی چلتا رہے گا۔ نوجوان اپنی بصیرت میں اضافہ کریں۔ عصر حاضر میں حق و باطل کے درمیان معرکے کے اہم ترین موڑ پر کھڑے ہیں۔ منٰی کا واقعہ، یمن کی جنگ، شام ، ایران، عراق، افغانستان، ہر جگہ ہونے والا ٹکراؤ اسی حق و باطل کے معرکے سے تعلق رکھتا ہے، اور اللہ تعالٰی کا وعدہ ہے کہ آخری فتح مظلوموں کی ہے، انہی کی فتح ہے جو نظام ولایت سے منسلک ہیں۔ شہید قائد اس دنیا سے رخصت ہوئے، ان کے پاس کوئی دنیاوی مال و متاع نہیں تھا، کیونکہ ولایت کا راستہ دنیا پرستوں کا راستہ ہی نہیں ہے۔ آئی ایس او ولایت کے اسی راستے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ غدیر منانا ہی کافی نہیں، اپنی فکر، نظر، دل اور عقیدہ کو اتنا مضبط کریں، کہ ولایت کے دشمنان کی تمام سازشیں ناکام ہوجائیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آئی ایس او کے 44ویں ولایت نور ہدایت کنونشن کی جشن ولایت نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایس او کے جوان ولایت کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ ولایت جوان کے خون میں اتنی رچی بسی ہو کہ خون کا ہر قطرہ ولایت کی گواہی دے۔ عزادرای اور مجالس کو روکنے یزیدیت کے بادل امڈ آئیں، تو جوانوں کی شجاعت کا امتحان ہے۔ اس کے لئے تمام پیروان کو تیار ہونا چاہئے۔ پاکستان سمیت مشرق وسطٰی کے حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ آپ فکر حریت کو فروغ دیں۔ مکتب تشیع چیونٹی پر ظلم کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہم نے ظلم کے جواب میں کبھی ظلم نہیں کیا اور یہ ہمارا طرہ امتیاز ہے۔ ولایت علی سے خالی دلوں میں شقاوت پنپتی ہے اور سانحہ منٰی جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ 40 سے زائد کنٹینرز میں حجاج کرام کے لاشیں موجود ہیں۔ ہر کنٹینر میں 200 سے زائد حجاج کی میتیں ہیں۔ پاکستان میں پیمرا کی جانب سے پابندی لگائی گئی۔ غدیر کا پیغام یہی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے، بطور پاکستانی شرم آتی ہے، اسلام آباد میں سعودی سفارتخانہ میں شہداء کے دسترخوان پر بیٹھ کر ہڈیاں چوسی گئیں، شہداء سے خیانت کی گئی۔ گویا عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابل کرنے کے لئے طاقتور قوم بننا ہوگا۔ جو موت کو دیکھ کر بھی استقامت کا مظاہرہ کرے اور شہادت کو لبیک کہے، وہ حقیقی طاقتور ہے اور یہ درس ہمیں کربلا سے ملتا ہے۔

وحدت نیوز(آرٹیکل)کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی   ہے کبھی تو بالکل انہی  الفاظ  و واقعات کے ساتھ[1] ، تو کبھی اس کا انداز قدرے مختلف ہوتا ہے[2] ۔تاریخ آئندہ آنے والے انسانی زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے میں خاص اہمیت کی حامل ہے ۔المختصر یہ کہ تاریخ کی فضیلت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ آج سانحہ مِنیٰ  نے ہمیں بھی مجبور کیا ہے کہ ہم بھی تاریخ اسلام کے ساتھ ساتھ تاریخ آل سعود کی ورق گردانی کریں۔

اس ورق گردانی کی ضرورت ہمیں اس لئے بھی محسوس ہوئی  چونکہ عینی شاہدین کے مطابق ایک سعودی شاہزادے کے پروٹوکول کے باعث جولوگ شہید ہوئے وہ تو ہوئے لیکن بعد میں کرینوں کے ساتھ جس بے دردی کے ساتھ لاشوں کو اٹھایا گیا اس  نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کوئی مسلمان تو شہدا کے جنازوں کے ساتھ اس طرح کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔فرشِ مِنیٰ میں کتنے ہی زخمیوں کو کرینوں نے لاشوں کے کنٹینروں میں پھینک دیا اس کی تو کسی کو خبر ہی نہیں ،چنانچہ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ  آیا خاندان آل سعوددینِ اسلام کا پیرو کاراور خیر خواہ ہے  یا پھر اس کی فکری بنیادیں کسی اور دین سے جاملتی ہیں !

جیسا کہ کتب توایخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ  محمد بن عبدالوہاب  جب اپنے پیغام کو لے کر عینیہ سے درعیہ پہنچے تو امیر محمد ابن سعود[3] کو اپنے ساتھ ملانے کا ارادہ کیا اور بلاخر  ان  کے بھائی و امیر کی بیگم کی مدد سے ابن سعود کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔

 اگر کسی کو تاریخ سے ذرا سی بھی دلچسپی ہے  تو وہ اس بات سے بخوبی آگاہوگا  کہ یہ  امیر محمد بن سعود ہی تھاکہ جس نے خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکّے میں موجودہ حاکم شریف حسین  کے خلاف ایک عظیم سلطنت اسلامیہ(  خلافت  عثمانیہ) کو توڑنے کے لیے برطانیہ کا ساتھ دیا[4] اور اس عظیم سلطنت اسلامیہ کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹایا کہ گویا دنیا میں کسی سلطنت اسلامیہ کا وجود ہی نہ تھا ۔   ابن سعود کی ہی  اولاد(خاندان آل سعود )کہ جس کا چھپا ہوا چہرہ آج سانحہ منی میں دنیا کے سامنے آیا ہے اگر اس کو تاریخ کے آئینے میں انسانیت کش خاندان سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور سانحہ منی ان کی انسان کشی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا قتل عام کرنا ،انسانی خون بہانا اور ناحق کسی کے حقوق کو غصب کرنا(کہ جس کی ایک زندہ مثال خاندان آل سعود کی موجودہ حکومت ہے ) ان کا خاندانی ورثہ ہے اور ان کے بزرگوں کی سنت ہے [5]۔

 محمد بن سعود سے لے کر آج سلمان بن عبدالعزیز تک ان کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے بھری  پڑی ہے[6] ۔ یاد رہے کہ  فتنہ محمد بن عبدالوہاب ابن سعود کے ہی  زیر سایہ پروان چڑھا[7] ہے اور اسی طرح شیخ نجدی کا وہ جملہ کہ جو اس نے ابن سعود کے متعلق کہا ابھی تک تاریخ کے سینے پر ثبت ہے کہ  میرا بہایا گیا خون تمہارا خون اور میری  تباہی تمہاری تباہی ہے[8]یعنی ابن سعود شیخ نجدی  کے فتنے و تباہی میں برابر کا شریک ہے ۔آل سعود کے سیاہ کارناموں میں سے سب سے پہلا کارنامہ موجودہ ریاض پر حملہ ہے  کہ جس میں عبدالعزیز (جو کہ ابن سعود کا بیٹا تھا) نے انپے فتنہ گر لشکر کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا اور وہاں کے موجودہ حاکم ابن دوّاس کو وہاں سے بے دخل کر دیا اور ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں 1700 موحّدین (جو ان کے حامی تھے ) کیونکہ یہ فتنہ گر لوگ اپنے حامیوں کو موحّد جبکہ باقی تمام امت مسلمہ کو کافر سمجھتے تھے )اور 2300 مشرکین (جو ان کے نزدیک مشرک تھے ) مارے گے یعنی 4000 کے قریب عرب مسلم کا خون ناحق ضائع ہوا[9] ۔ جبکہ ان کے دیگر  کارناموں میں سے  امیر الحصاء کے ساتھ ابن سعود کی جنگ [10]، بریدہ پر ظالمانہ حملہ [11]، احساء پر حملہ[12] ( کہ جس میں آل سعود نے یزید کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پانی کے ذخیرہ پر قبضہ کیا اور احساء کے مسلمانوں پر پانی بند کر دیا  ، مجبورا اہل احساء نے ان کی بیعت کی )، پھر وہاں یہ لوگ جسقدر اسلامی اقدار مٹا سکتے تھے مٹایا ، مزارات کو گرایا اسی سال آل سعود نے امام حسن ؑ و جناب طلحہ و دیگر اصحابہ کرام کے مزارات کو مسمار کیا[13] ۔اور یہ وہی  آل سعود ہے کہ جس نے جناب زید بن خطاب (حضرت عمر رض کے بھائی ) کا مزار توڑا یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کر دیا [14]۔پھر انہو ں  نے نجف و کربلا کا رخ کیا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں کہ سال  1214 ھ میں آل سعود  نجد و حجاز سے لشکر کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ ہوا  اور یہ ذیقعدہ کا مہینہ تھا کربلا پہنچ کر وہاں دھاوا بول دیا ، گھروں و بازاروں میں  قتل عام کیا ، مزار سید الشہداء ؑ کو منہدم کیا ، تمام چڑھاوے قبّہ ،زمرد ،یاقوت ،سوناو چاندی اور تمام قیمتی سامان ساتھ لے گے تقریبا 2000 مسلمانوں کو قتل کیا [15]۔بالکل اسی طرح شہر طائف بھی ان کے مظالم سے محفوظ نہ رہ سکا ۔

المجد فی تاریخ النجد والا لکھتا ہے کہ عبدالعزیزنے  اپنے ایک عثمان نامی کمانڈر کو سرزمین طائف کی طرف بھیجا  جبکہ طائف کا موجودہ امیر ٖغالب شریف قلعہ بند ہو گیا اور پھر جان بچا کر مکہ بھاگ نکلا  ،عثمان نے طائف پہنچ کر طائف کی گلیوں و بازاروں کو لاشوں سے بھر دیا  ،سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کیا اور مال و متاع ، سونا چاندی لوٹ کر اس کا 5 واں حصہ سلطان عبدالعزیز کو بھیجا [16]۔

جب آل سعود کا اس سب  کے باوجود دل نہ بھرا اور انسانی خون کی پیاس  بڑھی تو آل سعود نے مکّہ و مدینہ جیسے مقدس مقامات  کو بھی نہ چھوڑا ، مکہ[17] پر حملہ کیا اور وہاں بہت سارے مزارات گرائے ،اور مدینہ میں گنبد رسول اکرم ﷺ  کو گرانے کی کوشش کی [18]۔لہذا آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آل سعود کبھی شام میں ، تو کبھی عراق میں ،کبھی بحرین تو کبھی یمن کے مظلوموں کا خون بہاتا ہے  بلکہ انسانی خون بہانا خاندان آل سعود کا شیوہ ہے[19] کہ جسے آل سعود نے مذہبی رنگ و لباس پہنا رکھا ہے ۔ آج عالم اسلام اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ آل سعود اگر شام میں دہشتگرد بھیجے تو خاموشی ، عراق میں مظالم ڈھاہے تو  تحفظ اسلام اور اگر یمن میں مسلمانوں کا نا حق خون بہائے تو دفاع حرمین شریفین کا نام دیا جاتاہے ۔

آج سانحہ منی  ،آل سعود کے مظالم و فتنہ گریوں پر عالم اسلام کی مسلسل خاموشی کا نتیجہ ہے اور اگر آج بھی تمام عالم اسلام و OICنے اپنا کردار ادا نہ کیا تو آئندہ چند سالوں میں عالم اسلام کو اس کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا ۔ آج آل سعود سرزمین نجد میں اندلس کی تاریخ کو پھر دھرا رھے ہیں ۔اندلس (موجودہ اسپین) میں عیسائیوں نے مسلمانوں کی شہ رگ حیات پر تلوار رکھ کر مسلمانوں کو عیسائی  بنایا اور ہاں قانونا اسلامی عقائد اپنانا  ناقابل معافی جرم تھا  نتیجتا اسپین میں عیسائیت بڑھتی گی اور اسلام دم توڑتا گیا  ۔آج نجد میں بھی SAME  ایسا ہی ہو رہاہے موجودہ سعودی عرب میں شیعہ تو دور کی بات مذہب اہل سنت کی نشر و اشاعت بھی جرم ہے  اور جدّہ ائیر پورٹ پر سب سے زیادہ چیکنگ مذہبی لٹریچر کی ہوتی ہے ۔لہذا آج میں عالم اسلام سے اپیل کرتا  ہوں کہ غفلت کی نیند سے بیدار ہواور ہوش کے ناخن لےاور ساتھ ہی OICسے کہ وہ اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکالے اور ان عیاش و بے دین لوگوں سے ان مقدس مقامات کو آزاد کرائے۔


[1] جیسا کہ تاریخی اعتبار سے خود سانحہ مِنیٰ کا پیش آنا  اس سے پہلےسالوں 1990 ،1994 ،1998 ،2001 ،2003 ،2004 میں یہ واقعہ پیش آچکا ہے ۔

[2] جیسا کہ آئے روز دہشت گردی کے ہونےوالے واقعات یہ کبھی القاعدہ ، طالبان کی صورت میں سامنے آتے ہیں تو کبھی داعش کی شکل میں ۔

[3] یاد رھے کہ امیر محمد ابن سعود خاندان آلسعود کے بزرگ ہیں ۔

[4] تاریخ نجد و حجاز( مفتی عبدالقیوم قادری)

[5] تاریخ نجد و حجاز   مفتی عبدالقیوم قادری

[6] تاریخ نجد و حجاز باب 4 ،5

[7] سوانح حیات سلطان عبدالعزیز آلسعود ص 42

[8] الدّم بالدّم الھدم بالھدم  ۔ محمد بن عبدالوہاب ص 39، 40 عنوان المجد فی تاریخ النجد ج1 ص12

[9] سردار محمد حسنی (سوانح حیات سلطان عبدالعزیزآلسعود ص 42 ، 43 )

[10] سوانح حیات سلطان عبدالعزیز آلسعود ص43 ، تاریخ نجد و حجاز ص51

[11] ایضاً

[12] تاریخ نجد و حجاز ص56

[13] ایضاً

[14] ایضاً ص46 ،47

[15] ایضا ص 57 ، محمد بن عبدالوہاب ص 77

[16] ایضاً ص214 ، 215 و سانح حیات ص 116 ،117

[17] ایضاًص 186

[18] ایضاً ص 218

[19] جیسا کہ گذشتہ مثالوں میں آپ نے مشائدہ کیا


تحریر ۔ ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے امور خارجہ کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم قم کی کابینہ کی خصوصی نشست میں حج کے موقع پر امت مسلمہ کی شہادتوں اور اہم شخصیات کے لاپتہ ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ نشست سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے امور خارجہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس وقت پورا عالم اسلام سعودی عرب کے خلاف بیدار ہوچکا ہے اور تمام باشعور لوگ سعودی حکمرانوں کی اصلیت کو جان چکے ہیں۔ اراکین کابینہ اور قائم مقام سیکرٹری جنرل حجت الاسلام گلزار احمد جعفری نے اس موقع پر او آئی سی سے خصوصی اپیل کی ہے کہ وہ شہادتوں کی تحقیقات اور لاپتہ ہونے والی شخصیات کی تلاش کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کرے، خصوصاً ایم ڈبلیو ایم قم کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام ڈاکٹر فخرالدین کی گمشدگی کا عالمی سطح پر نوٹس لیا جائے۔ اجلاس میں حکومت پاکستان کی سعودی عرب حکومت کے ساتھ ساز باز پر شدید تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ  وہ اپنے شہریوں کی شہادتوں اور گمشدگی پر سعودی حکومت سے شدید احتجاج کرے اور اس واقعے کی تحقیقات کروائے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم المقدسہ کے سیکریٹری جنرل اور توانا خطیب حجتہ الاسلام علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین سانحہ منیٰ میں لاپتہ ہوئے ہیں ، جن کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگ سکا، اسلام آباد سے کاروان امین اللہ کےہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت کیلئےحجاز مقدس تشریف لے گئے تھے،جہاں منیٰ میں بھگدڑمچنے کے بعد ہزاروں حجاج کرام کچلنے اور دم گھٹنے کے باعث شہیداور زخمی ہوئے ،زخمیوں کومقامی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ، شہید کی لاشوں کو فریزنگ کنٹینرزمیں بند کردیا گیا جبکہ متعدد حجاج اس سانحے کے بعد لاپتہ ہوئے ہیں جن کا کسی اسپتال ،کنٹینریا دوسری جگہ کوئی سراغ نہیں لگ سکاہے،علامہ غلام محمد فخرالدین بھی انہیں لاپتہ حجاج میں شامل ہیں ، ا  ن ہمراہ قافلے میں شامل دیگر حجاج اور مکہ مکرمہ میں موجود ہمدرد دن رات تک ودوکے باوجود ان کی تلاش میں تاحال ناکام رہے ہیں جبکہ حکومت پاکستان اوردفتر خارجہ بھی اب تک سعودی حکومت سے شہید اور لاپتہ پاکستانی حجاج تک رسائی کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھا سکی ہے، علامہ غلام محمد فخرالدین سمیت سینکٹروں گمشدہ حجاج کرام کے اہل خانہ اور احباب شدید کشمش اور پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں اور کوئی داد رسی کرنے والا نہیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree